دی سندھ انفارمیشن آف ٹیمپریری ریذیڈنٹس بل 2015 پولیس کی کمائی کا نیا دھندا
اس کا مقصد مجرمانہ اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل افراد کو شناخت کرنا ہے۔
وطن عزیز گزشتہ کئی دہائیوں سے بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ امن و امان کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے۔ ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کی محافظ و نگہبان ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ریاست اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح سے ناکام ہوئی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد ملک کو ہر طرح کی دہشت گردی اور تخریب کاروں سے پاک کرنا ہے۔ اسی مقصد کے لیے وقتا فوقتا نئے قوانین بنائے جاتے رہے ہیں۔ قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے اور عام شہریوں کا اعتماد بحال اور قائم رہ سکے۔ لیکن ہمارے یہاں ان قوانین کا نشانہ عام شہری بھی بنتے رہتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک ایکٹ '' دی سندھ انفارمیشن آف ٹیمپریری ریذیڈنٹس بل2015 '' بنایا گیا۔ یہ بل سندھ اسمبلی نے 13اپریل 2015 کو پاس کیا تھا اور 12مئی2015 کو گورنر سندھ نے اس کی توثیق کردی تھی۔ اس بل کا بنیادی مقصد صوبۂ سندھ میں بسنے والے ''عارضی مکینوں'' اور بالخصوص کرایہ داروں کی تمام معلومات حکومت کو فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد مجرمانہ اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل افراد کو شناخت کرنا ہے، جس کے نتیجے میں حاصل کردہ معلومات سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں مدد ملے گی اور مختلف جرائم میں ملوث افراد تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔ یہ بل فوری طور پر نافذ العمل ہوگیا تھا۔
اس بل کے تحت ان لوگوں کی معلومات حاصل کرنا بھی مقصود تھا جو عارضی طور پر صوبے کے ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور ہاسٹلوں میں مقیم ہوں۔ اس کے تحت صوبے میں مقیم کرایہ داروں کی تمام بنیادی معلومات حکومت کو فراہم کرنا تھی، تاکہ اس طرح بدقماش لوگوں تک رسائی حاصل کی جاسکے۔
اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ تمام مالکان کو اپنے کرائے داروں کی معلومات ان کے شناختی کارڈز کی نقول ایک فارم جس میں کرایہ داروں کے تمام کوائف، جس میں عمر، جنس، ذات، پیشہ اور دیگر معلومات درج کرکے متعلقہ تھانے میں جمع کرانا لازم قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ مالک مکان اور کرائے دار کے درمیان طے پانے والے کرایہ نامہ کی فوٹو کاپی بھی منسلک کرنا لازمی تھا۔ اس سے نہ صرف متعلقہ تھانے کی حدود میں مقیم کرایہ داروں کی تعداد معلوم کرنا تھا، بلکہ مشکوک افراد کی نشان دہی بھی ممکن بتائی گئی تاکہ ان تک آسانی سے پہنچا جاسکے۔
ملک میں امن و امان کی بدترین صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ اقدامات درست لگتے ہیں۔ لیکن پولیس نے اس ایکٹ کی آڑ لے کر عام شہریوں کو ہراساں کرنا شروع کرکے اسے کمائی کا نیا دھندا بنالیا ہے۔ پولیس نے عام شہریوں کو ان کے گھروں سے صرف اس لیے اٹھانا شروع کردیا کہ ان کے پاس کرایہ نامہ نہیں تھا۔ ایسے معصوم اور بے قصور لوگوں کو صرف اس لیے لاک اپ میں رکھنا کہ ان کے پاس ایگریمنٹ نہیں ہے، یہ کوئی جرم تو نہیں ہے۔ پھر اس طرح کے بھی بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے جب پولیس نے ایسے لوگوں کو کچھ عرصے لاک اپ میں رکھنے کے بعد رشوت لے کر چھوڑ دیا اور جو رشوت نہیں دے سکا اس کے خلاف ایف آئی آر بھی کاٹ دی، تاکہ وہ اپنی ضمانت اور بعد میں عدالت کے چکر کاٹتے رہیں۔ اس کرایہ داری ایکٹ کے تحت مسلسل گرفتاریاں جاری ہیں۔
