پاکستان کی اسلامی فوجی اتحاد میں باضابطہ شمولیت
ایران اور یمن کو بھی اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ بھی اتحاد کا حصہ بن کردہشت گردی کے خلاف اپنا کردارادا کر سکیں
SUKKUR/
HYDERABAD:
ترجمان دفتر خارجہ نفیس ذکریا نے جمعرات کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران اس بات کی وضاحت کر دی کہ پاکستان' سعودی عرب کی قیادت میں تشکیل پانے والے 34رکنی فوجی اتحاد میں باضابطہ شریک ہے اور یہ اتحاد انسداد دہشت گردی کے لیے بنایا گیا ہے جس کے ٹرم آف ریفرنسز ابھی طے ہونے ہیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلم دنیا بالخصوص پاکستان' سعودی عرب' ترکی' عراق' لیبیا کو دہشت گردی کے عفریت کا سامنا ہے۔ اب 34مسلم ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ فوجی اتحاد بنانے پر متفق ہوئے ہیں تو یہ خوش آیند امر ہے تاہم اس اتحاد میں ایران اور یمن شریک نہیں ہوئے اور انھوں نے اس سلسلے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
بہتر ہے کہ ایران اور یمن کو بھی اس اتحاد کا حصہ بنایا جائے تاکہ وہ بھی اتحاد کا حصہ بن کر دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کر سکیں۔ اس 34رکنی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے پاکستانی سابق آرمی چیف جنرل راحیل کا نام ہے۔ اس اتحاد کے مقاصد کے بارے میں ٹرمز آف ریفرنس طے پانے کے بعد ہی صورتحال واضح ہو گی۔ دوسری جانب ممبئی میں جناح ہائوس کو مسمار کرنے کے مطالبے کے حوالے سے آنے والی اطلاعات پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے اس پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ممبئی میں جناح ہائوس پاکستان کی ملکیت ہے اور اس کا خیال رکھنا اور تحفظ کرنا بھارتی حکومت کی ذمے داری ہے، پاکستان بھارتی حمایت یافتہ اور مالی امداد سے جاری دہشت گردی کا شکار ہے' بھارت کی طرف سے افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ 34رکنی فوجی اتحاد کی سربراہی کا قرعہ اگر جنرل راحیل کے نام نکلتا ہے تو اس سے اس اتحاد میں پاکستان کی اہمیت اور وقار میں دوچند اضافہ ہو گا اور یہ اتحاد بھارت کی دہشت گردی کے خلاف پاکستانی موقف کی حمایت بھی کرے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے بھارتی مظالم سے پوری دنیا بخوبی آگاہ ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ شہادتوں میں کشمیریوں کی تعداد 150ہو گئی ہے جب کہ 11ہزار سے زائد کشمیریوں کی بینائی پیلٹ گن سے متاثر ہوئی' بھارت نے یہاں دس لاکھ کے قریب فوج تعینات کر رکھی ہے جس سے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا فوجی زون بن گیا ہے۔ اس وقت جنوبی ایشیا کا پورا خطہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جس کا تقاضا ہے کہ خطے کے تمام ممالک باہمی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف متحد ہوں ورنہ ان کے اختلافات دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کا باعث بنیں گے۔