جھولے لعل بیڑا پار
انسٹی ٹیوٹ کا سالانہ بجٹ دو سو پچیس ملین روپے ہے مگر ترقیاتی بجٹ کی مد میں ایک پیسہ بھی نہیں
سندھ اسمبلی میں گزشتہ ہفتے حزبِ اختلاف مسلم لیگ فنگشنل کے رکن نند کمار نے قرار داد پیش کی کہ شہریوں کو کسی بھی ناگہانی میں فوری طبی امداد دینے کے لیے صوبے کے ہر ضلع میں جدید ٹراما سینٹر قائم کیا جائے۔ اگر سیہون میں ٹراما سینٹر ہوتا تو بہت سی جانیں بروقت بچائی جا سکتی تھیں۔ان کی ساتھی رکنِ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی نے توجہ دلائی کہ آئے دن کے حادثات سے نمٹنے کے لیے قومی شاہراہ، انڈس ہائی وے یا سپر ہائی وے پر ایک بھی ٹراما سینٹر نہیں۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر کامل نے کہا کہ میرپور خاص اور حیدرآباد جیسے بڑے شہروں میں بھی ٹراما سینٹر نہیں۔تحریکِ انصاف کی رکن ڈاکٹر سیما ضیا نے کہا کہ ٹراما سینٹر کے لیے صرف عمارت کا ہونا کافی نہیں۔ تربیت یافتہ عملہ بھی درکار ہے۔
صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر سکندر مہندرو نے بتایا کہ حکومت نہ صرف ضلع اسپتالوں کو اپ گریڈ کر رہی ہے بلکہ اس نے صوبے کے مختلف علاقوں میں بیالیس ٹراما سینٹر بھی قائم کیے ہیں۔ ان میں سے پچیس ٹراما سینٹرز فعال نہیں ہیں۔جب کہ دیگر (یعنی سترہ) اگلے دو ماہ میں فعال ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ صوبے میں ساڑھے تین سو ایمبولینسوں پر مشتمل سروس بھی قائم کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ایک ایم او یو (میمورینڈم آف انڈر اسٹینڈنگ) پر دستخط ہو چکے ہیں۔ چنانچہ حزبِ اختلاف کی قرارداد بھاری اکثریت سے مسترد کر دی گئی۔
اچھی بات ہے کہ وزیرِ صحت ڈاکٹر سکندر مہندرو نے سب کچھ مستقبل پر ڈال دیا۔یعنی ضلع اسپتال اپ گریڈ نہیں ہو سکے بلکہ اپ گریڈ ہو رہے ہیں۔ٹراما سینٹرز فعال نہیں ہیں فعال ہونے والے ہیں۔ایمبولینس سروس قائم نہیں ہے قائم کی جا رہی ہے۔کاش وہ یہ بھی اضافہ کر دیتے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پچھلے نو برس سے قائم نہیں ہے قائم ہو رہی ہے۔مگر یہ واحد منصوبہ ہے جو صوبے میں پوری طرح فعال ہے۔
کوئی پندرہ دن پہلے مجھے قلندر سائیں نے ذوالفقار علی شاہ (ایف ایم والے) کے وسیلے سے اپنے پاس سیہون حاضری کے لیے طلب کیا۔نصف شب کی تنہائی میں قلندر سے ملاقات ہوئی۔حالانکہ خود کش بمبار ہال کے اندر قلندر کی قبر کے چو طرف قائم لکڑی کے منقش کٹہرے سے محض چار فٹ کے فاصلے پر پھٹا تھا جس کے سبب اس کے پاس کھڑے زائرین کے چیتھڑے اوپر کی گیلری تک جا پہنچے۔گیلری میں موجود بہت سے کبوتر بھی ہلاک ہوئے۔ مگر کٹہرے کے اندر خون کا کوئی چھینٹا یا انسانی لوتھڑا تک نہیں گیا۔خود چوبی کٹہرا بھی جوں کا توں ہے۔بس یہ ہوا کہ خودکش دھماکے کی شدت سے اس کا ایک کونہ ایک جانب دو انچ کھسک گیا ہے اور خودکش بمبار کے پیروں تلے موجود ماربل کی چار پانچ ٹائلیں زخمی ہیں۔
