ٹائی ٹینک موت کے دروازے پر
دنیا میں ’’آئکون‘‘ بن جانے والے غرقاب جہاز کا ڈھانچا بتدریج قصّہ ِماضی بنتا جا رہا ہے، ایک تحقیقی داستان
LOS ANGELES:
10اپریل 1909ء کی سہ پہر جب برطانوی بندرگاہ' ساؤتھ ہمپٹن سے مسافر بردار بحری جہاز' آر ایم ایس ٹائی ٹینک اپنے پہلے سفر پر روانہ ہوا' تو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ عنقریب وہ ایک تباہ وبرباد ڈھانچے کی صورت بحر اوقیانوس کی تہہ میں جا گرے گا۔ اس زمانے میں ٹائی ٹینک دنیا کے سب سے بڑے اور عالی شان بحری جہاز ہونے کا اعزاز رکھتا تھا۔ یہی نہیں اسے اتنے زیادہ اہتمام سے تیار کیا گیا تھا کہ اس کو''ان سنک ایبل'' (unsinkable) کہا جانے لگا... ایسا بحری جہاز جو ڈوب ہی نہیں سکتا۔ مگر ہوتا وہی ہے جو خدا چاہے!
تاروں بھری رات میں برفانی تودے سے ٹکرا کر ٹائی ٹینک دیکھتے ہی دیکھتے سمندر برد ہو گیا۔ اس المناک حادثے میں پندرہ سو سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو ئیں۔ ''ان سنک ایبل'' ٹائی ٹینک کی غرقابی نے برطانوی و امریکی عوام و خواص کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے یہ المیّہ داستانوں' فلموں اور مضامین کی صورت زندہ رکھا ۔ آج ٹائی ٹینک بحری جہاز انسانی تاریخ میں کئی اعلی صفات مثلاً بہادری' فرض شناسی' محبت' ایثار' قربانی وغیرہ کا استعارہ بن چکا۔
دنیائے مغرب میں لاکھوں مرد و زن یہ سوچ کر لطف وتسکین پاتے ہیں کہ ٹائی ٹینک کا کم از کم ڈھانچا تو صفحۂ ہستی پر موجودہے۔ 1997ء میں جب اس حادثے پر بننے والی بے مثال فلم ''ٹائی ٹینک' کو بین الاقوامی شہرت ملی' تو دنیائے مشرق کے بھی لاکھوں مرد و عورتیں اس المیے سے جذباتی تعلق محسوس کرنے لگے... ایک ناقابل فراموش انسانی المیہ جس کے بطن سے کئی پُراسرار داستانوں نے جنم لیا۔ لیکن ٹائی ٹینک کے قدر دان اور عاشق یہ جان کر یقیناً پژمردہ و اُداس ہو جائیں گے کہ زیر سمندر ایک نادیدہ مخلوق ان کے محبوب بحری جہاز کا ڈھانچا رفتہ رفتہ چٹ کر رہی ہے۔
یہ مخلوق خاص قسم کے جراثیم ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر جراثیم کا حملہ شدت سے جاری رہا تو اگلے بیس پچیس برس میں ٹائی ٹینک کا ڈھانچہ قصّہِ ماضی بن جا ئے گا۔ہے تو یہ زنگ آلود لوہے اور دیمک خودہ لکڑی کا دیو ہیکل مجموعہ مگر ٹائی ٹینک سے وابستہ جذباتی والمناک داستانوں نے اسے بھی اہمیت بخش ڈالی۔ مشہور امریکی شاعر ، موری یستین نے کیا خوب کہا ہے:
''تاریخ انسان میں وقوع پذیر ہونے والا ہر واقعہ آغاز' وسط اور اختتام نہیں رکھتا... مگر ٹائی ٹینک کا ڈھانچا یہ خاصیت رکھتا ہے۔ واقعے کا آغاز سفر شروع ہونے پہ ہوا' جب برفانی تودے سے ٹکرایا تو وسط آن پہنچا اور جب جہاز ڈوبا' تو اختتام ہو گیا۔''
یہ 1985ء کی بات ہے کہ رابرٹ بالراڈ نامی ایک امریکی اوشنوگرافر نے ٹائی ٹینک کا ڈھانچا دریافت کیا۔ رابرٹ صاحب ٹائی ٹینک ڈھونڈنے نہیں نکلے تھے' یہ غرقاب جہاز تو ''تُکے'' میں مل گیا۔ رابرٹ دراصل امریکی بحریہ کے ایک خفیہ مشن میں شریک تھا۔ اس مشن کے ذریعے سرد جنگ کے دوران بحراوقیانوس میں غرق ہو جانے والی امریکی ایٹمی آبدوزیں ڈھونڈنا مقصود تھا۔ ایٹمی آبدوزیں تلاش کرتے کرتے رابرٹ ٹائی ٹینک کے ڈھانچے تک پہنچ گیا۔