مکان مالکان کا موقف یہ ہے کہ جب وہ اپنے کرایہ داروں کے کوائف تھانے میں جمع کرانے جاتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر ہراساں کیا جاتا ہے کہ یہ کوائف پہلے کیوں جمع نہیں کرائے اور انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی دے کر رشوت طلب کی جاتی ہے۔ بعض مالکان کی یہ شکایت بھی سامنے آئی ہے کہ جب وہ اپنے کرایہ داروں کے کوائف تھانے میں جمع کرانے جاتے ہیں تو وہ بغیر ''چائے پانی'' قبول نہیں کیے جاتے اور نہ انہیں اس کی وصولی کی رسید دی جاتی ہے۔
اس ایکٹ کی رو سے مالکان کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے کرائے داروں کے کوائف خود جمع کرائیں، یہ کام کرایہ داروں کا نہیں ہے۔ لیکن پولیس ان کرائے داروں کو بھی گرفتار کررہی ہے جن کے مالکان نے ان کے کوائف متعلقہ تھانے میں جمع نہیں کرائے۔ گویا اس ایکٹ کی آڑ میں پولیس کو کمائی کا ایک نیا دھندا مل گیا۔ جہاں تک ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور موٹلز وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ اقدام بالکل درست ہے، لیکن جب بات ان کرایہ داروں کی جائے جو اس صوبے میں اور اس کے شہروں میں طویل عرصے سے رہ رہے ہیں، تو ان کے ساتھ ایسے سلوک کو کسی بھی طور پر جائز نہیں کہا جاسکتا۔
حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ بے شمار کرایہ داروں کو اس پولیس گردی سے بچائے اور عام لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرے۔ حکومت کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مالکان کی شکایات پر بھی توجہ دے، انہیں تھانے میں ہراساں کرنے کا سلسلہ روکا اور پرامن اور قانون پسند شہریوں کا اعتماد بحال کیا جائے۔ بہ صورت دیگر یہ ایکٹ بہ جائے امن و امان کی صورت کو بہتر بنانے کے شہریوں میں حکومت کے خلاف نئی نفرت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔
نیشنل ایکشن پلان کے تحت اب آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا ہے جس کا مقصد ملک کو ہر طرح کی دہشت گردی اور تخریب کاروں سے پاک کرنا ہے۔ اسی مقصد کے لیے وقتا فوقتا نئے قوانین بنائے جاتے رہے ہیں۔ قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچایا جاسکے اور عام شہریوں کا اعتماد بحال اور قائم رہ سکے۔ لیکن ہمارے یہاں ان قوانین کا نشانہ عام شہری بھی بنتے رہتے ہیں۔
اسی طرح کا ایک ایکٹ '' دی سندھ انفارمیشن آف ٹیمپریری ریذیڈنٹس بل2015 '' بنایا گیا۔ یہ بل سندھ اسمبلی نے 13اپریل 2015 کو پاس کیا تھا اور 12مئی2015 کو گورنر سندھ نے اس کی توثیق کردی تھی۔ اس بل کا بنیادی مقصد صوبۂ سندھ میں بسنے والے ''عارضی مکینوں'' اور بالخصوص کرایہ داروں کی تمام معلومات حکومت کو فراہم کرنا ہے۔ اس کا مقصد مجرمانہ اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل افراد کو شناخت کرنا ہے، جس کے نتیجے میں حاصل کردہ معلومات سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے میں مدد ملے گی اور مختلف جرائم میں ملوث افراد تک پہنچنا آسان ہوجائے گا۔ یہ بل فوری طور پر نافذ العمل ہوگیا تھا۔
