مفاہمتی سیاست کا متوقع انجام
میاں صاحب نے وعدہ پورا نہ ہونے پر ججوں کی بحالی کے لیے تحریک چلا کرکامیابی حاصل کی تھی
ISLAMABAD:
پیپلزپارٹی کے حقیقی سربراہ اورسابق صدرآصف علی زرداری نے حکومت کے ساتھ اپنی چار سالہ سیاسی مفاہمت کا اعتراف کرتے ہوئے مفاہمتی سیاست کے خاتمے کا یکطرفہ اعلان کردیا ہے۔ سابق صدر بھول گئے کہ ان کی مفاہمتی سیاست کا آغاز 2008 کے عام انتخابات سے ہوا تھا اور اس سے قبل لندن میں میاں نوازشریف اورمحترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان بھی ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے مطابق دونوں سابقہ وزرائے اعظم نے آیندہ کے لیے میثاق جمہوریت کے تحت ملک میں جمہوریت کی بحالی، جمہوریت برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کی حکومت کے غیر جمہوری خاتمے کے لیے کوئی احتجاج یا تحریک نہ چلانے کا مشترکہ فیصلہ کیا تھا۔
محترمہ کی شہادت کے بعد میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت کے مطابق اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی کے ساتھ مشترکہ حکومت بھی قائم کی تھی جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے وزرا شامل تھے جو ججوں کی بحالی کے مسئلے پر صدر زرداری کے عمل نہ ہونے پر میاں نواز شریف چند ماہ بعد ہی مشترکہ حکومت سے الگ ہوگئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی ناراضگی کے بعد صدر زرداری نے متحدہ اور جے یو آئی کو حلیف بناکر حکومت میں شامل کرلیا تھا مگر میثاق جمہوریت پر عمل کرنے کے لیے مسلم لیگ(ن) فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے لگی تھی اورچوہدری نثار علی کو اپوزیشن لیڈر اوراکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین بنایا گیا تھا جب کہ اس سے پہلے حکومتی رکن ہی چیئرمین ہوا کرتا تھا۔
میاں صاحب نے وعدہ پورا نہ ہونے پر ججوں کی بحالی کے لیے تحریک چلا کرکامیابی حاصل کی تھی اورصدر زرداری چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو کسی صورت بحال نہیں کرنا چاہتے تھے مگر نواز شریف کی تحریک سے جج بحال ہوئے اور بقول صدر زرداری بحالی کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری پی پی حکومت کے لیے مسئلہ بنے رہے ۔ وزیراعظم گیلانی نے صدر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایت پر سوئس بینکوں کو خط نہ لکھا اور خود کو نااہل کرالیا اور صدر زرداری سے وفاداری نبھائی۔
مسلم لیگ (ن) کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین چوہدری نثار پی اے سی کی سربراہی سے مستعفی ہوگئے اور پی پی اپنا چیئرمین لے آئی مگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کے مطابق 5 سال پورے ہونے کا انتظار کرتے رہے ۔ (ن) لیگ نے ماضی کی طرح پی پی حکومت کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی اور فرینڈلی اپوزیشن کا کردار خاموشی سے ادا کیا جاتا رہا۔
شہباز شریف کی سربراہی میں پنجاب حکومت نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر 2013 میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے جب بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تو صدر زرداری کی مدت ختم ہونے والی تھی جن کی پیپلز پارٹی سندھ میں دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ مدت مکمل کرکے سابق صدر ملک سے باہر چلے گئے اور طویل مدت بعدگزشتہ دسمبر میں واپس آئے اور بلاول زرداری سمیت پارلیمنٹ میں آنے کا اعلان کرکے بیرون ملک چلے گئے اور ان کے صاحبزادے اپنے چار مطالبات میں سے ایک بھی نہ منوا سکے اور اب سابق صدر نے اپنے بچوں سمیت پنجاب میں (ن) لیگ کے خلاف مورچہ لگا لیا ہے اور مفاہمتی سیاست ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔ اب پی پی مسلم لیگ (ن) کو الیکشن لڑ کر دکھائے گی جس کے لیے پی پی کے میاں برادران اور (ن) لیگی حکومت کے خلاف الزامات لگنا شروع ہوگئے ہیں۔
