ایسا کہاں سے لائیں کہ۔۔۔

انتخاب شعرا کے بعد مشاعرے کی کامیابی کا دارومدار اچھی نظامت پر بھی ہوتا ہے

najmalam.jafri@gmail.com

KARACHI:
گزشتہ ہفتے 22 اور 23 مارچ کی درمیانی شب ساکنان شہر قائد کے مشاعروں کا 25 واں یعنی سلور جوبلی مشاعرہ ایکسپو سینٹر میں منعقد ہوا۔ اس مشاعرے کی تاریخ کچھ یوں ہے کہ اس کی داغ بیل اب سے 30 سال قبل اظہر عباس ہاشمی مرحوم، ان کے دیگر کئی قریبی ساتھیوں نے جامعہ کراچی کے فارغ التحصیل طلبا کی انجمن یونی کیرینز انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ڈالی۔ یہ سلور جوبلی مشاعرہ (درمیان میں کراچی کے حالات کے باعث کچھ سال نہ ہونے کے باعث) اظہر عباس ہاشمی کے بعد پہلا مشاعرہ تھا، اس لیے اس کو بیاد اظہر عباس ہاشمی مشاعرہ قرار دیا گیا۔

اظہر عباس کے علاوہ گزشتہ مشاعروں کے منتظمین اور اظہر عباس کے شریک کار ماشا اللہ موجود تھے، بلکہ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ جو عالمی اردو کانفرنسز کرانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں، انھوں نے بھی اس مشاعرے کے انعقاد میں بھرپور دلچسپی لی۔ ان کے علاوہ ہر ذمے دار نے جو کچھ وہ کرسکتا تھا اس نے کیا۔ گورنر سندھ، میئر کراچی، کمشنر اور ہر وہ شخص جو کچھ کرنے کی پوزیشن میں تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ کراچی کے ہر فرد نے اس مشاعرے میں عملی نہ بھی سہی مگر دلی گرم جوشی اور مکمل دلچسپی کا مظاہرہ کیا تو تھوڑا سا غلط ہوتے ہوئے بھی زیادہ غلط نہ ہوگا۔ اس کے باوجود یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ اپنی اپنی کارکردگی دکھانا اور دلچسپی لینا الگ بات ہے اور انتظامی صلاحیت ہونا الگ۔ ہمارے معاشرے میں جو خودنمائی در آئی ہے اس کا اظہار بھی اس بار مشاعرہ گاہ میں خاصا ہوا۔

اظہر عباس ہاشمی کے زمانے میں بھی ہر کام وہ اکیلے تو نہ کرتے تھے مگر کام کرنا اور کروانا دو مختلف صفات ہیں۔ معلوم نہیں اس بار ایسا ہوا کہ نہیں، جب کہ اظہر عباس کے زمانے میں کام کے لیے مختلف کمیٹیاں بنا دی جاتی تھیں، مثلاً انتخاب شعرا کمیٹی، اسٹیج کمیٹی، پنڈال، استقبالیہ، مشاعرہ گاہ کمیٹی وغیرہ۔ کوئی ایک ہر کمیٹی کا ذمے دار ہوتا اور مزید چھ سات افراد اس کے ساتھ تعاون کرتے، یوں ہر کام خوش اسلوبی سے ہوتا اور زیادہ سے زیادہ لوگ مختلف کمیٹیوں میں شامل ہوکر مطمئن بھی ہوتے اور پورے جذبے سے کام کرتے، ساتھ ہی ایک کمیٹی کے ارکان دوسری کمیٹی کے معاملات میں دخل اندازی نہ کرتے تھے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ مرحوم کے زمانے میں ہونے والے مشاعروں میں جو فضا (ادبی و روایتی) ہوتی تھی، وہ اس مشاعرے میں مفقود رہی۔ مشاعرے کی کامیابی کا زیادہ انحصار انتخاب شعرا کمیٹی کی کارکردگی پر ہوتا ہے کہ وہ کیسے شعرا کو مدعو کرتے ہیں۔ بھارت سے ڈاکٹر بشیر بدر، منظر بھوپالی، حنا تیموری، فنا کانپوری، علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، جاوید اختر، مہندر سنگھ بیدی، خوش بیئر سنگھ، ملک زادہ منظور وغیرہ بلائے جاتے تھے۔ (ان میں سے کئی اب موجود نہیں ہیں) تو مشاعرہ واقعی مشاعرہ ہوتا تھا۔


