2014 میں افغانستان آج سے زیادہ محفوظ اور مضبوط ہوگا حامد کرزئی
سلامتی سےمتعلق پروپیگنڈےبےبنیادہیں،2014کےبعدامریکی فوجیوں کومقدمات سےاستثنیٰ دینےکافیصلہ لویہ جرگا کریگا،پریس کانفرنس.
افغان صدر حامد کرزئی نے اتحادی افواج کے انخلا کے بعد ملکی سلامتی کیلیے خطرات اور عدم استحکام کے بارے میں تمام افواہوں اور پروپیگنڈوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2014 کے بعد افغانستان آج سے زیادہ محفوظ و مضبوط ریاست کے طور پر ابھرے گا۔
انھوں نے کہا کہ 2014کے بعد ملک میں رہنے والے امریکی فوجیوں کو مقدمات سے استثنیٰ دینے کے حوالے سے فیصلہ لویہ جرگا کرے گا، کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر کرزئی نے اس تاثر کو یکسر مسترد کردیا کہ اتحادی و امریکی افواج کے انخلاکے بعد افغانستان میں قیامت برپا ہوجائے گی اور ملک شدید عدم استحکام و عدم تحفظ کا شکار ہوجائے گا، صدر کرزئی نے ان افواہوں کو بے بنیاد اور من گھڑت سوچ کی عکاس قرار دیااور کہا2014کے بعد امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں امریکا کی تجاویز کو فی الحال قبول نہیں کیا جاسکتا، یہ فیصلہ ضرورت کے تحت ہوگا اور معاملہ مشاورت کیلیے لویہ جرگے کو بھیجا جائے گا۔
اس معاملے پر حتمی فیصلے میں مزید 8 ماہ سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ 2014 کے بعد محدود تعداد میںامریکی فوجیوں کی موجودگی ممکن ہے جیسے جاپان، جرمنی، ترکی اور جنوبی کوریا میں ہے۔ادھر برطانوی وزارت دفاع کے سینئر اہلکار اینڈی اسفن نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی فوجی کردار کو وسعت دینے کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے، 2014 میں مشن ختم کرنے کے بارے میں حکمت عملی واضح ہے۔ دوسری جانب طالبان حملے میں زخمی ہونے والے افغان انٹیلی جنس چیف اسداللہ خالد کا کہنا ہے کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ صحت یاب ہورہے ہیں اور بہت جلد وطن واپس آکر اپنی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔
انھوں نے کہا کہ 2014کے بعد ملک میں رہنے والے امریکی فوجیوں کو مقدمات سے استثنیٰ دینے کے حوالے سے فیصلہ لویہ جرگا کرے گا، کابل میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صدر کرزئی نے اس تاثر کو یکسر مسترد کردیا کہ اتحادی و امریکی افواج کے انخلاکے بعد افغانستان میں قیامت برپا ہوجائے گی اور ملک شدید عدم استحکام و عدم تحفظ کا شکار ہوجائے گا، صدر کرزئی نے ان افواہوں کو بے بنیاد اور من گھڑت سوچ کی عکاس قرار دیااور کہا2014کے بعد امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بارے میں امریکا کی تجاویز کو فی الحال قبول نہیں کیا جاسکتا، یہ فیصلہ ضرورت کے تحت ہوگا اور معاملہ مشاورت کیلیے لویہ جرگے کو بھیجا جائے گا۔
اس معاملے پر حتمی فیصلے میں مزید 8 ماہ سے زائد عرصہ لگ سکتا ہے، انھوں نے کہا کہ 2014 کے بعد محدود تعداد میںامریکی فوجیوں کی موجودگی ممکن ہے جیسے جاپان، جرمنی، ترکی اور جنوبی کوریا میں ہے۔ادھر برطانوی وزارت دفاع کے سینئر اہلکار اینڈی اسفن نے واضح کیا ہے کہ افغانستان میں برطانوی فوجی کردار کو وسعت دینے کی مزید کوئی گنجائش نہیں ہے، 2014 میں مشن ختم کرنے کے بارے میں حکمت عملی واضح ہے۔ دوسری جانب طالبان حملے میں زخمی ہونے والے افغان انٹیلی جنس چیف اسداللہ خالد کا کہنا ہے کہ وہ بہت تیزی کے ساتھ صحت یاب ہورہے ہیں اور بہت جلد وطن واپس آکر اپنی ذمے داریاں سنبھالیں گے۔