مگر اصل کرامت کچھ اور ہے۔ہال میں جو بھی لوگ مرے ایکدم مرگئے۔صرف چار ایسے زخمی تھے جن کی موت بعد میں ہوئی۔ کیونکہ قلندر جانتا ہے کہ اس کے احاطے کی ایک دیوار پر ڈسپنسری کا بورڈ لگا ہوا ہے اور بورڈ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
قلندر جانتا ہے کہ مزار سے کوئی ایک کلومیٹر پرے ایک احاطے کے باہر عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا بورڈ لگا ہوا ہے۔یہ بورڈ پڑھتے ہی میرے ذہن میں ایک شاندار تصویر ابھرنے لگی۔اب میں اندر جاؤں گا تو اسٹیٹ آف دی آرٹ طبی سہولتیں دیکھوں گا۔ڈاکٹرز اور نیم طبی عملہ سفید کوٹ پہنے متحرک ہوگا۔ایک بڑی سی ریسرچ لیب میں میڈیکل سائنس کے ماہرین اور طلبا خوردبینوں پر جھکے ہوئے ہوں گے۔قطار سے ایمبولینسیں کھڑی ہوں گی۔ایرکنڈیشنڈ او پی ڈی کے ہال میں ڈاکٹروں کے درجن بھر کیبن بنے ہوں گے اور مریض اطمینان سے آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ (آپ ہی بتائیے کہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پڑھ کے اور کیا ذہن میں آئے؟)
سیہون میں دھماکا سولہ فروری کو ہوا۔اس دھماکے سے سات ماہ پہلے اسی عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بارے میں روزنامہ ڈان میں ایک رپورٹ شایع ہوئی کہ وہاں ڈاکٹروں اور اسپیشلسٹس کی چھیانوے آسامیوں میں سے صرف آٹھ بھری ہوئی ہیں اٹھاسی خالی ہیں۔آج سیہون بم دھماکے کے ڈیڑھ ماہ بعد حالات قدرے بہتر ہیں۔اب اٹھاسی نہیں صرف ستاسی آسامیاں خالی ہیں۔نرسوں کی بیس آسامیوں میں سے صرف سولہ خالی ہیں۔انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر معین الدین صدیقی نے تئیس فروری کو صوبائی سیکریٹری ہیلتھ کو ایک باضابطہ خط لکھا تھا کہ خدا کے واسطے اب تو طبی عملہ بڑھا دیں۔مگر ڈاکٹر معین صاحب آج تک انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی اس خط کی وصولی کی رسید ہی انھیں کراچی سے بھجوا دے۔(مجھے امید ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد صوبائی محکمہ صحت فوری حرکت میں آئے گا اور کچھ نہ بھی ہو سکا تو گستاخ ڈاکٹر معین صدیقی کا تبادلہ ضرور ہو جائے گا)۔
انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں دو ہزار چودہ سے ایک ٹراما سینٹر بھی قائم ہے۔ابھی وہ خود ٹراما کا شکار ہے۔چودہ میں سے ایک بھی آسامی پُر نہیں ہے۔ سینٹرجب معمول پر آئے گا تو انسانوں کے بھی کام آئے گا۔مجھے بتایا گیا کہ انسٹی ٹیوٹ میں ایک پیتھالوجیکل لیب بھی ہے۔مگر اہلِ سیہون چونکہ کھلی فضا میں رہنے کے عادی ہیں لہذا بند لیبارٹری میں خون کے نمونے دینے سے ان کا دم گھٹتا ہے۔ شاید اسی لیے ایک مرد نرس ایک مریض کو کاریڈور کی بنچ پر بٹھا کر اس کا بلڈ سمپل کھینچ رہا تھا۔
