دو کشتیوں کے سوار

بھارت کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے آزادی کے بعد جس سیاسی راستے پر رواں کیا، وہ آزاد خارجہ پالیسی کی راہ تھی


Anis Baqar March 31, 2017
[email protected]

لاہور: بھارت کو پنڈت جواہر لعل نہرو نے آزادی کے بعد جس سیاسی راستے پر رواں کیا، وہ آزاد خارجہ پالیسی کی راہ تھی، مگر اس کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب تھا، یعنی روس اور اس کے اتحادی۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ بھارت کی آزادی کے بعد مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو نے بھارت کو آزاد خارجہ پالیسی پر گامزن رہنے کا پابند کیا، مگر رفتہ رفتہ آر ایس ایس (RSS) کے نظریات اور بھارتی سرمایہ دار ایک راہ پر گامزن ہوئے اور وہ آزاد خارجہ پالیسی کو چھوڑ کر کٹر مذہبی ہندو مذہب کی پالیسی پر عمل پیرا ہوگئے اور اب ایسا لگتا ہے کہ بابری مسجد، گؤماتا ان کا الیکشن اسٹنٹ بن گیا ہے، اس طرح وہ ہندو مذہب کے انتہاپسندوں کو اپنے اردگرد جمع کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں۔

اس طرح مسلمانوں کو وہ دباؤ میں رکھنے میں کامیاب ہورہے ہیں جیسا کہ کشمیری محاذ پر نمایاں نظر آرہا ہے۔ اس طرح اس کا ردعمل پاکستان میں ہورہا ہے اور یہاں پر بنیادپرستی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر یہ صورت حال یونہی بڑھتی رہی تو وہ دن دور نہیں جب ستی کی رسم دوبارہ جنم لے سکتی ہے، مگر وہاں کا مذہبی گروہ ایسا اس لیے نہیں کرے گا کیونکہ اس طرح عورتوں میں اعلانیہ بغاوت کا امکان ہے۔ اس لیے ستی کا وقت شاید دوبارہ نہ آئے، البتہ اس کے اثرات پاکستان میں پڑتے رہیں گے اور پاکستان میں ردعمل کے طور پر مذہبی رجحانات کا فروغ خودبخود ہوتا رہے گا، جو پاکستان میں شدت پسندی کی مشینری کو فروغ کا باعث ہے۔

ظاہر ہے جب بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو اس کا اثر پاکستان میں پڑتا ہے۔ اور رد عمل کی سیاست کو توانائی ملتی ہے۔ مگر ایک بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ یوپی اور گجرات کی سیاست میں شدت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے اور کشمیر کے عوام پر مظالم سے بھارت میں مذہبی تصادم کی فضا روز افزوں ترقی کررہی ہے، جس سے برصغیر پاک و ہند میں امن کی فضا کو نقصان ہورہا ہے، مگر بھارت نے بڑی سرعت کے ساتھ اسرائیل، امریکا اور خلیجی ریاستوں سے تعلقات میں استحکام پیدا کردیا ہے، کیونکہ سی پیک کی مضبوطی سے خلیجی ریاستوں کے کاروبار کو بھی جھٹکا لگنے کا اندیشہ ہے، یہاں کاروباری روابط یقیناً منفی اثرات پیدا کریں گے جس کا پاکستان کے سیاست دانوں کو اندازہ نہیں ہے، کیونکہ گوادر، دبئی کی مارکیٹ پر بری طرح اثر انداز ہوگا، مگر بھارت نے واضح طور پر اپنی الگ گزرگاہ کو مضبوط کرنے کی ٹھان رکھی ہے اور سی پیک کو نظر انداز کرنا اس کا مطمعِ نظر ہے اور اب اس نے اسرائیل کو مسلم دشمنی میں اپنا حمایتی بنا رکھا ہے۔