تیس سال قبل جب دو ٹکڑوں میں تقسیم ٹائی ٹینک کا ڈھانچا دریافت ہوا' تو وہ خاصی سالم وعمدہ حالت میں تھا۔ یہ تقریباً ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی گہرائی میں تہہِ سمندر پڑا ہے۔ اس میں مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں نے اپنے مسکن بنالیے تھے' تاہم جہاز کے اکثر حصے صاف پہنچان لیے گئے۔ سات سال بعد انکشاف ہوا کہ ٹائی ٹینک کے ڈھانچے پر تو فولاد کھانے والے جراثیم نے حملہ کر دیا ہے۔
ہوا یہ کہ 1991ء میں کینیڈا کے چند متجسس سائنس دان بھاری سرمایہ خر چ کر کے تہہ سمندر پہنچے تاکہ ٹائی ٹینک کی سیاحت کر سکیں۔ دوران سیاحت انہوں نے ڈھانچے سے زنگ کے نمونے بھی کھرچ لیے۔ وہ جہاز کے فولاد کا کیمیائی تجزیہ کرنا چاہتے تھے۔ جب نمونے خردبین کے نیچے رکھے گئے' تو افشا ہوا کہ ان میں تو جراثیم کی کالونیاں آباد ہو چکیں۔
کینیڈین سائنس داں بغرض تحقیق ٹائی ٹینک دیکھنے نہیں گئے تھے۔ اس لیے وہ جراثیم دیکھ کر حیران تو ہوئے' مگر انھوں نے اپنا کام آگے نہیں بڑھایا۔ البتہ لیبارٹری میں اپنے پسندیدہ جہاز سے لائے فولادی نمونے ضرور محفوظ کر دیئے۔ یہ لیبارٹری کینیڈین شہر' ہیلی فیکس کی ڈلہوزی یونیورسٹی میں واقع تھی۔انیس سال گذر گئے اور ان نمونوں پر آباد جراثیم فولاد کھا کھا کر پلتے رہے۔ آخر2010ء میں ایک اور متجسس سائنس داں' ڈاکٹرہنریٹا مان نے فیصلہ کیا کہ تحقیق کی جائے' ٹائی ٹینک کے فولاد پر پلنے بڑھنے والے جراثیم آخر کس نوعیت کے ہیں؟
جب جراثیم پر تحقیق ہوئی' تو افشا ہوا کہ دنیا میں خشکی پر کسی بھی جگہ ایسے بیکٹریا نہیں پائے جاتے...گویا جراثیم کی ا یک نئی قسم دریافت ہوگئی۔ماہرین نے ٹائی ٹینک کے نام پر اس قسم کو''ہالو مونس ٹائی ٹینکیا'' (Halomonas titanicae) کا نام دیا۔سائنس داں نہیں جانتے کہ یہ جراثیم ٹائی ٹینک پر کہاں سے آئے' مگر وہ غرقاب جہاز کا فولاد کھا کے موجیں کر رہے ہیں۔ یاد رہے' ٹائی ٹینک کو 50 ہزار ٹن فولاد سے تیار کیا گیا تھا۔ اب یہی بے پناہ فولاد ہالو مونس ٹائی ٹینکیا کا من بھاتا کھا جابن چکا۔
اللہ کی شان کہ یہ جراثیم کرہ ارض کی ایسی آبی جگہوں پر بھی زندہ رہتے ہیں جہاں زندگی پنپنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ اب اسی تہہ سمندر کو لیجیے جہاں ٹائی ٹینک کا ڈھانچا آرام فرما رہا ہے۔ وہاں آکسیجن بہت کم ہے۔ چہار جانب تاریکی کا راج ہے جبکہ پانی کا زبردست دباؤ بھی جانداروں کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔یہی نہیں، ہالو مونس ٹائی ٹینکیا نمک بھری سمندری دلدلوں میں بھی بستے پائے جاچکے۔ یہ دلدلیں سمندروںکے کناروں پر مدوجزر کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔
اتار کے بعد جب دلدل پانی سے خالی ہو، تو اس میں نمکیات بڑھ جاتی ہیں۔ چڑھاؤ پر دوبارہ سمندری پانی آئے تو نمک کم ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہالو مونس ٹائی ٹینکیا نمک کی ایسی زبردست کمی بیشی کا مقابلہ کرتے ہوئے کیونکر زندہ رہتے ہیں؟