سیاسی مفاہمت کا معاہدہ میثاق جمہوریت دونوں پارٹیوں نے حقیقت میں جمہوریت کی بحالی سے زیادہ اپنے اقتدار کے تحفظ اور حکومتی مدت پوری کرنے کے لیے کیا تھا۔ 2013 میں پی پی وفاق میں اور (ن) لیگ پنجاب میں حکومتیں بنانے میں کامیاب رہیں اور آصف زرداری نے صدر بن کر اپنی حکومت کو غیر مستحکم نہیں ہونے دیا اور اپنی مفاہمت کی سیاست کے لیے حلیف بدلتے رہے اور (ن) لیگ جس (ق) لیگ سے سخت ناراض تھی۔ صدر زرداری نے متحدہ کے باعث مسلم لیگ(ق) کو حکومت میں شامل کرکے مسلم لیگ (ن) کو مزید ناراض کردیا ۔
اس (ق) لیگ کو نائب وزیر اعظم تک کا عہدہ دے دیا جس کی نہ آئین میں کوئی گنجائش ہے نہ کبھی پی پی کی ماضی کی حکومت میں ایسا ہوا ہے ، یہ بھی سابق صدر کی سیاسی مفاہمت تھی۔مسلم لیگ(ن) سے سیاسی مفاہمت ہوتے ہوئے صدر زرداری نے پنجاب میں (ن) لیگ کی حکومت برطرف کرکے گورنر راج بھی لگایا تھا جو عدالت سے غیر قانونی قرار پایا اور شہباز حکومت بحال ہوئی تھی۔
آصف علی زرداری نے اب اپنی پارٹی کو نیا نعرہ دیا ہے جو آصف علی زرداری، سب سے یاری کا ہے جب کہ پہلے پی پی کے جلسے میں ایک زرداری سب پر بھاری کے نعرے لگا کرتے تھے۔ اب جیالوں کو نیا نعرہ مل گیا ہے۔ سب سے یاری کا نعرہ دینے والے سابق صدر زرداری نے چار سال سے (ن) لیگ کی حکومت سے جاری اب مفاہمت ختم کردی ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اب ان کی میاں برادران سے یاری نہیں رہے گی اور پی پی اب کھل کر اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ زرداری صاحب مفاہمت کے معاملے میں مشہور ہیں اور ضرورت پر سیاسی دشمنوں کو بھی گلے لگا لیتے ہیں اور انھوں نے سندھ سے مسلم لیگ (ن) کا بھی تقریباً صفایا کردیا ہے جس کے چار سال بعد اب وزیر اعظم کو بھی سندھ کا خیال آ ہی گیا ہے جس پر پیپلز پارٹی کے رہنما طعنے دے رہے ہیں جو جائز بھی ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف اپنے سیاسی سے زیادہ ذاتی مخالف عمران خان کی وجہ سے آصف زرداری کو ناراض نہیں کر رہے تھے اور اپوزیشن لیڈر بھی پی پی کے ہیں جو اب فرینڈلی نہیں رہیں گے اور کھل کر اپوزیشن کا حقیقی کردار ادا کریں گے۔ اب تک تو عمران خان کا دعویٰ تھا کہ حقیقی اپوزیشن پیپلز پارٹی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کیونکہ مفاہمت کی وجہ سے اب تک پی پی فرینڈلی اپوزیشن ہی رہی ہے۔
اب ملک میں تین بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ہیں۔ آصف زرداری کی یاری تحریک انصاف کے ساتھ ہوگی یا نہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ فوجی عدالتوں کے باعث مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے (ن) لیگ حکومت کا ساتھ نہیں دیا مگر پی پی اور پی ٹی آئی نے دیا ہے اور باقی مدت (ن) لیگ پوری تو کرلے گی ۔ اب وزیر اعظم کو عمران خان کے ساتھ آصف علی زرداری کی بھی کھلی مخالفت کا سامنا ہوگا یا عمران کے خوف سے خفیہ مفاہمت جاری رہے گی اس کا پتا مستقبل میں چلے گا۔