اس طرح اب عالمی پیمانے پر اسرائیل، بھارت، امریکا اور خلیجی ریاستوں کی ایک راہ ہے جب کہ روس، چین عالمی اتحاد سی پیک سے استفادہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، مگر اس موقع پر پاکستان کی وزارت خارجہ کنفیوژ (Confuse) یعنی تذبذب کا شکار ہے اور ہمارے ملک کے سیاسی مدبرین اور کسی حد تک عسکری قیادت بھی 39 ممالک کے اسلامی اتحاد کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں، مگر 39 ممالک کا اتحاد اور روس، ایران اتحاد اس کا واضح مخالف ہے۔ گو کہ ہمارے اخبارات میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ہماری قیادت ایران اور سعودی عرب کو قریب تر لائے گی مگر اس بیان پر اگر غور کیا جائے تو صورت حال بالکل متضاد نظر آئے گی۔ ایک پاکستانی انگریزی اخبار نے اس اتحاد کو مسلم نیٹو قرار دیا ہے اور اب خود سمجھ لیں کہ نیٹو اور رشین فیڈریشن کے نکتۂ نظر میں کیا فرق ہے۔ خاص طور سے گزشتہ ایک ہفتے کی سیاسی صورت حال عجیب و غریب ہے۔

ابھی چند روز قبل ایرانی صدر کی ماسکو روانگی اور 28 مارچ کو روس نے باضابطہ طور پر ایرانی فوجی ہوائی اڈے استعمال کرنے کی اجازت لے لی ہے، جو اس علاقے کی سیاسی صورت حال میں ایک بڑی تبدیلی ہے، اس کے علاوہ 27 مارچ کو رشین ٹیلی ویژن (RT) اور پریس ٹی وی نے شمالی یمن میں اتحادی افواج کے کلسٹر بم (Cluster Bomb) گرانے کی خبر نشر کی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یمن کا محاذ ایک نئی جنگ کی سمت بڑھ رہا ہے، جس میں روس، چین، ایران اس اسلامی اتحاد کے خلاف نظر آرہا ہے اور بحر ہند میں بھارت اور امریکا کا میری ٹائم اتحاد ایک مشکوک اتحاد ہے، جس کو پاکستان اچھی نظر سے نہیں دیکھتا، اس بات کا اظہار مشیر قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے کیا۔ بقول ان کے بحر ہند میں 3½ لاکھ امریکی اور بھارتی افواج موجود ہیں، لہٰذا ایسی صورت حال میں کون کس کا حامی ہوگا اور یہ راستہ کس طرف جاتا ہے، اس کا تجزیہ ملک کے سیاسی اور عسکری دانشوروں کو کرنے کی ضرورت ہے۔

اب جب کہ یمن ایک جنگ زدہ علاقہ ہے اور روس اور چین دونوں عالمی اتحادی ہیں ابھی شمالی کوریا کے معاملے میں دونوں ملکوں نے یک زبان ہوکر شمالی کوریا کے خلاف امریکا کے دفاعی نظام کی مذمت کی ہے ان اشاروں اور اعلانات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی پیمانے پر کون کس کے ساتھ ہے گو کہ روس کا اقتصادی نظام اب سوشلسٹ نہیں رہا، مگر سابق معاہدے جوں کے توں چلے آرہے ہیں لہٰذا موجودہ اسلامی افواج کا اتحاد ایک خوش آیند بات ہے، مگر یہ اتحاد یا اتفاق کس کے ساتھ ہی اور کن قوتوں کے مخالف ہے۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ حلب کی جنگ میں انسانی زندگیوں کی لاکھوں میں تباہی اور موجودہ دنوں میں موصل میں ہر روز کئی سو لوگوں کی اموات جاری ہیں، لہٰذا پاکستان کو ایسی ہر قسم کی جنگ و جدل سے دور رہنے کی ضرورت ہے، جب کہ چین، روس کا اتحادی اور ہمارے سی پیک کا ستون ہے۔

