ایک منفرد ادبی معرکہ

شاعری، ڈرامہ، افسانہ، ناول، تنقید کے نئے افق مٹتے اور معدوم ہوتے محسوس ہو رہے ہیں


Tanveer Qaisar Shahid March 31, 2017
[email protected]

لاہور: ابھی اُس شاندار دَور کو گزرے زیادہ عرصہ نہیں ہُوا ہے جب ہمارے ملک کے ہر بڑے شہر سے بڑے اہتمام کے ساتھ ممتاز ادبی جرائد شایع ہُوا کرتے تھے۔ ان میں محبت بھی ہوتی تھی، محنت بھی اور کمٹمنٹ بھی۔ آرٹ اور ادب کی جتنی بھی اقسام اور اصناف ہیں، یہ جرائد اُنہیں زندہ رکھے ہُوئے تھے۔ اِنہی اصناف نے ہماری سماجی اور قومی زندگی میں توازن قائم کر رکھا تھا۔ یکا یک نام نہاد جدید زندگی کے کارن معاشرے میں ایسی اتھل پتھل ہُوئی ہے کہ معروف اور غیر معروف ادبی جرائد کا وجود عنقا سا ہو گیا ہے۔

شاعری، ڈرامہ، افسانہ، ناول، تنقید کے نئے افق مٹتے اور معدوم ہوتے محسوس ہو رہے ہیں۔ ایسے ''ادبی قحط'' کے ماحول میں اگر کسی طرف سے کوئی ادبی رسالہ طلوع ہوتا ہے تو ایک خوشگوار حیرت کے ساتھ یک گونہ اطمینان بھی ہوتا ہے کہ ابھی ہماری ادبی روایات پوری طرح مٹی نہیں ہیں اور یہ کہ کہیں کہیں ٹمٹما کر اپنے روشن وجود کا احساس ضرور دلا رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک تازہ مثال تاریخ ساز اور تاریخی ادبی جریدے ''ماہِ نَو'' کی تازہ اشاعت نے قائم کی ہے۔ جناب محمد سلیم (بیگ) کی نگرانی اور زیر ہدایت وزارتِ اطلاعات (کے شعبہDEMP(کی طرف سے شایع ہونے والے ''ماہِ نَو'' نے538 صفحات پر اپنا ایک ''انتخاب ایڈیشن نمبر'' شایع کیا ہے۔

اِسے اپنی مثال آپ کہا جانا چاہیے کہ اُردو ادب میں ہماری جتنی بھی مروّج روایات اور اصناف ہیں، اُنہیں ایک بار پھر زندہ کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخاب گزشتہ 28 برسوں (1987ء تا 2015ء)کے ادبی معرکوں پر مشتمل ہے۔ کئی فراموش شدہ ادیبوں، شاعروں، ڈرامہ نگاروں اور افسانہ نویسوں کی حیات آفریں تخلیقات پھر سے یاد دلا دی گئی ہیں۔ انتخاب میں نہایت احتیاط سے کام لیا گیا ہے۔ زیر نظر ''انتخاب ایڈیشن'' کے نگرانِ اعلیٰ جناب محمد سلیم بیگ نے مجھے یہ خوشخبری بھی سنائی ہے کہ عنقریب اِس کی دوسری جِلد بھی سامنے لائی جا رہی ہے۔ زیر مطالعہ شمارے میں کئی انکشافات کے حامل کئی انٹرویو بھی شامل کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر بتایا گیا ہے کہ اردو افسانے کے ایک معروف نام، منشی پریم چند، کو ''ہندوؤں نے خرید لیا تھا تاکہ وہ اُردو میں نہ لکھا کریں۔''

(صفحہ71) اس واقعہ سے نئی نسل کو پتہ چلتا ہے کہ ہندو بر صغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی زبان، اُردو، کے بارے میں کس قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔ اِسی تعصب کا شاخسانہ ہے کہ آج بھارت میں دانستہ اردو زبان کو مٹانے اور نابود کرنے کی کوششیں بروئے کار ہیں۔ معروف ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم ڈاکٹر محمد باقر نے علامہ اقبال کے بارے میں جو گفتگو کی ہے، یہ منفرد بھی ہے اور بہت سے تاریخی دریچے بھی وا کرتی ہے۔ ان کا لطف اس جریدے کے براہ راست مطالعہ ہی سے اُٹھایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر باقر صاحب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ''ہیر'' کے شاعر، وارث شاہ، کا کوئی وجود نہیں ہے (صفحہ 74) یہ بات بھی سامنے لائی گئی ہے کہ سعودی عرب کے سابق فرمانروا شاہ فیصل مرحوم اُردو زبان میں بخوبی بات چیت کر سکتے تھے۔