اس انسٹی ٹیوٹ میں اسی بستر ہیں کہ ڈیڑھ سو کہ دو سو۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ جتنا عملہ اتنی باتیں۔ آپریشن تھیٹر ضرور ہے مگر اینستھیسٹ نہیں۔ڈرگ اسٹور ہے مگر فارماسسٹ نہیں۔لیب ہے مگر ٹیکنیشن نہیں، پیتھالوجسٹ بھی نہیں۔ البتہ ایکسرے مشین آپریشنل ہے۔ایک چیسٹ اسپیشلٹ ہے۔شائد اس لیے کہ اگر کسی مریض کے سینے میں کم مائیگی کی ہوک اٹھے تو وہ چیسٹ اسپیشلسٹ کے سینے سے لگ کے اپنا درد ہلکا کر سکے۔بچے پیدا ہوتے ہیں مگر گائنا کالوجسٹ نہیں۔بوقتِ ضرورت پرائیویٹ پریکٹس کرنے والی ایک گائناکالوجسٹ کو بلا لیا جاتا ہے اور وہ آ بھی جاتی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کا سالانہ بجٹ دو سو پچیس ملین روپے ہے۔مگر ترقیاتی بجٹ کی مد میں ایک پیسہ بھی نہیں۔سب کا سب تنخواہوں اور انتظامی اخراجات کے لیے ہے۔جس روز دھماکا ہوا اس روز شہری جوق در جوق انسٹی ٹیوٹ آئے اور خون دیا۔بلڈ بینک میں سو بیگ خون رکھنے کی گنجائش ہے۔ شہر کے پرائیویٹ پریکٹیشنرز بھی آگئے۔انسٹی ٹیوٹ کی سات ایمبولینسیں بھی فعال تھیں اور پھر ایدھی، الخدمت اور ہلالِ احمر بھی پہنچ گئے اور زخمیوں کو ایک سو تیس کلو میٹر پرے نواب شاہ اور دو گھنٹے کی مسافت پر حیدرآباد اور کچھ کو پانچ گھنٹے کی مسافت پر کراچی منتقل کیا گیا۔
سن دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم کے دوران میں قنبر شہداد کوٹ کے ڈسٹرکٹ اسپتال بھی گیا تھا۔ڈاکٹر، نرسز، دوائیں، ایمبولینس، بستر ؟مگر میڈیکل سپرنڈنڈنٹ کی ایک بات اچھی لگی کہ سائیں اللہ جس حال میں بھی خوش رکھے شکر کرنا چاہیے۔میں تعلقہ وارہ کے تحصیل اسپتال بھی گیا جہاں ایک چھوٹے سے کیبن میں سیمنٹ کا ایک سلیب بنا ہوا تھا اور گلی میں کھلنے والی واحد کھڑکی کے پٹ غائب تھے۔اس کیبن کے دروازے پر تختی لگی تھی ''مردہ خانہ''۔
دو ہزار سترہ میں سیہون کے عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈائریکٹر سے میں نے پوچھا لاشوں کے لیے کولڈ اسٹوریج تو ہوگا ؟کہنے لگے لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جام شورو میں چھ لاشیں رکھنے کے لیے کولڈ اسٹوریج ہے۔اگر اندرونِ سندھ کہیں اور بھی ہو تو میرے علم میں نہیں۔
مزید ظلم یہ کہ سندھ حکومت کو چڑانے کے لیے وزیرِاعظم نواز شریف پرائم منسٹر ہیلتھ کارڈ بانٹنے کے وعدے کر رہے ہیں تاکہ مریضوں میں پی ٹی ایس ڈی ِ (پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) مزید پھیل جائے۔
صوبائی وزیرِ صحت ڈاکٹر سکندر مہندرو نے بتایا کہ حکومت نہ صرف ضلع اسپتالوں کو اپ گریڈ کر رہی ہے بلکہ اس نے صوبے کے مختلف علاقوں میں بیالیس ٹراما سینٹر بھی قائم کیے ہیں۔ ان میں سے پچیس ٹراما سینٹرز فعال نہیں ہیں۔جب کہ دیگر (یعنی سترہ) اگلے دو ماہ میں فعال ہو جائیں گے۔اس کے علاوہ صوبے میں ساڑھے تین سو ایمبولینسوں پر مشتمل سروس بھی قائم کی جارہی ہے اور اس سلسلے میں ایک ایم او یو (میمورینڈم آف انڈر اسٹینڈنگ) پر دستخط ہو چکے ہیں۔ چنانچہ حزبِ اختلاف کی قرارداد بھاری اکثریت سے مسترد کر دی گئی۔
اچھی بات ہے کہ وزیرِ صحت ڈاکٹر سکندر مہندرو نے سب کچھ مستقبل پر ڈال دیا۔یعنی ضلع اسپتال اپ گریڈ نہیں ہو سکے بلکہ اپ گریڈ ہو رہے ہیں۔ٹراما سینٹرز فعال نہیں ہیں فعال ہونے والے ہیں۔ایمبولینس سروس قائم نہیں ہے قائم کی جا رہی ہے۔کاش وہ یہ بھی اضافہ کر دیتے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پچھلے نو برس سے قائم نہیں ہے قائم ہو رہی ہے۔مگر یہ واحد منصوبہ ہے جو صوبے میں پوری طرح فعال ہے۔
