سعودی حکومت اور افغان طالبان میں خفیہ مذاکرات تعطل کا شکار
ڈاکٹرغیرت بحیرکی زیرقیادت گلبدین حکمتیارکے تین رکنی وفدکادورہ ریاض،امریکی فوج کے انخلاء کے بعدسعودی کردارپربات چیت
قطرمیں امریکا طالبان مذاکرات کی ناکامی کے بعد سعودی حکومت اورطالبان کے مابین خفیہ مذاکرات میں بھی تعطل پیدا ہوگیا ہے تاہم سعودی حکومت نے افغان مفاہمتی عمل میں اپنا کردار ادا کرنے اور طالبان کو اپنی کڑی شرائط نرم کرنے پرآمادہ کرنے کے لیے دیگرچینلزاستعمال کرنے شروع کردیے ہیں،اس سلسلے میں باوثوق ذرائع نے دعوے کے ساتھ بتایاہے کہ سعودی حکومت نے سیاسی اثرورسوخ کی مالک افغان شخصیات کے ساتھ ساتھ طالبان کے ایسے گروپوں سے بھی رابطے شروع کررکھے ہیں جن کے سخت گیر طالبان قیادت کے ساتھ آسان رابطے ہیں یا جو خود ہتھیار رکھ کر بات چیت کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق سعودی حکومت نے سابق افغان وزیراعظم انجینئر گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی کے ساتھ بھی خصوصی رابطہ کیا ہے جس کے ایک تین رکنی وفد نے سعودی شاہی خاندان کی خصوصی دعوت پر حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور افغان مفاہمتی عمل پر تفصیلی بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق رمضان المبارک سے پانچ روز قبل سعودی عرب کا دورہ کرنے والے تین رکنی وفد کی قیادت حزب اسلامی کے نائب اور گلبدین حکمتیار کے داماد ڈاکٹر غیرت بحیر کررہے تھے۔
وفد میں حزب اسلامی کی پولیٹیکل کمیٹی کے نائب حاجی عبدالمالک اور حزب اسلامی کے شعبہ مالیات کے سربراہ عبدالسلام ہاشمی بھی شریک تھے۔ وفد نے پانچ دن سعودی عرب میں گزارے جہاں وفد کے ارکان کو سرکاری مہمانوں کا پروٹوکول دیا گیا۔ سعودی حکام کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان سے بھی وفد کی ملاقاتیں کرائی گئیں جن میں افغانستان کے اندر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مستقبل میں کردار، طالبان اور حزب اسلامی کی مزاحمت، مستقبل میں طالبان یا حزب اسلامی کی افغان حکومت میں شمولیت کے امکانات اور حال ہی میں واشنگٹن اور کابل کے مابین ہونے والے اسٹریٹجک معاہدے کے بعد مزاحمتی تحریک کے سرگرم گروپوں کے ساتھ مذاکرات میں آنے والے تعطل پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔
ذرائع کے مطابق سعودی حکام نے حزب اسلامی کے وفد سے درخواست کی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں آنے والے تعطل کے حوالے سے سعودی حکومت کی معاونت کی جائے۔ ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سعودی عرب نے مذکورہ کردارافغان صدر حامد کرزئی کی خصوصی درخواست کے بعدادا کرنا شروع کیا ہے۔ حزب اسلامی کے وفد کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے جب حزب اسلامی کے ترجمان انجینئرہارون زرغون سے رابطہ کیاگیاتوانھوں نے تصدیق کی کہ حزب اسلامی کے وفدنے سعودی حکام کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی ہے جن میں امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں سعودی کردارکے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وفد نے سعودی حکومت کے ساتھ اپنامشہور16 نکاتی امن فارمولہ بھی شئیرکیاہے جس میں امریکہ سمیت تمام غیرملکی افواج کو افغانستان سے محفوظ انخلاء کی پیشکش کی گئی ہے، اس امن فارمولے کو سعودی حکام نے سراہاہے اور اس پر عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انجینئر ہارون زرغون کے مطابق امریکا اور موجودہ افغان حکومت کے مابین ہونے والے حالیہ تزویراتی معاہدے کے بعد حزب اسلامی نے انجینئر گلبدین حکمتیار کے حکم پر افغان حکومت اور امریکیوں کے ساتھ مذاکرات ختم کررکھے ہیں تاہم حزب کے سربراہ نے اسلامی مملکتوں اور افغان سیاسی شخصیات یا سیاسی گروہوں کے ساتھ بات چیت پر کوئی قدغن نہیں لگائی کیونکہ حزب اسلامی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بڑے سے بڑے مسائل کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے۔انھوں نے حزب اسلامی کے وفد کی سعودی عرب میں دیگر سرگرمیوں سے لاعلمی کا اظہارکیا۔
