’’ساتویں حس‘‘ دل کی باتوں کو سمجھنے جاننے اور جانچنے کا احساس
دل اور دل کی باتوں کو سمجھنے اور جاننے اور جانچنے کا احساس، وہ ساتویں حس ہوتی ہے۔
(ڈاکٹرصابر حُسین خان بہ طور ماہرنفسیات لگ بھگ تین دہائیوں سے کارمسیحائی انجام دے رہے ہیں۔ وہ انسانی ذہن کی پیچیدگیوں اور شخصیت کی تہوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنے تجربات کو تحریر کی صورت دیتے رہے ہیں۔ وہ نفسیات سے متعلق گیارہ کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی قلمی کاوشیں اپنے اندر وسعت اور گہرائی رکھتی ہیں اور ہمیں اپنا آپ اور اپنے جذباتی اور نفسیاتی مسائل سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ سادہ اور عام فہم ہونے کے باعث قارئین تک ان کی تحریروں کا ابلاغ بہ آسانی ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹرصابر ایکسپریس کے سنڈے میگزین کے لیے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ امید ہے قارئین کے لیے یہ تحریریں دل چسپی اور آگاہی کا باعث بنیں گی)
سارے موسم ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ایک جیسے نہیں رہتے۔ بدلتے موسموں میں ہمارا من کا موسم بھی بدلتا رہتا ہے۔ کبھی روشن، کبھی تاریک، کبھی سرد۔
موسم کا تغیر زمین، چاند اور سورج کے گھٹتے بڑھتے فاصلوں اور حرکت کے باعث رونما ہوتا ہے اور سال کے مخصوص دنوں میں مخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مخصوص موسم ہمارے آنگن میں اترتے ہیں۔
لیکن دِل کے موسموں کا رنگ تیکھا اور نرالا ہوتا ہے۔ باہر کے بدلتے موسم اور حالات واقعات تو اثرانداز ہوتے ہی ہیں۔ لیکن جب کبھی بِنا کسی ظاہری وجہ کے دِل کا موسم اُتھل پُتھل ہوتا ہے۔ تو اُسے سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ اور اُسے سنبھلنے اور سنبھالنے میں بڑا وقت لگ جاتا ہے۔
میرے، آپ کے، ہم سب کے دِل کا یہی حال ہے۔ کبھی کھیلنے کو چاند مانگ بیٹھتا ہے۔ کبھی مٹّی کے بُت کی پوجا میں لگ جاتا ہے۔ کبھی رونق، بہار اور بارش سمے بھی اداسی کے گلے لگ کے آنسو بہاتا ہے۔ کبھی شدید مایوسی اور تنہائی میں بھی قہقہے لگاتا پھرتا ہے۔ کبھی سب کچھ پاکر بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ کبھی سب کچھ لُٹا کرسکون کی بانسری بجاتا ہے۔
ہم جلد یا بدیر عقل اور عقلی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں۔ حکمت و فہم کے پوشیدہ نکتے کبھی نہ کبھی ہماری گرفت میں آجاتے ہیں، لیکن دِل کی دلیلیں انوکھی ہوتی ہیں۔ اتنی عجیب کہ کبھی کبھی تو خود ہمیں اپنے ہی دل کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا چاہ رہا ہے اور جو چاہ رہا ہے وہ کیوں چاہ رہا ہے۔ وہ کیوں چاہ رہا ہے۔
ہم پھر الٹی سیدھی تاویلات سے اپنے ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے دل کی چاہ اور خواہش کے حق میں ایسی ایسی منطقیں پیش کرتے ہیں کہ جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر۔
مگر اِس کے باوجود ہم اُن کے حضور سرجھکا کر کھڑے رہتے ہیں۔ آج تک کوئی سائنس، طب اور علم نفسیات کا کوئی کلیہ، دِل کے دلائل کی بابت کوئی حتمی نظریہ سامنے نہیں لاسکا ہے کہ انسان کا دِل اُس سے ایسے ایسے اچھوتے کام کیوں کرواڈالتا ہے، جو عقل کے پیمانوں سے نہیں ناپے تولے جاسکتے، اور نہ ہی اب تک ایسی شے ایجاد ہوپائی ہے جو ہمارے دل کے پل پل بدلتے رنگوں اور موسموں کی پیش گوئی کرسکے یا ہمارے احساسات اور جذبات کی سیاہ وسفید پَرتوں کی پیمائش کرسکے اور اُن میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے سکے۔