اس بار بھارت سے خاصے غیر معروف شعرا کو مدعو کیا گیا، سوائے ایک دو کے، کچھ شعرا گزشتہ مشاعرے میں بھی تشریف لائے تھے اور اس بار بھی پرانا ہی کلام سنایا، لگتا ہے کہ دو سال میں کچھ تازہ کہا ہی نہیں۔ اس سلسلے میں سامعین بھی کچھ ذمے دار ہیں کہ وہ پہلے سے سنا ہوا کلام سنانے کی فرمائش کرتے ہیں تازہ کلام سننے کی خواہش ہی نہیں کرتے۔ مجھے نیشنل اسٹیڈیم میں ہونے والے مشاعرے یاد آتے رہے، اول تو اچھے شعرا اکناف عالم سے بھارت اور پورے پاکستان سے آتے تھے۔ ان شاعروں سے ایک نہیں کئی اشعار، نئی زمیں، نئے انداز اور خیالات سامعین ساتھ لے کر جاتے تھے۔ مگر اس مشاعرے کا کوئی ایک شعر بھی ذہن میں محفوظ نہ رہ سکا۔

انتخاب شعرا کے بعد مشاعرے کی کامیابی کا دارومدار اچھی نظامت پر بھی ہوتا ہے۔ بھارت کے ایک شاعر خود فرما رہے ہیں کہ میری شاعری بے حد کھردری ہوتی ہے۔ وہ قطعات اور معاشرتی مسائل پر نظمیں یا متفرق اشعار سنا رہے ہیں، مگر انداز شاعرانہ نہ ہونے کے باعث لگ رہا ہے کہ تقریر کے دوران اشعار پڑھ رہے ہیں اور ہمارے ناظم داد دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ واہ! کیا فصاحت ہے۔ ہم نے اپنے پاس بیٹھی ہوئی باذوق خاتون جو اس صورتحال پر خود بے حد پریشان لگ رہی تھیں، سے کہا کہ چلیے آج کم ازکم 'فصاحت' کے معنی تو معلوم ہوگئے۔ بھارت سے تشریف لائی ایک شاعرہ جس کا نام دعوت نامے میں تو تھا نہیں، ان کا کلام بھی واجبی سا تھا، البتہ گلوکاری کا مظاہرہ کرنے میں خاصی کامیاب رہیں۔

یہ الگ بات ہے کہ وہ اس قدر اونچی آواز میں اشعار پیش کر رہی تھیں کہ اشعار کم البتہ ان کی آواز اور بلند تان سے کان ضرور پھٹے جا رہے تھے، وہ غزل پر غزل، متفرق اشعار اور اپنی دانست میں نہ جانے کیا کیا محض ناظم کی داد سے متاثر ہوکر پڑھتی جا رہی تھیں جب کہ سامعین ان کے اٹھنے کے منتظر رہے، کچھ من چلوں نے تو ہاتھ تک جوڑ دیے تب وہ واپس جانے پر آمادہ ہوئیں۔

اس میں ان کی کوئی غلطی بھی نہ تھی، کوئی ان کو وقت کی کمی کا احساس دلا رہا تھا نہ مشاعرے کے طریقہ کار کے مطابق مہذب انداز میں کلام مختصر کرنے کی درخواست کر رہا تھا۔ نظامت کے غیر معیاری ہونے کے اور بھی کئی مواقع آئے مگر سب کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان حضرات کا انتخاب کرتے ہوئے ان کی اہلیت کے بجائے ''کچھ اور'' مدنظر رکھا گیا تھا۔ ان کے پاس ایسے دلچسپ اور شائستہ الفاظ بھی نہ تھے کہ جو شعرا کو ناگوار بھی نہ ہوں اور وہ سمجھ جائیں کہ اب ان کو واپس چلے جانا چاہیے۔ مشاعرے کو خوش روی سے بلاتعطل جاری رکھنے کے فن سے وہ قطعی ناواقف تھے۔

اس دوران ہم نے مشاہدہ کیا اور اندازہ بھی ہوا کہ اگر کسی نے اس مشاعرے کے انعقاد پر کچھ زیادہ اخراجات برداشت کیے یا اپنی کارکردگی کا اچھا مظاہرہ کیا تو اس کو اتنی ہی اہمیت دی گئی۔ اچھا خاصا وقت تو ستائش باہمی پر صرف ہوگیا۔ غرض مشاعرہ تو ہوگیا اور تمام ذمے داران و کارکنان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ ''نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے'' اب جب کہ معاشرہ ہی انحطاط پذیر ہو تو کسی بزم محفل یا مشاعرے کا کیا ذکر۔ البتہ اظہر عباس ہاشمی کے نہ ہونے سے طبیعت میں اداسی کے علاوہ دل میں یہ خیال بھی آتا رہا کہ ''ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے'' مشاعرے ہوتے رہیں گے انشا اللہ آیندہ اس سے زیادہ معیاری بھی مگر اظہر عباس ہاشمی کی کمی ہر سال محسوس ہوگی۔ اللہ انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائیں(آمین)۔
Load Next Story