ذرائع کے مطابق سعودی حکومت نے سابق افغان وزیراعظم انجینئر گلبدین حکمتیار کی حزب اسلامی کے ساتھ بھی خصوصی رابطہ کیا ہے جس کے ایک تین رکنی وفد نے سعودی شاہی خاندان کی خصوصی دعوت پر حال ہی میں سعودی عرب کا دورہ کیا اور افغان مفاہمتی عمل پر تفصیلی بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق رمضان المبارک سے پانچ روز قبل سعودی عرب کا دورہ کرنے والے تین رکنی وفد کی قیادت حزب اسلامی کے نائب اور گلبدین حکمتیار کے داماد ڈاکٹر غیرت بحیر کررہے تھے۔
وفد میں حزب اسلامی کی پولیٹیکل کمیٹی کے نائب حاجی عبدالمالک اور حزب اسلامی کے شعبہ مالیات کے سربراہ عبدالسلام ہاشمی بھی شریک تھے۔ وفد نے پانچ دن سعودی عرب میں گزارے جہاں وفد کے ارکان کو سرکاری مہمانوں کا پروٹوکول دیا گیا۔ سعودی حکام کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان سے بھی وفد کی ملاقاتیں کرائی گئیں جن میں افغانستان کے اندر امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مستقبل میں کردار، طالبان اور حزب اسلامی کی مزاحمت، مستقبل میں طالبان یا حزب اسلامی کی افغان حکومت میں شمولیت کے امکانات اور حال ہی میں واشنگٹن اور کابل کے مابین ہونے والے اسٹریٹجک معاہدے کے بعد مزاحمتی تحریک کے سرگرم گروپوں کے ساتھ مذاکرات میں آنے والے تعطل پر بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔
ذرائع کے مطابق سعودی حکام نے حزب اسلامی کے وفد سے درخواست کی ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں آنے والے تعطل کے حوالے سے سعودی حکومت کی معاونت کی جائے۔ ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ سعودی عرب نے مذکورہ کردارافغان صدر حامد کرزئی کی خصوصی درخواست کے بعدادا کرنا شروع کیا ہے۔ حزب اسلامی کے وفد کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے جب حزب اسلامی کے ترجمان انجینئرہارون زرغون سے رابطہ کیاگیاتوانھوں نے تصدیق کی کہ حزب اسلامی کے وفدنے سعودی حکام کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی ہے جن میں امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں سعودی کردارکے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وفد نے سعودی حکومت کے ساتھ اپنامشہور16 نکاتی امن فارمولہ بھی شئیرکیاہے جس میں امریکہ سمیت تمام غیرملکی افواج کو افغانستان سے محفوظ انخلاء کی پیشکش کی گئی ہے، اس امن فارمولے کو سعودی حکام نے سراہاہے اور اس پر عمل کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ انجینئر ہارون زرغون کے مطابق امریکا اور موجودہ افغان حکومت کے مابین ہونے والے حالیہ تزویراتی معاہدے کے بعد حزب اسلامی نے انجینئر گلبدین حکمتیار کے حکم پر افغان حکومت اور امریکیوں کے ساتھ مذاکرات ختم کررکھے ہیں تاہم حزب کے سربراہ نے اسلامی مملکتوں اور افغان سیاسی شخصیات یا سیاسی گروہوں کے ساتھ بات چیت پر کوئی قدغن نہیں لگائی کیونکہ حزب اسلامی اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ بڑے سے بڑے مسائل کا حل بات چیت سے ہی ممکن ہے۔انھوں نے حزب اسلامی کے وفد کی سعودی عرب میں دیگر سرگرمیوں سے لاعلمی کا اظہارکیا۔