دُنیا کے اندر اب جگہ جگہ نفسیاتی علوم کے ماہرین انسان کے(Intelligence Quotient) I.Q کے ساتھ ساتھ اُس کے دِل کی ذہانت (Emotional Quotient) E.Q جانچنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔
گذشتہ سوا سو برس میں انسان کی نفسیات، شخصیت، سوچ اور سوچنے کے انداز، اُس کے روّیوں، برتاؤ اور مختلف حالتوں میں اُس کے مختلف افعال اور ان کے ردّعمل۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح سے اِنسان کو سمجھنے، جاننے اور جانچنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ان گنت ایسے سوال نامے اور ریسرچ ٹیسٹ ایجاد کرلیے گئے ہیں جو کچھ ہی دیر میں کسی بھی بچّے، عورت، مرد کی ذہنی اور نفسیاتی اور شخصی ساخت کا جائزہ لے کر اُس کے بارے میں بہت کچھ بتادیتے ہیں کہ وہ اِنسان کب کیا سوچتا ہے۔ اس کو غصّہ آنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اُس کی پسند ناپسند، اس کے رویّے۔ اس کے لاشعور میں چُھپے تضادات اور ان سب نتائج کی بنیاد پر مستقبل میں اُس کے افعال، اور ردّعمل۔
لیکن ابھی تک کوئی ایسا جامع سوال نامہ ترتیب نہیں دیا جاسکا جو کسی بھی انسان کے دل میں نقب لگاسکے اور اس کے دل کے چور کو پکڑسکے۔ اور اس کی قلبی کیفیات کی جانچ پڑتال میں مدد دے سکے۔ ممکنہ اندازوں پر مبنی تو کئی نفسیاتی ٹیسٹ بنائے گئے ہیں، مگر وہ عام طور پر مفروضات کو مدّنظر رکھتے ہوئے دِلی و جذباتی حالات کی عکّاسی کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں۔ نفسیاتی و شخصی ٹیسٹ کی طرح وثوق سے نہ تجزیہ کرسکتے ہیں نہ کوئی پیش گوئی۔
درحقیقت دِلوں کا حال یا تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور یا پھر اللہ والے، دل والے تھوڑے بہت اہم ہوتے ہیں، انسان کی اندورنی قلبی کیفیات کو جاننے اور جانچنے میں۔ درحقیقت کوئی سائنس داں، ڈاکٹر، پروفیسر، ریسرچر یا ماہرنفسیات کبھی بھی انسان کے دِل کے دروازے کھول کر اُس کے اندر نہیں جھانک سکتا۔ اس کے دل کے حال کو نہیں جان سکتا۔ محض مفروضوں اور اندازوں پر اہل علم اپنے تجزیوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ رکھ سکتے ہیں۔ مگر ہمارے جذبات و احساسات کی صحیح جانچ کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ نفسیاتی تجزیہ جاتی سوال نامہ مدد نہیں کرسکتا۔
طبّی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو انسانی جسم میں دل کا کام محض گندے خون کو صاف کرنا اور صاف خون کو بدن کا تمام حصّوں تک پہنچانا ہوتا ہے، لیکن مذہب، تصّوف اور نفسیات کی رو سے دیکھیں تو دل، درحقیقت ہمارے ذہن کا وہ حصہ ہے جو کسی دلیل، وجہ یا منطق کے بِنا ہمہ وقت فعال رہتا ہے اور ہمارے جذبات اور احساسات کو جنم دیتا، ختم کرتا، گھٹاتا، بڑھاتا رہتا ہے۔ علمی ونفسیاتی اصطلاح میں ہم ذہن کے اس حصّے کو Emotional Mind کا نام دے سکتے ہیں۔
ہم اسے 'قلبی ذہن' کہہ سکتے ہیں، لیکن اس سے بہرحال کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دل کو کیا نام دیں۔ بات تو اصل میں دل اور دل کی باتوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی ہے۔ بات تو اپنے دل کو زندہ رکھنے اور مستقل تقویت فراہم کرنے کی ہے۔
ہم سب اپنے پانچ حواسوں سے بخوبی واقف بھی ہیں اور ان پانچوں سے اپنی زندگی کے بے شمار کام بھی انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ چھونے کی حس، دیکھنے کی حس، سُننے کی حس، سونگھنے کی حس۔ چکھنے کی حس۔ پھر ہمارے اندر ایک چھٹی حس بھی ہوتی ہے۔ جو بظاہر بدن کے کِسی جُز یا حصّے سے پیوست نہیں ہوتی، لیکن اگر ہمارے اندر چھٹی حس چوکنا اور بیدار رہتی ہے تو ہم قبل ازوقت، مستقبل میں پیش آنے والے واقعات اور حالات کے تحت اپنے اندر اور اپنی زندگی میں احتیاتی تدابیر بروئے کارلاکر بہتر تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں۔
دل اور دل کی باتوں کو سمجھنے اور جاننے اور جانچنے کا احساس، وہ ساتویں حس ہوتی ہے۔ جو پیدائش کے وقت تو فطرتاً ہر بچّے میں پائی جاتی ہے، مگر پھر ہم جوں جوں بڑے ہوتے ہیں اور ہمارے علم اور دائرہ معلومات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ہمارے احساس کی یہ ساتویں حِس بتدیج کم ہونے لگتی ہے اور کبھی تو بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
ہماری ہر طرح کی تعلیم اور تربیت میں ہماری بنیادی پانچ اور حد سے حد چھٹی حِس کو بڑھانے، پروان چڑھانے اور برقرار کھنے کے طور طریقے انداز بتائے، سکھائے اور سمجھائے جاتے ہیں، لیکن اپنے احساس کی حِس کو کیسے برقرار کھنا ہے، کیسے اُس کی مقناطیسی قوّت وجاذبیت میں اضافہ کرنا ہے، کیسے اس کو Groom اور Cultivate کرنا ہے، کیسے اس کی کانٹ چھانٹ کرتے رہنا ہے، کیسے اس کی نوک پلک کو مستقل سنوارتے رہنا ہے۔ یہ سب، ہم کو، کوئی نہیں بتاتا، کوئی نہیں سکھاتا۔ نہ والدین، نہ اساتذہ، نہ دوست، نہ رشتے دار۔
وقت کے ساتھ ہمارے احساس کی ہری بھری بیل مُرجھانے لگتی ہے۔ حالات وواقعات کی تلخیاں اور لوگوں کے رویّے اور باتیں ہمارے احساس کی جڑوں میں بیٹھ کر اُسے خشک اور کھوکھلا کرنے لگتی ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اپنے دِل، اپنے احساس، اپنے دل کی باتوں اور دل کے رنگوں اور موسموں سے بے نیاز اور بے پرواہ ہونے لگتے ہیں۔ یہ پہلا درجہ ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر اگر دل کے موسموں کے مزاج کو سمجھنے اور سمجھانے والے نہ مل پائیں تو پھر احساس دم توڑ نے لگتا ہے اور دل پتھر ہونے لگتا ہے۔ یہ دوسرا درجہ ہوتا ہے۔ اس لمحے بھی اگر محبت، رفاقت اور اللہ کی رحمت نہ برس پائے تو تیسرا درجہ زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ پھر ہمیں کسی اور کا بھی احساس نہیں رہتا۔ پھر ہم کسی کے بھی دل کا موسم اور مزاج نہیں سمجھ پاتے۔ پھر ہم سنگ دل ہونے لگتے ہیں۔ پھر ہمیں اپنے قریب ترین لوگوں کے احساس کا بھی پاس نہیں رہتا۔ پھر ہم نہ کسی کی خوشی میں خوش ہوپاتے ہیں اور نہ کسی کے دکھ، درد اور غم کو محسوس کرپاتے ہیں۔ ہم اپنی غرض کے خول میں بند ہوجاتے ہیں۔
بے حِسی اور خودغرضی کے مضبوط شیشے کے خول میں بند ہم پھر نہ موسم کے بدلتے رنگوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، نہ لوگوں کے دلوں کے موسم کو دیکھ پاتے اور سمجھ پاتے ہیں، نہ فطرت کی روح ہم سے ہم کلام ہوپاتی ہے اور نہ ہی ہمارا اپنا دِل، تازہ ہوا اور شفاف روشنی میں جگمگا پاتا ہے۔
ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہمارا دل، ہمارے بدن کا حصّہ ہونے کے باوجود، ہمارے وجود سے الگ ہوجاتا ہے۔ پتھر کا بن جاتا ہے۔ پھر کوئی بات، کوئی کلام، کوئی نظر، کوئی نظارہ، کچھ بھی اُس پر اثرانداز نہیں ہوتا اور ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی، سب کچھ کرتے ہوئے بھی، اندر سے خالی، کھوکھلے اور تنہا رہ جاتے ہیں۔
دل اور دل کے موسموں کو تروتازہ اور سرسبزو شاداب رکھنے کے لیے دلوں کی قدر کرنی پڑتی ہے۔ دل والوں کو دل میں رکھنا پڑتا ہے۔ دل والوں کے ساتھ رسم و راہ رکھنی پڑتی ہیں۔ زندگی کی حرارتوں سے خود کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا خون جلانا پڑتا ہے اور دل کو زندہ اور توانا رکھنے کے لیے اوروں کا دل رکھنا پڑتا ہے۔
سارے موسم ایک جیسے نہیں ہوتے۔ ایک جیسے نہیں رہتے۔ بدلتے موسموں میں ہمارا من کا موسم بھی بدلتا رہتا ہے۔ کبھی روشن، کبھی تاریک، کبھی سرد۔
موسم کا تغیر زمین، چاند اور سورج کے گھٹتے بڑھتے فاصلوں اور حرکت کے باعث رونما ہوتا ہے اور سال کے مخصوص دنوں میں مخصوص ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مخصوص موسم ہمارے آنگن میں اترتے ہیں۔
لیکن دِل کے موسموں کا رنگ تیکھا اور نرالا ہوتا ہے۔ باہر کے بدلتے موسم اور حالات واقعات تو اثرانداز ہوتے ہی ہیں۔ لیکن جب کبھی بِنا کسی ظاہری وجہ کے دِل کا موسم اُتھل پُتھل ہوتا ہے۔ تو اُسے سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔ اور اُسے سنبھلنے اور سنبھالنے میں بڑا وقت لگ جاتا ہے۔
میرے، آپ کے، ہم سب کے دِل کا یہی حال ہے۔ کبھی کھیلنے کو چاند مانگ بیٹھتا ہے۔ کبھی مٹّی کے بُت کی پوجا میں لگ جاتا ہے۔ کبھی رونق، بہار اور بارش سمے بھی اداسی کے گلے لگ کے آنسو بہاتا ہے۔ کبھی شدید مایوسی اور تنہائی میں بھی قہقہے لگاتا پھرتا ہے۔ کبھی سب کچھ پاکر بھی مطمئن نہیں ہوتا۔ کبھی سب کچھ لُٹا کرسکون کی بانسری بجاتا ہے۔
ہم جلد یا بدیر عقل اور عقلی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں۔ حکمت و فہم کے پوشیدہ نکتے کبھی نہ کبھی ہماری گرفت میں آجاتے ہیں، لیکن دِل کی دلیلیں انوکھی ہوتی ہیں۔ اتنی عجیب کہ کبھی کبھی تو خود ہمیں اپنے ہی دل کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا چاہ رہا ہے اور جو چاہ رہا ہے وہ کیوں چاہ رہا ہے۔ وہ کیوں چاہ رہا ہے۔
ہم پھر الٹی سیدھی تاویلات سے اپنے ذہن کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے دل کی چاہ اور خواہش کے حق میں ایسی ایسی منطقیں پیش کرتے ہیں کہ جن کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر۔
مگر اِس کے باوجود ہم اُن کے حضور سرجھکا کر کھڑے رہتے ہیں۔ آج تک کوئی سائنس، طب اور علم نفسیات کا کوئی کلیہ، دِل کے دلائل کی بابت کوئی حتمی نظریہ سامنے نہیں لاسکا ہے کہ انسان کا دِل اُس سے ایسے ایسے اچھوتے کام کیوں کرواڈالتا ہے، جو عقل کے پیمانوں سے نہیں ناپے تولے جاسکتے، اور نہ ہی اب تک ایسی شے ایجاد ہوپائی ہے جو ہمارے دل کے پل پل بدلتے رنگوں اور موسموں کی پیش گوئی کرسکے یا ہمارے احساسات اور جذبات کی سیاہ وسفید پَرتوں کی پیمائش کرسکے اور اُن میں آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لے سکے۔
دُنیا کے اندر اب جگہ جگہ نفسیاتی علوم کے ماہرین انسان کے(Intelligence Quotient) I.Q کے ساتھ ساتھ اُس کے دِل کی ذہانت (Emotional Quotient) E.Q جانچنے کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔
گذشتہ سوا سو برس میں انسان کی نفسیات، شخصیت، سوچ اور سوچنے کے انداز، اُس کے روّیوں، برتاؤ اور مختلف حالتوں میں اُس کے مختلف افعال اور ان کے ردّعمل۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح سے اِنسان کو سمجھنے، جاننے اور جانچنے کی کوشش کی گئی ہے، اور ان گنت ایسے سوال نامے اور ریسرچ ٹیسٹ ایجاد کرلیے گئے ہیں جو کچھ ہی دیر میں کسی بھی بچّے، عورت، مرد کی ذہنی اور نفسیاتی اور شخصی ساخت کا جائزہ لے کر اُس کے بارے میں بہت کچھ بتادیتے ہیں کہ وہ اِنسان کب کیا سوچتا ہے۔ اس کو غصّہ آنے کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔ اُس کی پسند ناپسند، اس کے رویّے۔ اس کے لاشعور میں چُھپے تضادات اور ان سب نتائج کی بنیاد پر مستقبل میں اُس کے افعال، اور ردّعمل۔
لیکن ابھی تک کوئی ایسا جامع سوال نامہ ترتیب نہیں دیا جاسکا جو کسی بھی انسان کے دل میں نقب لگاسکے اور اس کے دل کے چور کو پکڑسکے۔ اور اس کی قلبی کیفیات کی جانچ پڑتال میں مدد دے سکے۔ ممکنہ اندازوں پر مبنی تو کئی نفسیاتی ٹیسٹ بنائے گئے ہیں، مگر وہ عام طور پر مفروضات کو مدّنظر رکھتے ہوئے دِلی و جذباتی حالات کی عکّاسی کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں۔ نفسیاتی و شخصی ٹیسٹ کی طرح وثوق سے نہ تجزیہ کرسکتے ہیں نہ کوئی پیش گوئی۔
درحقیقت دِلوں کا حال یا تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور یا پھر اللہ والے، دل والے تھوڑے بہت اہم ہوتے ہیں، انسان کی اندورنی قلبی کیفیات کو جاننے اور جانچنے میں۔ درحقیقت کوئی سائنس داں، ڈاکٹر، پروفیسر، ریسرچر یا ماہرنفسیات کبھی بھی انسان کے دِل کے دروازے کھول کر اُس کے اندر نہیں جھانک سکتا۔ اس کے دل کے حال کو نہیں جان سکتا۔ محض مفروضوں اور اندازوں پر اہل علم اپنے تجزیوں کی بنیاد رکھتے ہیں۔ رکھ سکتے ہیں۔ مگر ہمارے جذبات و احساسات کی صحیح جانچ کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ نفسیاتی تجزیہ جاتی سوال نامہ مدد نہیں کرسکتا۔
طبّی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو انسانی جسم میں دل کا کام محض گندے خون کو صاف کرنا اور صاف خون کو بدن کا تمام حصّوں تک پہنچانا ہوتا ہے، لیکن مذہب، تصّوف اور نفسیات کی رو سے دیکھیں تو دل، درحقیقت ہمارے ذہن کا وہ حصہ ہے جو کسی دلیل، وجہ یا منطق کے بِنا ہمہ وقت فعال رہتا ہے اور ہمارے جذبات اور احساسات کو جنم دیتا، ختم کرتا، گھٹاتا، بڑھاتا رہتا ہے۔ علمی ونفسیاتی اصطلاح میں ہم ذہن کے اس حصّے کو Emotional Mind کا نام دے سکتے ہیں۔
ہم اسے 'قلبی ذہن' کہہ سکتے ہیں، لیکن اس سے بہرحال کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم سمجھنے اور سمجھانے کے لیے دل کو کیا نام دیں۔ بات تو اصل میں دل اور دل کی باتوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے کی ہے۔ بات تو اپنے دل کو زندہ رکھنے اور مستقل تقویت فراہم کرنے کی ہے۔
ہم سب اپنے پانچ حواسوں سے بخوبی واقف بھی ہیں اور ان پانچوں سے اپنی زندگی کے بے شمار کام بھی انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ چھونے کی حس، دیکھنے کی حس، سُننے کی حس، سونگھنے کی حس۔ چکھنے کی حس۔ پھر ہمارے اندر ایک چھٹی حس بھی ہوتی ہے۔ جو بظاہر بدن کے کِسی جُز یا حصّے سے پیوست نہیں ہوتی، لیکن اگر ہمارے اندر چھٹی حس چوکنا اور بیدار رہتی ہے تو ہم قبل ازوقت، مستقبل میں پیش آنے والے واقعات اور حالات کے تحت اپنے اندر اور اپنی زندگی میں احتیاتی تدابیر بروئے کارلاکر بہتر تبدیلی کی کوشش کرتے ہیں۔
دل اور دل کی باتوں کو سمجھنے اور جاننے اور جانچنے کا احساس، وہ ساتویں حس ہوتی ہے۔ جو پیدائش کے وقت تو فطرتاً ہر بچّے میں پائی جاتی ہے، مگر پھر ہم جوں جوں بڑے ہوتے ہیں اور ہمارے علم اور دائرہ معلومات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، ہمارے احساس کی یہ ساتویں حِس بتدیج کم ہونے لگتی ہے اور کبھی تو بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
ہماری ہر طرح کی تعلیم اور تربیت میں ہماری بنیادی پانچ اور حد سے حد چھٹی حِس کو بڑھانے، پروان چڑھانے اور برقرار کھنے کے طور طریقے انداز بتائے، سکھائے اور سمجھائے جاتے ہیں، لیکن اپنے احساس کی حِس کو کیسے برقرار کھنا ہے، کیسے اُس کی مقناطیسی قوّت وجاذبیت میں اضافہ کرنا ہے، کیسے اس کو Groom اور Cultivate کرنا ہے، کیسے اس کی کانٹ چھانٹ کرتے رہنا ہے، کیسے اس کی نوک پلک کو مستقل سنوارتے رہنا ہے۔ یہ سب، ہم کو، کوئی نہیں بتاتا، کوئی نہیں سکھاتا۔ نہ والدین، نہ اساتذہ، نہ دوست، نہ رشتے دار۔
وقت کے ساتھ ہمارے احساس کی ہری بھری بیل مُرجھانے لگتی ہے۔ حالات وواقعات کی تلخیاں اور لوگوں کے رویّے اور باتیں ہمارے احساس کی جڑوں میں بیٹھ کر اُسے خشک اور کھوکھلا کرنے لگتی ہیں۔ آہستہ آہستہ ہم اپنے دِل، اپنے احساس، اپنے دل کی باتوں اور دل کے رنگوں اور موسموں سے بے نیاز اور بے پرواہ ہونے لگتے ہیں۔ یہ پہلا درجہ ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر اگر دل کے موسموں کے مزاج کو سمجھنے اور سمجھانے والے نہ مل پائیں تو پھر احساس دم توڑ نے لگتا ہے اور دل پتھر ہونے لگتا ہے۔ یہ دوسرا درجہ ہوتا ہے۔ اس لمحے بھی اگر محبت، رفاقت اور اللہ کی رحمت نہ برس پائے تو تیسرا درجہ زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ پھر ہمیں کسی اور کا بھی احساس نہیں رہتا۔ پھر ہم کسی کے بھی دل کا موسم اور مزاج نہیں سمجھ پاتے۔ پھر ہم سنگ دل ہونے لگتے ہیں۔ پھر ہمیں اپنے قریب ترین لوگوں کے احساس کا بھی پاس نہیں رہتا۔ پھر ہم نہ کسی کی خوشی میں خوش ہوپاتے ہیں اور نہ کسی کے دکھ، درد اور غم کو محسوس کرپاتے ہیں۔ ہم اپنی غرض کے خول میں بند ہوجاتے ہیں۔
بے حِسی اور خودغرضی کے مضبوط شیشے کے خول میں بند ہم پھر نہ موسم کے بدلتے رنگوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، نہ لوگوں کے دلوں کے موسم کو دیکھ پاتے اور سمجھ پاتے ہیں، نہ فطرت کی روح ہم سے ہم کلام ہوپاتی ہے اور نہ ہی ہمارا اپنا دِل، تازہ ہوا اور شفاف روشنی میں جگمگا پاتا ہے۔
ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہمارا دل، ہمارے بدن کا حصّہ ہونے کے باوجود، ہمارے وجود سے الگ ہوجاتا ہے۔ پتھر کا بن جاتا ہے۔ پھر کوئی بات، کوئی کلام، کوئی نظر، کوئی نظارہ، کچھ بھی اُس پر اثرانداز نہیں ہوتا اور ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی، سب کچھ کرتے ہوئے بھی، اندر سے خالی، کھوکھلے اور تنہا رہ جاتے ہیں۔
دل اور دل کے موسموں کو تروتازہ اور سرسبزو شاداب رکھنے کے لیے دلوں کی قدر کرنی پڑتی ہے۔ دل والوں کو دل میں رکھنا پڑتا ہے۔ دل والوں کے ساتھ رسم و راہ رکھنی پڑتی ہیں۔ زندگی کی حرارتوں سے خود کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا خون جلانا پڑتا ہے اور دل کو زندہ اور توانا رکھنے کے لیے اوروں کا دل رکھنا پڑتا ہے۔