وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات
گویا دنیا کے تمام لوگوں کے پاس اپنا اپنا گھر ہوگا اور دنیا کا کوئی بھی انسان بے گھر نہ ہوگا
لاہور:
فلم ''چراغ جلتا رہا'' سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے لیجنڈ اداکار محمدعلی نے ہدایت کار ایم اے رشید کی فلم ''آدمی'' میں ایک مکالمہ بولا تھا، وہ مکالمہ یہ تھا کہ ''میں ایسے نظام کو تسلیم نہیں کرتا جج صاحب! جس نظام میں ایک انسان کے پاس کروڑوں روپے ہوں اورکروڑوں انسانوں کے پاس ایک روپیہ بھی نہ ہو۔'' خیال رہے کہ فلم ''آدمی'' آج سے کوئی چالیس برس قبل پاکستانی سینماؤں کی زینت بنی تھی ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر عصرحاضر میں یہ فلم یعنی ''آدمی'' تیارکی جاتی تو یقیناً فلمسٹارمحمد علی اپنے اس فلمی مکالمے میں لفظ کروڑوں روپے نہیں بلکہ کروڑوں ڈالرکا لفظ استعمال کرتے کیونکہ اس زمانے میں بڑے بڑے سرمایہ دارکروڑ پتی ہی ہوا کرتے تھے۔
فلم ''آدمی'' میں ادا کردہ مکالمہ ہمیں اس لیے یاد آیا کہ چند یوم قبل جب ہم فقط چاریوم کے لیے لاہور و راولپنڈی گئے تو راولپنڈی میں ایک تقریب میں ایک دانشور نے اپنی گفتگو کے دوران یہ انکشاف کر کے تمام حاضرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ دنیا میں وسائل کی تقسیم میں عدم مساوات کے باعث دنیا کے آٹھ امیر ترین خاندان اس قدر سرمائے کے مالک ہیں کہ ان کے مقابل دوسری جانب کیفیت یہ ہے کہ دنیا کے تین سو ساٹھ کروڑ انسانوں کے زیر استعمال جو وسائل ہیں وہ ان آٹھ امیر ترین خاندانوں کے مساوی ہیں۔ یہ ہے آج کے سرمایہ داری نظام جسے جمہوریت کہا جاتا ہے کا کمال۔
معاشیات کے ماہرین یہاں تک خیال ظاہر کرتے ہیں کہ اگر دنیا کے اول نمبر سے دس نمبر کے امیر ترین لوگوں کی دولت کی مناسب طریقے سے سرمایہ کاری کی جائے تو پوری دنیا سے غربت کا خاتمہ ہوجائے، مطلب یہ کہ دنیا کے سات سو کروڑ لوگوں کو پیٹ بھر کے روٹی ملے گی دنیا بھر سے جہالت کا خاتمہ ہوجائے گا یعنی دنیا کے تمام انسان زیور تعلیم سے آراستہ ہوں گے دنیا بھر سے بے روزگاری ختم ہوجائے گی اور دنیا کے تمام انسان برسر روزگار ہوجائیں گے مطلب یہ کہ دنیا کے سات سو کروڑ انسانوں کے پاس اپنی چھت ہوگی۔
گویا دنیا کے تمام لوگوں کے پاس اپنا اپنا گھر ہوگا اور دنیا کا کوئی بھی انسان بے گھر نہ ہوگا ۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں سات سوکروڑ انسانوں کو زیب تن کرنے کے لیے پوشاک ملے گی، یعنی دنیا کا کوئی بھی انسان بے لباس نہ ہوگا، یہ لباس کے نام پر دھجیاں زیب تن کرنا بے لباس ہونا ہی تو ہے پھر یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا کے سات سو کروڑ انسانوں کو صحت کی بہترین سہولیات حاصل ہوں گی یعنی کہ دنیا میں کوئی بھی انسان صحت کی سہولیات سے محروم نہ ہوگا یعنی بغیر علاج کے کوئی بھی مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہیں مرے گا، البتہ موت برحق ہے جس سے انحراف ممکن ہی نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب ممکن ہے تو پھر رکاوٹ کیا ہے؟ تو رکاوٹ ہے سرمایہ داری نظام،اس سرمایہ داری نظام ہی کا کمال ہے کہ دنیا بھر کے وسائل پر فقط چند لوگ بڑی سرعت سے قابض ہو رہے ہیں اور ایک حقیقت بھی بیان کی جاتی ہے کہ عصر حاضر میں دنیا کے چودہ فیصد انسان دنیا کے چھیاسی فیصد وسائل پر قابض ہوچکے ہیں جب کہ دنیا کے چھیاسی فیصد انسانوں کے زیر انسان فقط چودہ فیصد وسائل ہیں ۔
یہ ہے عدم مساوات کا عالم یا دنیا کی حقیقی تصویر جب کہ دنیا بھر کے حکمران آئے روز یہ دعویٰ کرتے ہوئے نہیں تھکتے کہ دیکھو ہمارے دور حکمرانی میں ہمارے سماج میں کس قدر ترقی ہو رہی ہے افسوس کہ اس سرمایہ داری نظام کو جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔درحقیقت یہ جمہوریت ہے ہی نہیں بلکہ یہ سرمایہ داری آمریت ہے جب کہ اس سرمایہ داری آمریت کو بھی یہ کہہ کر قبول کرنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے عرض یہ ہے کہ کس نے کہا ہے کہ جمہوریت بدترین بھی ہوتی ہے ممکن ہی نہیں کہ جمہوریت بدترین ہو جمہوریت تو بہترین ہی ہوتی ہے میں حقیقی جمہوریت کی بات کر رہا ہوں۔