کوئی پندرہ دن پہلے مجھے قلندر سائیں نے ذوالفقار علی شاہ (ایف ایم والے) کے وسیلے سے اپنے پاس سیہون حاضری کے لیے طلب کیا۔نصف شب کی تنہائی میں قلندر سے ملاقات ہوئی۔حالانکہ خود کش بمبار ہال کے اندر قلندر کی قبر کے چو طرف قائم لکڑی کے منقش کٹہرے سے محض چار فٹ کے فاصلے پر پھٹا تھا جس کے سبب اس کے پاس کھڑے زائرین کے چیتھڑے اوپر کی گیلری تک جا پہنچے۔گیلری میں موجود بہت سے کبوتر بھی ہلاک ہوئے۔ مگر کٹہرے کے اندر خون کا کوئی چھینٹا یا انسانی لوتھڑا تک نہیں گیا۔خود چوبی کٹہرا بھی جوں کا توں ہے۔بس یہ ہوا کہ خودکش دھماکے کی شدت سے اس کا ایک کونہ ایک جانب دو انچ کھسک گیا ہے اور خودکش بمبار کے پیروں تلے موجود ماربل کی چار پانچ ٹائلیں زخمی ہیں۔
مگر اصل کرامت کچھ اور ہے۔ہال میں جو بھی لوگ مرے ایکدم مرگئے۔صرف چار ایسے زخمی تھے جن کی موت بعد میں ہوئی۔ کیونکہ قلندر جانتا ہے کہ اس کے احاطے کی ایک دیوار پر ڈسپنسری کا بورڈ لگا ہوا ہے اور بورڈ کے سوا کچھ بھی نہیں۔
قلندر جانتا ہے کہ مزار سے کوئی ایک کلومیٹر پرے ایک احاطے کے باہر عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کا بورڈ لگا ہوا ہے۔یہ بورڈ پڑھتے ہی میرے ذہن میں ایک شاندار تصویر ابھرنے لگی۔اب میں اندر جاؤں گا تو اسٹیٹ آف دی آرٹ طبی سہولتیں دیکھوں گا۔ڈاکٹرز اور نیم طبی عملہ سفید کوٹ پہنے متحرک ہوگا۔ایک بڑی سی ریسرچ لیب میں میڈیکل سائنس کے ماہرین اور طلبا خوردبینوں پر جھکے ہوئے ہوں گے۔قطار سے ایمبولینسیں کھڑی ہوں گی۔ایرکنڈیشنڈ او پی ڈی کے ہال میں ڈاکٹروں کے درجن بھر کیبن بنے ہوں گے اور مریض اطمینان سے آرام دہ کرسیوں پر بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ (آپ ہی بتائیے کہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پڑھ کے اور کیا ذہن میں آئے؟)
سیہون میں دھماکا سولہ فروری کو ہوا۔اس دھماکے سے سات ماہ پہلے اسی عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے بارے میں روزنامہ ڈان میں ایک رپورٹ شایع ہوئی کہ وہاں ڈاکٹروں اور اسپیشلسٹس کی چھیانوے آسامیوں میں سے صرف آٹھ بھری ہوئی ہیں اٹھاسی خالی ہیں۔آج سیہون بم دھماکے کے ڈیڑھ ماہ بعد حالات قدرے بہتر ہیں۔اب اٹھاسی نہیں صرف ستاسی آسامیاں خالی ہیں۔نرسوں کی بیس آسامیوں میں سے صرف سولہ خالی ہیں۔انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر معین الدین صدیقی نے تئیس فروری کو صوبائی سیکریٹری ہیلتھ کو ایک باضابطہ خط لکھا تھا کہ خدا کے واسطے اب تو طبی عملہ بڑھا دیں۔مگر ڈاکٹر معین صاحب آج تک انتظار کر رہے ہیں کہ کوئی اس خط کی وصولی کی رسید ہی انھیں کراچی سے بھجوا دے۔(مجھے امید ہے کہ اس مضمون کی اشاعت کے بعد صوبائی محکمہ صحت فوری حرکت میں آئے گا اور کچھ نہ بھی ہو سکا تو گستاخ ڈاکٹر معین صدیقی کا تبادلہ ضرور ہو جائے گا)۔
انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں دو ہزار چودہ سے ایک ٹراما سینٹر بھی قائم ہے۔ابھی وہ خود ٹراما کا شکار ہے۔چودہ میں سے ایک بھی آسامی پُر نہیں ہے۔ سینٹرجب معمول پر آئے گا تو انسانوں کے بھی کام آئے گا۔مجھے بتایا گیا کہ انسٹی ٹیوٹ میں ایک پیتھالوجیکل لیب بھی ہے۔مگر اہلِ سیہون چونکہ کھلی فضا میں رہنے کے عادی ہیں لہذا بند لیبارٹری میں خون کے نمونے دینے سے ان کا دم گھٹتا ہے۔ شاید اسی لیے ایک مرد نرس ایک مریض کو کاریڈور کی بنچ پر بٹھا کر اس کا بلڈ سمپل کھینچ رہا تھا۔
اس انسٹی ٹیوٹ میں اسی بستر ہیں کہ ڈیڑھ سو کہ دو سو۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ جتنا عملہ اتنی باتیں۔ آپریشن تھیٹر ضرور ہے مگر اینستھیسٹ نہیں۔ڈرگ اسٹور ہے مگر فارماسسٹ نہیں۔لیب ہے مگر ٹیکنیشن نہیں، پیتھالوجسٹ بھی نہیں۔ البتہ ایکسرے مشین آپریشنل ہے۔ایک چیسٹ اسپیشلٹ ہے۔شائد اس لیے کہ اگر کسی مریض کے سینے میں کم مائیگی کی ہوک اٹھے تو وہ چیسٹ اسپیشلسٹ کے سینے سے لگ کے اپنا درد ہلکا کر سکے۔بچے پیدا ہوتے ہیں مگر گائنا کالوجسٹ نہیں۔بوقتِ ضرورت پرائیویٹ پریکٹس کرنے والی ایک گائناکالوجسٹ کو بلا لیا جاتا ہے اور وہ آ بھی جاتی ہے۔
انسٹی ٹیوٹ کا سالانہ بجٹ دو سو پچیس ملین روپے ہے۔مگر ترقیاتی بجٹ کی مد میں ایک پیسہ بھی نہیں۔سب کا سب تنخواہوں اور انتظامی اخراجات کے لیے ہے۔جس روز دھماکا ہوا اس روز شہری جوق در جوق انسٹی ٹیوٹ آئے اور خون دیا۔بلڈ بینک میں سو بیگ خون رکھنے کی گنجائش ہے۔ شہر کے پرائیویٹ پریکٹیشنرز بھی آگئے۔انسٹی ٹیوٹ کی سات ایمبولینسیں بھی فعال تھیں اور پھر ایدھی، الخدمت اور ہلالِ احمر بھی پہنچ گئے اور زخمیوں کو ایک سو تیس کلو میٹر پرے نواب شاہ اور دو گھنٹے کی مسافت پر حیدرآباد اور کچھ کو پانچ گھنٹے کی مسافت پر کراچی منتقل کیا گیا۔
سن دو ہزار دس کے سیلابِ عظیم کے دوران میں قنبر شہداد کوٹ کے ڈسٹرکٹ اسپتال بھی گیا تھا۔ڈاکٹر، نرسز، دوائیں، ایمبولینس، بستر ؟مگر میڈیکل سپرنڈنڈنٹ کی ایک بات اچھی لگی کہ سائیں اللہ جس حال میں بھی خوش رکھے شکر کرنا چاہیے۔میں تعلقہ وارہ کے تحصیل اسپتال بھی گیا جہاں ایک چھوٹے سے کیبن میں سیمنٹ کا ایک سلیب بنا ہوا تھا اور گلی میں کھلنے والی واحد کھڑکی کے پٹ غائب تھے۔اس کیبن کے دروازے پر تختی لگی تھی ''مردہ خانہ''۔
دو ہزار سترہ میں سیہون کے عبداللہ شاہ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے ڈائریکٹر سے میں نے پوچھا لاشوں کے لیے کولڈ اسٹوریج تو ہوگا ؟کہنے لگے لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جام شورو میں چھ لاشیں رکھنے کے لیے کولڈ اسٹوریج ہے۔اگر اندرونِ سندھ کہیں اور بھی ہو تو میرے علم میں نہیں۔
مزید ظلم یہ کہ سندھ حکومت کو چڑانے کے لیے وزیرِاعظم نواز شریف پرائم منسٹر ہیلتھ کارڈ بانٹنے کے وعدے کر رہے ہیں تاکہ مریضوں میں پی ٹی ایس ڈی ِ (پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر) مزید پھیل جائے۔