دراصل کروڑوں خلیے رکھنے والا انسان ہو یا ہالو مونس ٹائی ٹینکیا جیسے ننھے منے یک خلوی بیکٹیریا، تمام جانداروں کے خلیوں کو زندہ رہنے کی خاطر پانی درکار ہے۔ مگر پانی بہت زیادہ نمکین ہوجائے، تو وہ خلیوں کے جسم سے باہر نکل جاتا ہے۔ چناں چہ خلیے زندہ نہیں رہ پاتے اور چل بستے ہیں۔ لیکن پانی میں نمک کم ہو، تب بھی خلیے زندہ نہیں رہتے۔ مثلاً ہمارے خون میں پائے جانے والے سرخ خونی خلیوں (red blood cells) کو خالص پانی میں ڈالا جائے تو وہ پھٹ جاتے ہیں۔ پانی ان کے جسم میں بھر کر انہیں پھاڑ ڈالتا ہے۔درج بالا عمل اس لیے انجام پاتے ہیں کہ پانی ایک فطری رجحان رکھتا ہے... یہ کہ وہ زیادہ بھرے علاقے سے کم بھرے ہوئے علاقے کی سمت بہتا ہے۔ سائنسی اصطلاح میں پانی کا یہ فطری رجحان ''عمل نفوذ'' (osmosis) کہلاتا ہے۔ یہ عمل نفوذ ہے کیا؟
ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ نمک، شکر، شہد وغیرہ پانی میں حل ہوجاتے ہیں۔ایسی صورت میں گویا اب ان میں خالص پانی کے لیے جگہ کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، جب نمکین یا شکر والا محلول خالص پانی میں ملایا جائے تو وہ گھل مل کر اسے متوازن بنا دیتا ہے۔ یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے موسم سرما میں دروازہ کھولنے پر کمرے کی گرم ہوا باہر کی طرف لپکے کیونکہ آبی بخارات نہ ہونے پر وہ ہلکی ہو چکی ہوتی ہے۔
تمام خلیوں کی جھلیاں قدرتی طور پر پانی جذب کرتی ہیں۔ اس لیے خلیے اپنے اجسام میں نمک کی مقدار متوازن رکھنے کی خاطر خاص اہتمام کرتے ہیں۔ تقریباً سبھی خلیے کیمیائی مرکبات بناتے ہیں تاکہ ان کی مدد سے اپنے خلوی جسم میں نمکیات کی مقدار متوازن رکھی جائے۔ یوں وہ نمک کے کم یا زیادہ ہونے پر مرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
ہالو مونس ٹائی ٹینکیا کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ایک خلیے والا جان دار اپنی بقا کے لیے دیگر خلیوں سے دو ہاتھ آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنے جسم میں نمک کی مقدار کنٹرول رکھنے کی خاطر ایک سالمہ (molecule) پیدا کرتا ہے۔ سائنس داں اس سالمے کو ''ایکوٹین'' (ectoine) کا نام دے چکے۔ نمک سے جنگ لڑنے میںہالو مونس ٹائی ٹینکیا کے لیے ایکوٹین ایک سپاہی کا کردار ادا کرتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب دلدل سمندری پانی سے خالی ہوجائے، تو کیچڑ میں باقی رہ جانے والے نمک کی کثرت ہوتی ہے۔ تب دلدل میں مقیم ہالو مونس ٹائی ٹینکیا اپنے جسم میں ہزارہا ایکوٹین سالمے بناتے ہیں۔ یہ سالمے جراثیم کے جسم میں پانی اور نمک، دونوں کی سطح متوازن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ اپنی مخلوق کی بقا کے لیے اس نے عجیب و غریب نظام تخلیق کررکھے ہیں۔
آپ کے ذہن میں یقیناً یہ سوال کلبلا رہا ہوگا کہ آخر زندگی کے لیے پانی کیوں ضروری ہے؟ دراصل پانی کے ایٹم آپس میں خصوصی بندھن (Bond) بناتے ہیں جنہیں ''ہائیڈروجن بندھن'' (hydrogen bonds) کا نام دیا جاچکا۔ ان بندھنوں کی وجہ سے پانی میں ''محلل'' (solvent) یعنی حل کردینے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ تقریباً سبھی کیمیائی مادے اور عناصر پانی میں حل ہوکر ایک دوسرے پر عمل کرسکتے ہیں۔
