موسیٰ منساکانام تک فراموش ہوچکاہے
ارتکازدولت ہماری سوسائٹی میں ایک مہلک بیماری کا رخ اختیارکرچکاہے
موسیٰ منسا نے ارادہ کیاکہ حج کادشوارسفرضرورکرے گا۔افریقہ کی طاقتورترین سلطنت کامالک ایک غیرمعمولی انسان تھا۔غیرمعمولی اس لحاظ سے نہیں کہ قدگیارہ فٹ تھا یا دنیاکی سب سے بھاری تلوارچلاسکتا تھا۔شکل وصورت افریقی اورجسامت بھی عام سی تھی۔اس کے مختلف ہونے کی وجہ صرف ایک تھی۔دنیاکی قلمبند تاریخ کا سب سے امیر انسان تھا۔اِبن خلدون اوراِبن بطوطہ کے نزدیک اس کی دولت اورخزانے کا شمارکرنا ناممکن تھا۔
سلطان موسیٰ کے حج کی تیاری کوتقریباًایک سال سے زیادہ عرصہ لگا۔سونے کی تاروں سے مرصع شاہی خیمے بنائے گئے۔ اہل خانہ کے لیے سفری محل ترتیب دیے گئے۔چودھویں صدی کازمانہ تھا۔موسیٰ منساکے ذہین ترین درباریوں نے ہزاروں خیموں کے چلتے پھرتے شہرتشکیل دیے۔سلطان کے قافلے میں ساٹھ ہزارلوگ شامل تھے۔ان میں بارہ ہزار غلام تھے۔ سلطان کے گھوڑوں کے لیے خصوصی لگامیں بنوائی گئیں۔ان میں سونے کا کام کیا گیا ۔غلاموں کو ریشم کے کپڑے زیب تن کرائے گئے۔ہرغلام کوتقریباًدوکلوگرام سونا دیاگیا۔یہ سنہری سلاخوں کی صورت میں تھا۔غلام ان سلاخوں کوسرپرلادکرچلتے تھے۔ سوکے لگ بھگ اونٹ منتخب کیے گئے۔ ہراونٹ پر140کلوگرام کے قریب سونا لادا گیا۔
غلاموں اوراونٹوں پر جو سوناہے،آج کے حساب سے اس کا اندازہ کرناناممکن ہے۔اس دورمیں بھی سلطان کی دولت کا اندازہ نہیں کیاجاسکتاتھا۔وجہ بالکل سادہ تھی۔مالیان سلطنت کے خطے میں سونے کے بھرپور ذخائر موجود تھے۔ موسیٰ پورے ملک کے سونے کا مالک تھا۔اس وقت کایورپ بھوک اورکسمپرسی کی حالت میں تھا۔مگرافریقہ حیرت انگیز رفتارپرترقی کررہاتھا۔یورپ اورپوری دنیاسے لوگ روزگار کی تلاش میں مالیان سلطنت کارخ کرتے تھے۔سلطان موسیٰ کی حج کی تیاری انتہائی جامع تھی۔خزانے کاکچھ حصہ اس کے ہمراہ تھا۔تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جہاں بھی موسی منسا کا قافلہ پڑاؤ کرتا تھا، وہاں ایک پوراشہرآبادہوجاتاتھا۔اِبن خلدون کے مطابق لوگوں کی تعدادگننا مشکل تھی۔
حج کے سفرکی داستان بھی عجیب وغریب تھی۔راستے میں جوسوالی،فقیراورحاجت مندملتاتھا،اسے کھانا کھلایا جاتا تھا۔بہترین کپڑے عطاکیے جاتے تھے اورجاتے وقت سونے کی دوسے پانچ ڈلیاں بطورخیرات دی جاتی تھیں۔ چار ہزارکلومیٹرکایہ سفرراستے میں آنے والے تمام ملکوں کے لیے خوشحالی کاذریعہ بن گیا۔سلطان جس شہرسے بھی گزرتا، وہاں کے حاکم، منتظم اورتاجروں کوسونے سے مالامال کر دیتا۔ قاہرہ اورمدینہ میں لوگوں نے اس قدرسوناخواب میں بھی نہیں دیکھاتھا۔سلطان راستے میں مختلف ریاستوں کے بادشاہوں سے بھی ملتاہواجاتاتھا۔مصرکے مملوک سلطان، اَل نصرمحمدسے اس کی ملاقات تاریخ کے صفحوں میں محفوظ ہے۔
اَل نصرمحمدجیسابادشاہ،سلطان موسیٰ کے جاہ وجلال اوردولت کودیکھ کرششدررہ گیا۔ہرجمعہ کوبادشاہ جس جگہ قیام کرتا تھا،وہاں ایک مسجدکی بنیادرکھتاتھااوراس کے لیے مالی وسائل مہیاکردیتاتھا۔اتنے لمبے سفرمیں کتنی مساجدقائم ہوئی تھیں، اسکاصرف قیافہ لگایاجاسکتاہے۔حتمی طورپرکچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پانچ سویاشائدایک ہزاریاشائدکچھ زیادہ۔سلطان نے اپنے راستے اورحج کے دوران اس قدرسوناتقسیم کیاکہ ان تمام علاقوں کی معیشت بدل گئی۔سونے کم ہوگئی۔ اشیاء خورونوش اورروزمرہ کی اشیاء کی قیمت بڑھ گئی۔
