2012میں فلم اور سینما انڈسٹری پر2ارب خرچ ہوئے
2013میں امید تھی کہ پاکستان میں سینما اور فلم انڈسٹری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، لیکن یہ ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا
پاکستان میں فلم اور سنیما انڈسٹری میں گزشتہ سال بہت تیزی سے سرمایہ کاری کی گئی۔
کراچی میں نئے سنیما گھروں پر15کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی گئی جب کہ اس وقت بھی کراچی لاہور اسلام آباد میں نئے سنیما گھروں کے قیام کے لیے کوششیں جاری ہیں، فلم اور سینما انڈسٹری میں اب تک2ارب کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے لیکن ملکی صورتحال میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد بھی جمود طاری ہے۔ سرمایہ منجمد ہوگیا ہے،جو لوگ مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں انھوں نے حالات کے پیش نظراپنا ارادہ ملتوی کردیا۔
2013میں اس بات کی امید تھی کہ پاکستان میں سینما اور فلم انڈسٹری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، لیکن یہ ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا اور اب تک فلم انڈسٹری کی بحالی پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میںاب بڑے بڑے شاپنگ مال میں جدید اور خوبصورت سنیما گھروں کی تعمیر کا آغاز کردیا گیا ہے ایٹریم مال کے بعد اب متعدد مال میں سنیما گھر بن چکے ہین یا بن رہے ہیںجب کہ ملک کے نوجوانوں پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی اور ترقی کے لیے گزشتہ سال بین الاقوامی معیار کے مطابق فلمیں بنائیں۔
جو ابھی تک نمائش کی منتظر ہیں، ٹیلی ویژن اور جدید سنیما کی سوچ رکھنے والے فلم پروڈیوسرڈائریکٹر شمعون عباسی کی فلم (گدھ) ماڈل اور ادکارہ آمنہ شیخ کی فلم (لمحے) منصور بلوچ کی فلم(جوش) بلال لغاری کی فلم(وار) ہمایوں سعید کی فلم (کپتان اور بوم بوم) تنویر جمال کی فلم (اب پیامبر نہیں آئیں گے) جب کہ ثاقب ملک اور دیگر لوگوں کی فلمیں مکمل ہوچکی ہیں لیکن ملکی حالات اور سنیما مالکان کے عدم تعاون کی وجہ سے وہ اپنی فلمیں نمائش کے لیے پیش کرنے سے قاصر ہیں، مصدقہ ذراعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے پاکستان میں غیر ملکی فلموں کی نمائش میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ترکی اور اسپین کے ٹی وی ڈراموں کے بعد پاکستان میں ترکی،ایران کی فلموں کی بھی نمائش کے امکان ہے جب کہ بھارتی فلمیں تو ایک عرصہ سے پاکستانی سنیما گھروں پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہیںفلم انڈسٹری کے بھر پور احتجاج کے باوجود ان پر پابندی نہیں لگائی جاسکی، ان فلموں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، ملکی خراب صورت حال اور امنامانکے پیش نظراس صورت حال میں کیا اس سال پاکستانی فلم اور سنیما انڈسٹری میں لگایا جانے والا سرمایہ واپس آسکے گا یا پاکستانی فلمیں جو نمائش کی منتظر ہیں انھیں سنیما دستیاب ہو سکیں گے۔
کراچی میں نئے سنیما گھروں پر15کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی گئی جب کہ اس وقت بھی کراچی لاہور اسلام آباد میں نئے سنیما گھروں کے قیام کے لیے کوششیں جاری ہیں، فلم اور سینما انڈسٹری میں اب تک2ارب کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے لیکن ملکی صورتحال میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد بھی جمود طاری ہے۔ سرمایہ منجمد ہوگیا ہے،جو لوگ مزید سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں انھوں نے حالات کے پیش نظراپنا ارادہ ملتوی کردیا۔
2013میں اس بات کی امید تھی کہ پاکستان میں سینما اور فلم انڈسٹری کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا، لیکن یہ ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا اور اب تک فلم انڈسٹری کی بحالی پر کوئی پیش رفت نہ ہوسکی ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میںاب بڑے بڑے شاپنگ مال میں جدید اور خوبصورت سنیما گھروں کی تعمیر کا آغاز کردیا گیا ہے ایٹریم مال کے بعد اب متعدد مال میں سنیما گھر بن چکے ہین یا بن رہے ہیںجب کہ ملک کے نوجوانوں پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی اور ترقی کے لیے گزشتہ سال بین الاقوامی معیار کے مطابق فلمیں بنائیں۔
جو ابھی تک نمائش کی منتظر ہیں، ٹیلی ویژن اور جدید سنیما کی سوچ رکھنے والے فلم پروڈیوسرڈائریکٹر شمعون عباسی کی فلم (گدھ) ماڈل اور ادکارہ آمنہ شیخ کی فلم (لمحے) منصور بلوچ کی فلم(جوش) بلال لغاری کی فلم(وار) ہمایوں سعید کی فلم (کپتان اور بوم بوم) تنویر جمال کی فلم (اب پیامبر نہیں آئیں گے) جب کہ ثاقب ملک اور دیگر لوگوں کی فلمیں مکمل ہوچکی ہیں لیکن ملکی حالات اور سنیما مالکان کے عدم تعاون کی وجہ سے وہ اپنی فلمیں نمائش کے لیے پیش کرنے سے قاصر ہیں، مصدقہ ذراعہ سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت پاکستان نے پاکستان میں غیر ملکی فلموں کی نمائش میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔
ترکی اور اسپین کے ٹی وی ڈراموں کے بعد پاکستان میں ترکی،ایران کی فلموں کی بھی نمائش کے امکان ہے جب کہ بھارتی فلمیں تو ایک عرصہ سے پاکستانی سنیما گھروں پر اپنا تسلط قائم کیے ہوئے ہیںفلم انڈسٹری کے بھر پور احتجاج کے باوجود ان پر پابندی نہیں لگائی جاسکی، ان فلموں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے، ملکی خراب صورت حال اور امنامانکے پیش نظراس صورت حال میں کیا اس سال پاکستانی فلم اور سنیما انڈسٹری میں لگایا جانے والا سرمایہ واپس آسکے گا یا پاکستانی فلمیں جو نمائش کی منتظر ہیں انھیں سنیما دستیاب ہو سکیں گے۔