زندگی جنم لینے کے لیے ضروری ہے کہ پانی میں مختلف کیمیائی مرکبات کے باہمی عمل ظہور پذیر ہوں... تبھی ایک جاندار معرض وجود میں آتا ہے۔ یہی نہیں، ایک خلیے کا سارا نظام (ڈی این اے، آر این اے، پروٹین، خامرے (انزائم )جھلیاں وغیرہ) اسی وقت کام کرتا ہے جب اس کے چاروں طرف پانی کی تہہ موجود ہو۔پانی کی یہ تہہ سائنسی اصطلاح میں ''آبیدہ چھلکا'' (hydration shell) کہلاتی ہے۔ یہ تہہ خصوصاً خلیے میں پروٹین کی نشوونما کے لیے لازمی ہے۔اگر یہ تہہ جاتی رہے، تو پروٹین کی افزائش ختم ہوجاتی ہے اور پروٹین کے بغیر خلیہ بھی جلد چل بستا ہے۔
سائنس دانوں کو زندگی کے لیے پانی کی اہمیت انیسویں صدی میں پہنچ کر معلوم ہوئی، مگر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ صدیوں قبل یہ انکشاف کرچکے تھے۔ سورہ الانبیا آیت 45، سورہ النور آیت 30 اور سورہ الفرقان آیت 54 میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بنی نوع انسان کو خبر دی ہے کہ انہوں نے پانی ہی سے تمام جانداروں کو پیدا فرمایا۔
ہالو مونس ٹائی ٹینکیا بھی قدرت الٰہی کا جیتا جاگتا معجزہ ہے، ایسا جان دار جو حد سے زیادہ نمکین پانی میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ یہی نہیں، تہہِ سمندر میں اس جیسے مزید جراثیم کی مزید اقسام پائی جاتی ہیں۔ جیسے ہی کوئی جہاز غرقاب ہو ،یہ جرثومے ان کا فولاد، لکڑی اور دیگر ڈھانچہ چٹ کرنے لگتے ہیں۔
شاعر مشرق نے کہا تھا کہ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں، کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں...یہ دل نشیں شعر ہالو مونس ٹائی ٹینکیا اور دیگر سمندری جراثیم پر پورا اترتا ہے۔ وجہ یہ کہ یہ جراثیم تہہ سمندر میں جمع ہونے والا کاٹھ کباڑ کھا کر صفائی کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ جراثیم نہ ہوں تو سمندر ہر قسم کے کوڑے کرکٹ سے بھر کردیو ہیکل کوڑا دان بن جائیں۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہالو مونس ٹائی ٹینکیا ٹائی ٹینک کے ڈھانچے کو ہڑپ کرگئے تو لاکھوں دل ٹوٹ سکتے ہیں۔ تب ان افسردہ مردو زن کو فلم ''ٹائی ٹینک'' کی ہیروئن کے وہ یادگار آخری الفاظ ضرور یاد آیا کریں گے جو اس نے خودکشی کرنے سے قبل ادا کیے تھے:
''He Exists Now Only in My Memory'' ...''اب وہ صرف میری یادوں میں بستا ہے۔''
10اپریل 1909ء کی سہ پہر جب برطانوی بندرگاہ' ساؤتھ ہمپٹن سے مسافر بردار بحری جہاز' آر ایم ایس ٹائی ٹینک اپنے پہلے سفر پر روانہ ہوا' تو کسی کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ عنقریب وہ ایک تباہ وبرباد ڈھانچے کی صورت بحر اوقیانوس کی تہہ میں جا گرے گا۔ اس زمانے میں ٹائی ٹینک دنیا کے سب سے بڑے اور عالی شان بحری جہاز ہونے کا اعزاز رکھتا تھا۔ یہی نہیں اسے اتنے زیادہ اہتمام سے تیار کیا گیا تھا کہ اس کو''ان سنک ایبل'' (unsinkable) کہا جانے لگا... ایسا بحری جہاز جو ڈوب ہی نہیں سکتا۔ مگر ہوتا وہی ہے جو خدا چاہے!