سرمایہ داری نظام حکومت کی نہیں جسے جمہوریت کا دنیا بھر میں لبادہ اوڑھایا گیا ہے یہ روش فقط غریب ممالک تک نہیں ہے بلکہ امریکا و برطانیہ تک قائم ہے کہ سرمائے کے بل بوتے پر پریس میڈیا و الیکٹرانک میڈیا ودیگر ذرایع ابلاغ پر قبضہ کرو اور ان ذرایع ابلاغ کو انتخابی مہم میں اپنے حق میں استعمال کرو اور انتخابات میں کامیابیاں حاصل کرو، مگر نعرہ یا دعویٰ یہی کرو کہ یہ جمہوری عمل ہے جب کہ امریکا میں ری پبلکن پارٹی و ڈیموکریٹک پارٹی کا یہ طرز عمل ہے تو دوسری جانب برطانیہ میں بھی یہی کیفیت ہے کہ اگرچہ برطانیہ میں بھی دو پارٹی نظام قائم ہے یعنی لیبر پارٹی و کنزرویٹیو پارٹی مگر دونوں سیاسی پارٹیاں زر کثیر کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ لیبر پارٹی میں ایک بھی محنت کشوں کی نمایندگی کرنے والا رکن نہیں البتہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پھر اس پارٹی نے اپنا نام لیبر پارٹی کیوں رکھا ہوا ہے؟ کیونکہ لیبرکا مطلب تو محنت کش ہونا ہے ۔البتہ یہ مقصد ہی ہوسکتا ہے کہ اپنی پارٹی کا نام لیبر پارٹی رکھو اور محنت کشوں کے ووٹ حاصل کرو اور اس سرمایہ داری آمریت کو جمہوریت کا نام دو البتہ یہ سرمایہ داری نظام حکومت عام شہری کو کیا دیتا ہے؟ تو امریکا ہی کی مثال دی جاسکتی ہے جہاں بے روزگاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے یعنی امریکا میں اس وقت لگ بھگ تین کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ ایسے لوگ لاکھوں میں ہیں جن کی حاصل کردہ آمدنی اس قدر قلیل ہے کہ بیماری کی کیفیت میں یہ لوگ یا تو اس روز کھانا کھا لیں یا دوا لے لیں پھر ایسے لوگ بھی لاکھوں میں ہیں جوکہ غربت کے باعث خیراتی اداروں میں جاکر کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔
اب اگر بات کریں ایشیائی ممالک کی تو بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، برما، افغانستان کی تو ان ممالک میں غربت عریاں نظر آتی ہے بلکہ یہ کیفیت جاپان تک میں ہے۔ جہاں کھانے کے نام پر چند نوالے چاول و چٹنی جیسا تھوڑا سا سالن عام لوگوں کو دستیاب ہوتا ہے وطن عزیز میں کیفیت یہ ہے کہ یہاں غربت عریاں نہیں ہے کیونکہ یہاں ترقی یافتہ ممالک کی نظر عنایت کے باعث لنڈا بازار قائم ہیں۔ ان لنڈا بازاروں کے دم سے ہماری غربت مخفی ہے البتہ عوام کی اکثریت متوازن غذا کے نام سے بھی گویا نابلد ہیں جن میں مچھلی، مرغی، بکری کا گوشت وگائے کا گوشت اب تو لوگ دال سبزی سے بھی دور ہی ہوتے جا رہے ہیں یعنی ان کی قوت خرید کم ہو رہی ہے۔
یوں بھی دال ماش کی فی کلو قیمت ہے 320 روپے جب کہ دیگر دالوں و سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں رہا سوال روزگار، تعلیم، خوراک، رہائش، صحت کی سہولیات پوشاک تو خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنھیں یہ چیزیں دستیاب ہیں اگرچہ یہ لوگ عددی اعتبار سے چند ہی ہیں مگر اس قدر تمام تر سہولیات سے محروم ہونے کے باوجود ہمارے سماج کا ہر شہری گویا ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے کا مقروض ہے اب اگر ہمارے سماج کے لوگوں کو اپنے مسائل سے نجات حاصل کرنا ہے تو ان لوگوں کو یہ کہنا ہوگا کہ ہمارے حقوق ہمیں دو۔ یہ الفاظ کہ اپیل کرتا ہوں گزارش ہے درخواست کرتا ہوں جیسے الفاظ ترک کرنا ہوں گے جیسے کہ پنجابی زبان کے نامور شاعر بابا نجمی کا شعر ہے کہ ''جیہڑے ساڈے حق نئیں دیندے' ایسی تیسی اونھاں دی''
مطلب یہ کہ جو ہمارے حقوق نہ دیں ان کی ایسی تیسی۔ یاد رکھیں جبر و استحصال کی زنجیریں آنسو بہانے سے نہیں ٹوٹتیں بلکہ جدوجہد کی طالب ہوتی ہیں۔