اس بل کے تحت ان لوگوں کی معلومات حاصل کرنا بھی مقصود تھا جو عارضی طور پر صوبے کے ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور ہاسٹلوں میں مقیم ہوں۔ اس کے تحت صوبے میں مقیم کرایہ داروں کی تمام بنیادی معلومات حکومت کو فراہم کرنا تھی، تاکہ اس طرح بدقماش لوگوں تک رسائی حاصل کی جاسکے۔
اس کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ تمام مالکان کو اپنے کرائے داروں کی معلومات ان کے شناختی کارڈز کی نقول ایک فارم جس میں کرایہ داروں کے تمام کوائف، جس میں عمر، جنس، ذات، پیشہ اور دیگر معلومات درج کرکے متعلقہ تھانے میں جمع کرانا لازم قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ مالک مکان اور کرائے دار کے درمیان طے پانے والے کرایہ نامہ کی فوٹو کاپی بھی منسلک کرنا لازمی تھا۔ اس سے نہ صرف متعلقہ تھانے کی حدود میں مقیم کرایہ داروں کی تعداد معلوم کرنا تھا، بلکہ مشکوک افراد کی نشان دہی بھی ممکن بتائی گئی تاکہ ان تک آسانی سے پہنچا جاسکے۔
ملک میں امن و امان کی بدترین صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ اقدامات درست لگتے ہیں۔ لیکن پولیس نے اس ایکٹ کی آڑ لے کر عام شہریوں کو ہراساں کرنا شروع کرکے اسے کمائی کا نیا دھندا بنالیا ہے۔ پولیس نے عام شہریوں کو ان کے گھروں سے صرف اس لیے اٹھانا شروع کردیا کہ ان کے پاس کرایہ نامہ نہیں تھا۔ ایسے معصوم اور بے قصور لوگوں کو صرف اس لیے لاک اپ میں رکھنا کہ ان کے پاس ایگریمنٹ نہیں ہے، یہ کوئی جرم تو نہیں ہے۔ پھر اس طرح کے بھی بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے جب پولیس نے ایسے لوگوں کو کچھ عرصے لاک اپ میں رکھنے کے بعد رشوت لے کر چھوڑ دیا اور جو رشوت نہیں دے سکا اس کے خلاف ایف آئی آر بھی کاٹ دی، تاکہ وہ اپنی ضمانت اور بعد میں عدالت کے چکر کاٹتے رہیں۔ اس کرایہ داری ایکٹ کے تحت مسلسل گرفتاریاں جاری ہیں۔
مکان مالکان کا موقف یہ ہے کہ جب وہ اپنے کرایہ داروں کے کوائف تھانے میں جمع کرانے جاتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر ہراساں کیا جاتا ہے کہ یہ کوائف پہلے کیوں جمع نہیں کرائے اور انہیں گرفتار کرنے کی دھمکی دے کر رشوت طلب کی جاتی ہے۔ بعض مالکان کی یہ شکایت بھی سامنے آئی ہے کہ جب وہ اپنے کرایہ داروں کے کوائف تھانے میں جمع کرانے جاتے ہیں تو وہ بغیر ''چائے پانی'' قبول نہیں کیے جاتے اور نہ انہیں اس کی وصولی کی رسید دی جاتی ہے۔
اس ایکٹ کی رو سے مالکان کا یہ کام ہے کہ وہ اپنے کرائے داروں کے کوائف خود جمع کرائیں، یہ کام کرایہ داروں کا نہیں ہے۔ لیکن پولیس ان کرائے داروں کو بھی گرفتار کررہی ہے جن کے مالکان نے ان کے کوائف متعلقہ تھانے میں جمع نہیں کرائے۔ گویا اس ایکٹ کی آڑ میں پولیس کو کمائی کا ایک نیا دھندا مل گیا۔ جہاں تک ہوٹلوں، گیسٹ ہاؤسز اور موٹلز وغیرہ کا تعلق ہے تو یہ اقدام بالکل درست ہے، لیکن جب بات ان کرایہ داروں کی جائے جو اس صوبے میں اور اس کے شہروں میں طویل عرصے سے رہ رہے ہیں، تو ان کے ساتھ ایسے سلوک کو کسی بھی طور پر جائز نہیں کہا جاسکتا۔
حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ بے شمار کرایہ داروں کو اس پولیس گردی سے بچائے اور عام لوگوں کی شکایات کا ازالہ کرے۔ حکومت کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مالکان کی شکایات پر بھی توجہ دے، انہیں تھانے میں ہراساں کرنے کا سلسلہ روکا اور پرامن اور قانون پسند شہریوں کا اعتماد بحال کیا جائے۔ بہ صورت دیگر یہ ایکٹ بہ جائے امن و امان کی صورت کو بہتر بنانے کے شہریوں میں حکومت کے خلاف نئی نفرت کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