تاروں بھری رات میں برفانی تودے سے ٹکرا کر ٹائی ٹینک دیکھتے ہی دیکھتے سمندر برد ہو گیا۔ اس المناک حادثے میں پندرہ سو سے زائد قیمتی انسانی جانیں ضائع ہو ئیں۔ ''ان سنک ایبل'' ٹائی ٹینک کی غرقابی نے برطانوی و امریکی عوام و خواص کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے یہ المیّہ داستانوں' فلموں اور مضامین کی صورت زندہ رکھا ۔ آج ٹائی ٹینک بحری جہاز انسانی تاریخ میں کئی اعلی صفات مثلاً بہادری' فرض شناسی' محبت' ایثار' قربانی وغیرہ کا استعارہ بن چکا۔
دنیائے مغرب میں لاکھوں مرد و زن یہ سوچ کر لطف وتسکین پاتے ہیں کہ ٹائی ٹینک کا کم از کم ڈھانچا تو صفحۂ ہستی پر موجودہے۔ 1997ء میں جب اس حادثے پر بننے والی بے مثال فلم ''ٹائی ٹینک' کو بین الاقوامی شہرت ملی' تو دنیائے مشرق کے بھی لاکھوں مرد و عورتیں اس المیے سے جذباتی تعلق محسوس کرنے لگے... ایک ناقابل فراموش انسانی المیہ جس کے بطن سے کئی پُراسرار داستانوں نے جنم لیا۔ لیکن ٹائی ٹینک کے قدر دان اور عاشق یہ جان کر یقیناً پژمردہ و اُداس ہو جائیں گے کہ زیر سمندر ایک نادیدہ مخلوق ان کے محبوب بحری جہاز کا ڈھانچا رفتہ رفتہ چٹ کر رہی ہے۔
یہ مخلوق خاص قسم کے جراثیم ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اگر جراثیم کا حملہ شدت سے جاری رہا تو اگلے بیس پچیس برس میں ٹائی ٹینک کا ڈھانچہ قصّہِ ماضی بن جا ئے گا۔ہے تو یہ زنگ آلود لوہے اور دیمک خودہ لکڑی کا دیو ہیکل مجموعہ مگر ٹائی ٹینک سے وابستہ جذباتی والمناک داستانوں نے اسے بھی اہمیت بخش ڈالی۔ مشہور امریکی شاعر ، موری یستین نے کیا خوب کہا ہے:
''تاریخ انسان میں وقوع پذیر ہونے والا ہر واقعہ آغاز' وسط اور اختتام نہیں رکھتا... مگر ٹائی ٹینک کا ڈھانچا یہ خاصیت رکھتا ہے۔ واقعے کا آغاز سفر شروع ہونے پہ ہوا' جب برفانی تودے سے ٹکرایا تو وسط آن پہنچا اور جب جہاز ڈوبا' تو اختتام ہو گیا۔''
یہ 1985ء کی بات ہے کہ رابرٹ بالراڈ نامی ایک امریکی اوشنوگرافر نے ٹائی ٹینک کا ڈھانچا دریافت کیا۔ رابرٹ صاحب ٹائی ٹینک ڈھونڈنے نہیں نکلے تھے' یہ غرقاب جہاز تو ''تُکے'' میں مل گیا۔ رابرٹ دراصل امریکی بحریہ کے ایک خفیہ مشن میں شریک تھا۔ اس مشن کے ذریعے سرد جنگ کے دوران بحراوقیانوس میں غرق ہو جانے والی امریکی ایٹمی آبدوزیں ڈھونڈنا مقصود تھا۔ ایٹمی آبدوزیں تلاش کرتے کرتے رابرٹ ٹائی ٹینک کے ڈھانچے تک پہنچ گیا۔
تیس سال قبل جب دو ٹکڑوں میں تقسیم ٹائی ٹینک کا ڈھانچا دریافت ہوا' تو وہ خاصی سالم وعمدہ حالت میں تھا۔ یہ تقریباً ساڑھے بارہ ہزار فٹ کی گہرائی میں تہہِ سمندر پڑا ہے۔ اس میں مچھلیوں اور دیگر آبی جانوروں نے اپنے مسکن بنالیے تھے' تاہم جہاز کے اکثر حصے صاف پہنچان لیے گئے۔ سات سال بعد انکشاف ہوا کہ ٹائی ٹینک کے ڈھانچے پر تو فولاد کھانے والے جراثیم نے حملہ کر دیا ہے۔
ہوا یہ کہ 1991ء میں کینیڈا کے چند متجسس سائنس دان بھاری سرمایہ خر چ کر کے تہہ سمندر پہنچے تاکہ ٹائی ٹینک کی سیاحت کر سکیں۔ دوران سیاحت انہوں نے ڈھانچے سے زنگ کے نمونے بھی کھرچ لیے۔ وہ جہاز کے فولاد کا کیمیائی تجزیہ کرنا چاہتے تھے۔ جب نمونے خردبین کے نیچے رکھے گئے' تو افشا ہوا کہ ان میں تو جراثیم کی کالونیاں آباد ہو چکیں۔
کینیڈین سائنس داں بغرض تحقیق ٹائی ٹینک دیکھنے نہیں گئے تھے۔ اس لیے وہ جراثیم دیکھ کر حیران تو ہوئے' مگر انھوں نے اپنا کام آگے نہیں بڑھایا۔ البتہ لیبارٹری میں اپنے پسندیدہ جہاز سے لائے فولادی نمونے ضرور محفوظ کر دیئے۔ یہ لیبارٹری کینیڈین شہر' ہیلی فیکس کی ڈلہوزی یونیورسٹی میں واقع تھی۔انیس سال گذر گئے اور ان نمونوں پر آباد جراثیم فولاد کھا کھا کر پلتے رہے۔ آخر2010ء میں ایک اور متجسس سائنس داں' ڈاکٹرہنریٹا مان نے فیصلہ کیا کہ تحقیق کی جائے' ٹائی ٹینک کے فولاد پر پلنے بڑھنے والے جراثیم آخر کس نوعیت کے ہیں؟
جب جراثیم پر تحقیق ہوئی' تو افشا ہوا کہ دنیا میں خشکی پر کسی بھی جگہ ایسے بیکٹریا نہیں پائے جاتے...گویا جراثیم کی ا یک نئی قسم دریافت ہوگئی۔ماہرین نے ٹائی ٹینک کے نام پر اس قسم کو''ہالو مونس ٹائی ٹینکیا'' (Halomonas titanicae) کا نام دیا۔سائنس داں نہیں جانتے کہ یہ جراثیم ٹائی ٹینک پر کہاں سے آئے' مگر وہ غرقاب جہاز کا فولاد کھا کے موجیں کر رہے ہیں۔ یاد رہے' ٹائی ٹینک کو 50 ہزار ٹن فولاد سے تیار کیا گیا تھا۔ اب یہی بے پناہ فولاد ہالو مونس ٹائی ٹینکیا کا من بھاتا کھا جابن چکا۔
اللہ کی شان کہ یہ جراثیم کرہ ارض کی ایسی آبی جگہوں پر بھی زندہ رہتے ہیں جہاں زندگی پنپنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ اب اسی تہہ سمندر کو لیجیے جہاں ٹائی ٹینک کا ڈھانچا آرام فرما رہا ہے۔ وہاں آکسیجن بہت کم ہے۔ چہار جانب تاریکی کا راج ہے جبکہ پانی کا زبردست دباؤ بھی جانداروں کی زندگی اجیرن بنا دیتا ہے۔یہی نہیں، ہالو مونس ٹائی ٹینکیا نمک بھری سمندری دلدلوں میں بھی بستے پائے جاچکے۔ یہ دلدلیں سمندروںکے کناروں پر مدوجزر کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔
اتار کے بعد جب دلدل پانی سے خالی ہو، تو اس میں نمکیات بڑھ جاتی ہیں۔ چڑھاؤ پر دوبارہ سمندری پانی آئے تو نمک کم ہوجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہالو مونس ٹائی ٹینکیا نمک کی ایسی زبردست کمی بیشی کا مقابلہ کرتے ہوئے کیونکر زندہ رہتے ہیں؟
دراصل کروڑوں خلیے رکھنے والا انسان ہو یا ہالو مونس ٹائی ٹینکیا جیسے ننھے منے یک خلوی بیکٹیریا، تمام جانداروں کے خلیوں کو زندہ رہنے کی خاطر پانی درکار ہے۔ مگر پانی بہت زیادہ نمکین ہوجائے، تو وہ خلیوں کے جسم سے باہر نکل جاتا ہے۔ چناں چہ خلیے زندہ نہیں رہ پاتے اور چل بستے ہیں۔ لیکن پانی میں نمک کم ہو، تب بھی خلیے زندہ نہیں رہتے۔ مثلاً ہمارے خون میں پائے جانے والے سرخ خونی خلیوں (red blood cells) کو خالص پانی میں ڈالا جائے تو وہ پھٹ جاتے ہیں۔ پانی ان کے جسم میں بھر کر انہیں پھاڑ ڈالتا ہے۔درج بالا عمل اس لیے انجام پاتے ہیں کہ پانی ایک فطری رجحان رکھتا ہے... یہ کہ وہ زیادہ بھرے علاقے سے کم بھرے ہوئے علاقے کی سمت بہتا ہے۔ سائنسی اصطلاح میں پانی کا یہ فطری رجحان ''عمل نفوذ'' (osmosis) کہلاتا ہے۔ یہ عمل نفوذ ہے کیا؟
ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ نمک، شکر، شہد وغیرہ پانی میں حل ہوجاتے ہیں۔ایسی صورت میں گویا اب ان میں خالص پانی کے لیے جگہ کم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، جب نمکین یا شکر والا محلول خالص پانی میں ملایا جائے تو وہ گھل مل کر اسے متوازن بنا دیتا ہے۔ یہ عمل ایسے ہی ہے جیسے موسم سرما میں دروازہ کھولنے پر کمرے کی گرم ہوا باہر کی طرف لپکے کیونکہ آبی بخارات نہ ہونے پر وہ ہلکی ہو چکی ہوتی ہے۔
تمام خلیوں کی جھلیاں قدرتی طور پر پانی جذب کرتی ہیں۔ اس لیے خلیے اپنے اجسام میں نمک کی مقدار متوازن رکھنے کی خاطر خاص اہتمام کرتے ہیں۔ تقریباً سبھی خلیے کیمیائی مرکبات بناتے ہیں تاکہ ان کی مدد سے اپنے خلوی جسم میں نمکیات کی مقدار متوازن رکھی جائے۔ یوں وہ نمک کے کم یا زیادہ ہونے پر مرنے سے محفوظ رہتے ہیں۔
ہالو مونس ٹائی ٹینکیا کی خاصیت یہ ہے کہ یہ ایک خلیے والا جان دار اپنی بقا کے لیے دیگر خلیوں سے دو ہاتھ آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنے جسم میں نمک کی مقدار کنٹرول رکھنے کی خاطر ایک سالمہ (molecule) پیدا کرتا ہے۔ سائنس داں اس سالمے کو ''ایکوٹین'' (ectoine) کا نام دے چکے۔ نمک سے جنگ لڑنے میںہالو مونس ٹائی ٹینکیا کے لیے ایکوٹین ایک سپاہی کا کردار ادا کرتا ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب دلدل سمندری پانی سے خالی ہوجائے، تو کیچڑ میں باقی رہ جانے والے نمک کی کثرت ہوتی ہے۔ تب دلدل میں مقیم ہالو مونس ٹائی ٹینکیا اپنے جسم میں ہزارہا ایکوٹین سالمے بناتے ہیں۔ یہ سالمے جراثیم کے جسم میں پانی اور نمک، دونوں کی سطح متوازن رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی شان کہ اپنی مخلوق کی بقا کے لیے اس نے عجیب و غریب نظام تخلیق کررکھے ہیں۔
آپ کے ذہن میں یقیناً یہ سوال کلبلا رہا ہوگا کہ آخر زندگی کے لیے پانی کیوں ضروری ہے؟ دراصل پانی کے ایٹم آپس میں خصوصی بندھن (Bond) بناتے ہیں جنہیں ''ہائیڈروجن بندھن'' (hydrogen bonds) کا نام دیا جاچکا۔ ان بندھنوں کی وجہ سے پانی میں ''محلل'' (solvent) یعنی حل کردینے کی صلاحیت پیدا ہوگئی۔ تقریباً سبھی کیمیائی مادے اور عناصر پانی میں حل ہوکر ایک دوسرے پر عمل کرسکتے ہیں۔
زندگی جنم لینے کے لیے ضروری ہے کہ پانی میں مختلف کیمیائی مرکبات کے باہمی عمل ظہور پذیر ہوں... تبھی ایک جاندار معرض وجود میں آتا ہے۔ یہی نہیں، ایک خلیے کا سارا نظام (ڈی این اے، آر این اے، پروٹین، خامرے (انزائم )جھلیاں وغیرہ) اسی وقت کام کرتا ہے جب اس کے چاروں طرف پانی کی تہہ موجود ہو۔پانی کی یہ تہہ سائنسی اصطلاح میں ''آبیدہ چھلکا'' (hydration shell) کہلاتی ہے۔ یہ تہہ خصوصاً خلیے میں پروٹین کی نشوونما کے لیے لازمی ہے۔اگر یہ تہہ جاتی رہے، تو پروٹین کی افزائش ختم ہوجاتی ہے اور پروٹین کے بغیر خلیہ بھی جلد چل بستا ہے۔
سائنس دانوں کو زندگی کے لیے پانی کی اہمیت انیسویں صدی میں پہنچ کر معلوم ہوئی، مگر قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ صدیوں قبل یہ انکشاف کرچکے تھے۔ سورہ الانبیا آیت 45، سورہ النور آیت 30 اور سورہ الفرقان آیت 54 میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بنی نوع انسان کو خبر دی ہے کہ انہوں نے پانی ہی سے تمام جانداروں کو پیدا فرمایا۔
ہالو مونس ٹائی ٹینکیا بھی قدرت الٰہی کا جیتا جاگتا معجزہ ہے، ایسا جان دار جو حد سے زیادہ نمکین پانی میں بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ یہی نہیں، تہہِ سمندر میں اس جیسے مزید جراثیم کی مزید اقسام پائی جاتی ہیں۔ جیسے ہی کوئی جہاز غرقاب ہو ،یہ جرثومے ان کا فولاد، لکڑی اور دیگر ڈھانچہ چٹ کرنے لگتے ہیں۔
شاعر مشرق نے کہا تھا کہ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں، کوئی بُرا نہیں قدرت کے کارخانے میں...یہ دل نشیں شعر ہالو مونس ٹائی ٹینکیا اور دیگر سمندری جراثیم پر پورا اترتا ہے۔ وجہ یہ کہ یہ جراثیم تہہ سمندر میں جمع ہونے والا کاٹھ کباڑ کھا کر صفائی کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہ جراثیم نہ ہوں تو سمندر ہر قسم کے کوڑے کرکٹ سے بھر کردیو ہیکل کوڑا دان بن جائیں۔
لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اگر ہالو مونس ٹائی ٹینکیا ٹائی ٹینک کے ڈھانچے کو ہڑپ کرگئے تو لاکھوں دل ٹوٹ سکتے ہیں۔ تب ان افسردہ مردو زن کو فلم ''ٹائی ٹینک'' کی ہیروئن کے وہ یادگار آخری الفاظ ضرور یاد آیا کریں گے جو اس نے خودکشی کرنے سے قبل ادا کیے تھے:
''He Exists Now Only in My Memory'' ...''اب وہ صرف میری یادوں میں بستا ہے۔''