بہت سے علاقوں کی معیشت تباہ ہوگئی ۔ سلطان کوجب پتہ چلاتوحج مکمل کرچکاتھااورواپسی کا سفر کررہا تھا۔ دربارمیں سوال اُٹھایاکہ ان علاقوں کی معیشت کیسے بہتر کرسکتاہے۔ارادہ تو مددکرنے کاتھا۔مگریہ لوگ اس کی مددکی وجہ سے معاشی عدم استحکام کاشکارہوگئے تھے۔باہم مشورہ سے اعلان عام کیاکہ جولوگ اسے سوناواپس کرناچاہتے تھے، اس کابھرپوربلکہ دوگنا معاوضہ دیگا۔ لوگوں نے جو سوناخیرات یا تحفہ کے طور پر وصول کیاتھا،وہی سلطان کوتگڑے داموں فروخت کردیا۔ بادشاہ کوحج کے سفرمیں پوراایک سال لگا۔ جب واپس اپنی سلطنت میں پہنچاتواس کے بیٹے نے خوشخبری سنائی کہ گاؤکا بڑا شہربھی اس کی غیرموجودگی میں فتح ہوچکاہے۔سلطان کی سلطنت اپنے وقت کی سب سے عظیم افریقی سلطنت بن گئی۔ چار سو شہروں پراس کی حکومت تھی۔ آج کے اعتبارسے چھ سے سات افریقی ملک اس کی حکومت کاحصہ تھے۔حج سے واپسی پر سلطان اپنے ساتھ لاتعداد عالم اورفنِ تعمیرکے ماہرین لے کر آیا تھا۔
نیانی میں موسیٰ نے ایک فقیدالمثال عمارت تعمیر کروائی۔یہ شاہی محل سے منسلک تھی اوراسکاایک دروازہ محل کے اندرسے منسلک تھا۔دومنزلہ عمارت کو دربار کہا جا سکتا ہے۔اسکومکالمہ کی ایک جگہ بھی بتایاجاسکتاہے۔عمارت کی دونوں منزلوں میں قیمتی لکڑی کے بڑے بڑے دروازے تھے۔ان تمام دروازوں پرسونے کے بھاری پترچڑھائے گئے تھے۔اس طرح کاقیمتی درباراس زمانے میں کسی بھی بادشاہ کے پاس نہیں تھا۔محل کے نزدیک ایک بہت بڑی مسجدبھی تعمیرکروائی گئی۔مسجدکے گنبداوردروازوں کوبھی سونے سے مرصع کیاگیاتھا۔موسیٰ نے اس کے ساتھ ساتھ پچیس ہزارطالبعلموں کے لیے ایک تعلیمی درسگاہ بنوائی۔ اس کی لائبریری میں پوری دنیاکے قلمی نسخے موجود تھے۔
سلطان طالبعلموں کے تمام مالی اخراجات خودبرداشت کرتا تھا۔اس میں ایک کروڑکے قریب کتابیں موجود تھیں۔ سلطان کی مجموعی دولت موجودہ دورکے چارسوبلین ڈالرکے قریب تھی۔ایک ہزارسال کی تاریخ میں موسیٰ منسادنیا کا امیرترین شخص رہاہے۔اس سارے معاملے کوپرکھیے۔ایک ہزاربرس میں پچیس ایسے انسان گزرے ہیں جنہوں نے دنیاکے تمام اثاثوں میں سے اکثریت کواپنے خزانوں میں شامل کیا تھا۔ یعنی پچیس ایسے امیرلوگ تھے جنکے پاس ایک محتاط اندازے کے مطابق چارٹریلین ڈالرکی دولت موجود تھی۔ پچیس آدمی اس عظیم خزانے کے مختلف اوقات میں مالک رہے ہیں۔ سلطان موسیٰ اس میں اوّل نمبرپرتھا۔باقی لوگوں کانام جاننا بھی کافی ضروری ہے۔ان پچیس لوگوں میں کوئی بھی خاتون شامل نہیں ہے۔
المیثل روتھ چائلڈ (Amschal Rothe Child)اس لسٹ میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اٹھارویں صدی میں پیداہونے والاایمثل یورپ کے بینکاری نظام کا موجد تھا۔ اس کے پانچ بیٹوں نے بھی اپنی اپنی جگہ پانچ اقتصادی سلطنتیں قائم کیں۔جان راک فیلر اس فہرست میں تیسرے نمبرپرہے۔اس کی دولت تین سو چالیس بلین ڈالرکی تھی۔ وارن بوفے، اس فہرست کا غریب ترین انسان ہے۔لیکن آج بھی وہ دنیامیں پہلے یادوسرے نمبر پر ہے۔مقصدقطعاًیہ نہیں کہ سلطان موسیٰ کے خزانے بتا کر اس کی تاریخی اہمیت واضح کروں۔تاریخی اہمیت اپنی جگہ پر، مگر مقصدبالکل مختلف اور متضادہے۔عرض کرناچاہتاہوں کہ آج، چندسوبرس پہلے کے امیرترین شخص کانام تک کوئی نہیں جانتا۔امیرترین ہی نہیں۔ انسانی تاریخ کے امیرترین شخص کو بھی کوئی نہیں پہنچانتا۔وہ کون تھا،کہاں تھااورکیوں تھا۔کوئی بھی ان سوالات میں قطعاًکوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
سلطان موسیٰ نے جوسونے سے مرصع درباربنایاتھا،وہ بھی وقت کے ہاتھوں ختم ہوچکا ہے۔ اس کے کھنڈرات کابھی کچھ علم نہیں۔ شائد کچھ نشانیاں موجودہوں۔مگرسلطان کانام وناموس ،کچھ بھی کسی تذکرے میں نہیں آتا۔سب کچھ آپ موجودہ حالات کے تناظرمیں دیکھیے۔ہمارے ملک میں عام کہا جاتا ہے مغرب میں بہت زیادہ مادہ پرستی ہے۔لوگ دولت کے بازارمیں ہرچیزنیلام کرڈالتے ہیں اورہرایک چیز کا خریدار موجود ہے۔کسی حدتک یہ درست بھی ہے۔امریکا اورمغربی دنیا کوایک لمحہ کے لیے بھول جائیے۔ اپنے ملک کی طرف دیکھیے۔کیایہاں مادہ پرستی بلکہ دولت کی عملاًپوجاکارجحان موجودنہیں ہے۔بالکل ہے۔کیونکہ ہم بنیادی طورپرمنافق لوگ ہیں اس لیے اصل حقیقت کوجانتے ہوئے بھی ماننے سے انکارکردیتے ہیں۔
ارتکازدولت ہماری سوسائٹی میں ایک مہلک بیماری کا رخ اختیارکرچکاہے۔یہ بات درست ہے کہ جائزحدتک مال ودولت ضرورہونی چاہیے۔مگرمناسب لفظ کی کسی قسم کی تعریف نہیں ہے۔کوئی ایک کروڑکومناسب خیال کریگا اور کوئی ایک ارب کوغیرمناسب۔خیرآپ ہمارے مقتدر اور کاروباری طبقے کو تنقیدی نگاہ سے پرکھیے۔1947ء سے لے کر آج تک ملک کے تمام صدورکی فہرست مرتب کیجیے۔تمام وزراء اعظم کی لسٹ بھی بنائیے۔مارشل لاء کے تمام جرنیلوں کے بھی نام قلمبندکیجیے۔چھ سے سات دہائیوں کے امیر ترین کاروباری حضرات کوبھی جانچ لیجیے۔یہ کوئی تیس سے پچاس لوگ بنیں گے۔اب دہائیوں کے حساب سے ان کے نام ونشان پرغورکیجیے۔حیران رہ جائینگے کہ تقریباًدس سے بیس برس کے بعدماضی کے دولت مندترین لوگ اپنانام کھو دیتے ہیں۔صرف چندسالوں بعدکسی کوبھی یادنہیں رہتاکہ بیس برس پہلے جس امیرشخص کاطوطی بولتاتھا،وہ کہاں گیا۔
مثال کے طورپرلائل پورمیں پچاس کی دہائی میں ایک کاروباری خاندان کے پاس ذاتی ہوائی جہازاورذاتی ائیرپورٹ تھا۔ ان کا خاندان گھرسے قدم نکالتے ہی ذاتی جہازمیں سفرشروع کر دیتاتھا۔آج نہ کوئی جہازہے،نہ کوئی ذاتی ائیرپورٹ۔وقت کی گردمیں ان لوگوں کانام بے نام ہو چکاہے۔لائل پورکاوہ متمول خاندان اوراس طرح کے بہت سے دولت مندلوگ تھوڑے سے عرصے کے بعدختم ہوجاتے ہیں۔انکانام تک خاک میں مل جاتاہے۔کوئی انکاذکرکرنابھی اہم نہیں سمجھتا۔ اس تمام معاملہ کاایک دوسرازاویہ بھی ہے۔آپ پاکستان کے مقتدرطبقے کی تمام دولت کاتخمینہ لگائیے۔ جائز اور ناجائز دونوں طرح کے اثاثے گن لیجیے۔سب کچھ ملکربھی سلطان موسیٰ منساکی مجموعی دولت سے کم ہوگا۔محض چندصدیاں پہلے تاریخ کے دولت مندترین بادشاہ کوکوئی نہیں جانتاتوان دولت مندمقتدرلوگوں کاچندسالوں بعدذکرکون کریگا۔ جہاں موسیٰ منساکانام مٹ گیا،وہاںان لوگوں کی کیااوقات ہے!