ہمیں دور رس نگاہیں اور ہر سمت کی راہداری پر نظر رکھنی ہوگی کہ کہیں ہماری حکمت عملی کی بے ترتیبی سے صورت حال نہ بدل جائے، بلکہ موصل کی جنگ بھی کس کروٹ بیٹھتی ہے اور خارجہ پالیسی کس سمت مڑتی ہے۔ کیونکہ عراق کی خارجہ پالیسی جلد یا بدیر اپنا راستہ طے کرے گی۔ ظاہر ہے وہ کسی صورت بھی اس نئے اسلامی فوجی اتحاد میں شامل نہ ہوگی بلکہ اس بات کے وسیع امکانات ہیں کہ عراق آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہوگا۔ اور اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ عراق کی سیاسی حکمت عملی ایران کے یکسر ساتھ نہ ہوگی لیکن متصادم نہ ہوگی اور سعودی عرب کی بھی حامی نہ ہوگی لہٰذا ایسی صورت حال میں 39 ممالک کا اتحاد ایسا لگتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں امریکی مفادات کو لے کر آگے بڑھے گا اور اگر یہ صورتحال اس طرح بڑھی تو وسطی ایشیائی ریاستیں کبھی بھی اس 39 ملکی اتحادی سے ہرگز منسلک نہ ہوN گی۔

کیونکہ وہ سابق سوویت ریاستیں ہیں اور وہاں کی ثقافت پر روس کا گہرا اثر ہے یہ بات مجھ سے زیادہ خود پاکستان کی بیوروکریسی جانتی ہے مگر امریکی دباؤ کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی کی جانب سے یہ ددباؤ ڈالا جاتا رہا خصوصاً بلاول بھٹو کی جانب سے پاکستان کا کوئی وزیر خارجہ ہونا چاہیے۔ حالانکہ وزارت خارجہ سے ملک کی اقتصادی صورت حال تو نہیں بدلتی لیکن ایک اچھا وزیر خارجہ ملک کی تقدیر کو بدل دیتا ہے وہ صرف معاشی مشکیزہ بھرنے کا عزم نہیں رکھتا بلکہ ملک کو تصادم سے بھی بچاتا ہے مگر موجودہ صورت حال پاکستان کے لیے پر خطر ہے۔ اس بات کا ادراک پاکستانی قوم اور سیاستدانوں کو نہیں۔ مگر 27 مارچ کو عمران خان نے راحیل شریف کے اس اقدام کو ملک کے لیے پر خطر قرار دیا ہے جس میں وہ اسلامی فوج کے سربراہ بنے ہیں اور عمران خان نے یہ بھی کہاکہ انھوں نے اپنے ماضی کی کارکردگی کو چوپٹ کردیا جن 39 ممالک کے وہ سربراہ بننے جارہے ہیں وہ سب امریکا کے محتاج ہیں اور تمام امریکی اسلحے کے خریدار ہیں مگر حال ہی کی بات ہے کہ امریکی ڈیفنس سیکریٹری جیمس میٹس (James Mattis) نے سعودی عرب کو اسلحے کے تعاون سے خبردار کیا ہے کیونکہ یمن کی صورت حال تشویش ناک ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی اور ولادی میر پوتن نے اس ہفتے جہاں دوسرے معاملات پر گفتگو کی ہے وہاں یمن بھی زیر غور آیا اور یہ معاہدہ کہ روس ایران کے مابین فوجی معاہدہ خطرے کی گھنٹی ہے خاص طور سے سی پیک کے دو حلیف روس اور چین ہر مسئلے پر یک زبان ہیں اور امریکا خود اپنے معاملات میں الجھا ہوا ہے کیونکہ 28 مارچ کی خبر ہے آر ٹی کے وہائٹ ہاؤس کے پارلیمانی علاقے پر فائرنگ ہوئی ہے اور اس کو لاک (Lock) کردیا گیا ہے۔ پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے یہ روس اور امریکا کی بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ سمندر سے گہر تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |