بھارتی کرکٹ بورڈ کے خلاف کارروائی کا عندیہ
کھیل میں بھی سیاست اورانتہا پسندی کا عنصر بھارت میں انتہاپسند وزیراعظم اوران کی پارٹی کےبرسراقتدار آنے کے بعد شروع ہوا
KARACHI:
کھیلوں سے جہاں صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے وہیں یہ ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے میں مدد گار ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔اسی لیے کھلاڑیوں کوامن کا سفیر بھی کہا جاتا ہے، ہمارے اس خطے کے مقبول ترین کھیل کا اعزاز 'کرکٹ' کو حاصل ہے ۔ پاکستان اور بھارت کرکٹ کے میدان میں روایتی حریف ہیں۔ ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے لاکھوں ،کروڑوں لوگ منتظر رہتے ہیں۔
ماضی قریب تک تو دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز باہم سیریزکا فیصلہ کرتے تھے اور شائقین کرکٹ کو انتہائی سنسنی خیزمیچزدیکھنے کو ملتے تھے۔ اور اسی ضمن میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی معرض وجود میں آئی تھی ، یعنی دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تنازعات اپنی جگہ لیکن کرکٹ کے مقابلے ان سے متاثر نہ ہوتے تھے ۔اب تو چلن ہی بدل گیا ، کھیل میں بھی سیاست اور انتہا پسندی کا عنصر بھارت میں انتہاپسند وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان نے ساری کہانی سچ کی صورت میں بیان کرڈالی ۔ انھوں نے بتایا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ سے 2014 ء میِں آٹھ سال کے دوران چھ سیریزکھیلنے کا معاہدہ طے پایا، معاہدے کی رو سے ان میں سے دو سیریزکا موقع اور وقت جاتا رہا ، جب کہ تیسری سیریز کے لیے بھی بھارتی وزیراعظم حامی بھرتے نظرنہیں آتے۔ پاکستان کو اس ضمن میں ملین ڈالرزکا نقصان ہوچکا ہے۔
اب یہ پاکستان کا حق ہے کہ وہ اس ضمن میں زرتلافی کے لیے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹائے جہاں سے اسے انصاف ملنے کی امید ہے۔بھارت کی جانب سے ٹال مٹول اور انکار ہی کے عمل نے کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اسے اپنی اس روش کو ترک کرکے کھیل کو سیاست سے پاک کرنا ہوگا۔کیونکہ کھیل قوموں کے درمیان پائی جانے والی دوریاں مٹا کر ان کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہمیں کرکٹ کے میدانوں کو آباد کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور سیاست کو کھیل کے میدانوں سے کوسوں دور لے جانا چاہیے اگر یہ بات مودی سرکار کی سمجھ میں آجائے تو بہتر ہے ورنہ جگ ہنسائی اور رسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے ۔
کھیلوں سے جہاں صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہوتا ہے وہیں یہ ملکوں کے درمیان فاصلے کم کرنے میں مدد گار ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔اسی لیے کھلاڑیوں کوامن کا سفیر بھی کہا جاتا ہے، ہمارے اس خطے کے مقبول ترین کھیل کا اعزاز 'کرکٹ' کو حاصل ہے ۔ پاکستان اور بھارت کرکٹ کے میدان میں روایتی حریف ہیں۔ ان مقابلوں کو دیکھنے کے لیے لاکھوں ،کروڑوں لوگ منتظر رہتے ہیں۔
ماضی قریب تک تو دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز باہم سیریزکا فیصلہ کرتے تھے اور شائقین کرکٹ کو انتہائی سنسنی خیزمیچزدیکھنے کو ملتے تھے۔ اور اسی ضمن میں کرکٹ ڈپلومیسی کی اصطلاح بھی معرض وجود میں آئی تھی ، یعنی دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تنازعات اپنی جگہ لیکن کرکٹ کے مقابلے ان سے متاثر نہ ہوتے تھے ۔اب تو چلن ہی بدل گیا ، کھیل میں بھی سیاست اور انتہا پسندی کا عنصر بھارت میں انتہاپسند وزیراعظم اور ان کی پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد شروع ہوا ہے۔ پی سی بی کے چیئرمین شہریار خان نے ساری کہانی سچ کی صورت میں بیان کرڈالی ۔ انھوں نے بتایا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ سے 2014 ء میِں آٹھ سال کے دوران چھ سیریزکھیلنے کا معاہدہ طے پایا، معاہدے کی رو سے ان میں سے دو سیریزکا موقع اور وقت جاتا رہا ، جب کہ تیسری سیریز کے لیے بھی بھارتی وزیراعظم حامی بھرتے نظرنہیں آتے۔ پاکستان کو اس ضمن میں ملین ڈالرزکا نقصان ہوچکا ہے۔
اب یہ پاکستان کا حق ہے کہ وہ اس ضمن میں زرتلافی کے لیے ہر وہ دروازہ کھٹکھٹائے جہاں سے اسے انصاف ملنے کی امید ہے۔بھارت کی جانب سے ٹال مٹول اور انکار ہی کے عمل نے کرکٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اسے اپنی اس روش کو ترک کرکے کھیل کو سیاست سے پاک کرنا ہوگا۔کیونکہ کھیل قوموں کے درمیان پائی جانے والی دوریاں مٹا کر ان کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ہمیں کرکٹ کے میدانوں کو آباد کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے اور سیاست کو کھیل کے میدانوں سے کوسوں دور لے جانا چاہیے اگر یہ بات مودی سرکار کی سمجھ میں آجائے تو بہتر ہے ورنہ جگ ہنسائی اور رسوائی ان کا مقدر بن چکی ہے ۔