نہایت قیمتی اور چہار رنگے گلیزنگ پیپر پر شایع کیے جانے والے زیر نظر ''ماہِ نَو'' کے ''انتخاب ایڈیشن'' کے فرنٹ اور بَیک ٹائٹل پر اُردو کے مشہور 43 ادیبوں اور شاعروں کی نایاب تصاویر شایع کی گئی ہیں۔ دیکھا جائے تو ''ماہِ نَو'' کے اس خاص شمارے کو پراگریسو اور روشن خیالی کی لُک دی گئی ہے۔ اس سے ہماری وزارتِ اطلاعات کا رخِ روشن بھی سامنے آتا ہے۔ حاصلِ مطالعہ کے نام سے کتابوں پر 6 تبصرے بھی شاملِ اشاعت ہیںلیکن یہ بات سمجھ میںنہیں آئی کہ صفحہ326 پر ڈاکٹر انور سدید صاحب کا دو صفحات پر لکھا گیا ''تبصرہ'' کیا معنی رکھتا ہے؟

ناول اور افسانہ پڑھنے والوں کے ذہن میں ہمیشہ یہ تجسس رہتا ہے کہ ناول نگار اور افسانہ نویس کی اپنی شاہکار تخلیق کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اس بھید کو جاننے اور اس گُتھی کو سلجھانے کے لیے زیر مطالعہ جریدے میں ممتاز مفتی، احمد ندیم قاسمی، قرۃالعین حیدر اور عبداللہ حسین کے نہائیت ذہن کشا مکالمے شامل کیے گئے ہیں۔ ان نایاب انٹرویوز میں چاروں عظیم ادیبوں نے اپنے بلند پایہ ناولوں (مثال کے طور پر: علی پور کا ایلی، آگ کا دریا، میرے بھی صنم خانے، اداس نسلیں،کپاس کا پھول وغیرہ) کے بارے قارئین اور نقادوں کے ذہنوں میں کلبلاتے کئی سوالات کے اطمینان بخش جواب بھی دیے ہیں اور اپنی ادبی زندگی سے جُڑے کئی ذاتی سوالات کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا، جنہوں نے تنقید اور انشایئہ نگاری میں اہم مقام پایا ہے، کی خود نوشت سوانح حیات ''شام کی منڈیر سے'' پر جناب انتظار حسین کا لکھا گیا ریویو کتاب کے مصنف کی کئی نفسیاتی پرتوں کو منکشف کرتا ہے۔ ''اسلامی ممالک میں سائنس کا مستقبل'' کے مشکل موضوع پر نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کا ایک وقیع مضمون بھی دیا گیا ہے۔ اس کا آسان فہم ترجمہ جناب شہزاد احمد نے کیا ہے۔

ہمارے ہاں ہمیشہ یہ استفسار کیا جاتا ہے کہ پاکستان بنانے اور تحریکِ پاکستان میں ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے کیا اور کہاں تک کردار ادا کیا؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے احمد ندیم قاسمی، انجم رومانی، رضی عابدی اور شہزاد احمد کا مکالمہ پیش کیا گیا ہے (صفحہ518) تحریکِ پاکستان میں ادیبوں اور شاعروں کی خدمات گنواتے ہُوئے شرکائے بحث نے ظفر علی خان، میاں بشیر احمد، اسرارالحق مجاز، منٹو، خدیجہ مستور وغیرہ کے نام گنوائے ہیں۔ اس دلکش شمارے کی قیمت چار سو روپے ہے۔ رابطے کا پتہ یہ ہے: ماہِ نَو، ریجنل آفس291 اے، ایم اے جوہر ٹاؤن۔ لاہور۔ فون نمبر : 0423 522 3278

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں