احتساب سب کا
سیاستدانوں، جنرلوں اور ججوں کا یکساں احتساب ہونا چاہیے
سیاستدانوں، جنرلوں اور ججوں کا یکساں احتساب ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں اور دیگر طبقوں کے لیے الگ الگ قانون نہیں ہوسکتا۔ لاپتہ افراد کے معاملات ریاست میں ریاست کے مترادف ہیں۔ جمہوری نظام کے لیے 8 اور مارشل لاء کے حق میں 11 دلیلیں پڑھائی جارہی ہیں۔ ملک کو آمروں نے زیادہ نقصان پہنچایا۔ 21ویں ترمیم کی حمایت مجبوراً کی تھی۔ فوجی عدالتوں کے قانون کی منظوری کے وقت آئینی فرائض انجام دوں گا۔ نیب کرپشن ختم کرنے کا سبب نہیں بڑھانے کا سبب ہے۔ سینئر سیاسی کارکن پیپلز پارٹی کے رکن سینیٹ کے چیئرپرسن میاں رضا ربانی نے معروف سوشل سائنٹسٹ ڈاکٹر جعفر احمد کی کتاب کی تقریب اجرا میں اپنے صدارتی خطبے میں یہ حقائق بیان کیے۔
ملک کے سیاسی نظام کے طالب علموں کے لیے رضا ربانی کا بیان کوئی نئی بات نہیں مگر نوجوانوں کے لیے یہ باتیں چونکا دینے والی ہیں۔ سیاستدانوں، بیوروکریسی اور عدلیہ میں بدعنوانی، قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کی روایت بہت پرانی ہے، 1948سے سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کا پردہ چاک کرنے اور انھیں قرار واقعی سزا دینے کا عمل جاری ہے، مگر ریاستی اداروں کو چلانے والے دیگر موثر گروپوں کے احتساب کا معاملہ مبہم اور گنجلک ہے۔ 50ء کی دہائی میں سیاستدانوں کے احتساب کے لیے اس وقت کی سویلین حکومت نے پہلا قانون نافذ کیا تھا۔
اس قانون کے تحت سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو سمیت بہت سے سیاستدانوں کو احتساب کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کئی سیاستدانوں کو پبلک آفس چھوڑنے پڑے تھے اور کئی کو سزائیں کاٹنی پڑیں۔ اس زمانے میں چوہدری محمد علی اور غلام محمد بیوروکریسی کی نمایندگی کرتے تھے۔ یہ دونوں بیوروکریٹ اس وقت کے انتظامی ڈھانچے میں موثر طاقت کے حامل تھے۔ ایک اور بیوروکریٹ اور سابق فوجی میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان ان بیوروکریٹس کی پشت پناہی کرتے تھے۔
غلام محمد لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں وزیر خزانہ تھے۔ انھیں ملک کے بانی محمد علی جناح نے اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔ غلام محمد آئی سی ایس افسر تھے۔ انھوں نے متحدہ ہندوستان کی عبوری وزارت میں لیاقت علی خان کے وزیر خزانہ بننے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چوہدری محمد علی ایک رجعت پسند ذہن رکھتے تھے۔ وہ محمد علی جناح کے جدید ریاست کو جمہوریہ قرار دینے کے لیے ایک سیکیولر ریاست کے تصور کے خلاف تھے مگر جناح صاحب کے سامنے اپنے رجعت پسند خیالات کی ترویج نہیں کرتے تھے۔ البتہ جناح صاحب کی 11 اگست 1947کی آئین ساز اسمبلی کے دوسرے دن کے اجلاس میں کی جانے والی بنیادی تقریر کی اشاعت کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ غلام محمد لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور بنگال سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاسی رہنما خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بن گئے تھے۔
خواجہ ناظم الدین کو بیوروکریسی کی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ مشرقی پاکستان سے غذائی سامان بھارت اسمگل ہورہا ہے اور اس بنا پر مشرقی پاکستان میں غذائی قلت پیدا ہورہی ہے، جس کی ذمے داری وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعلیٰ نورالامین پر ہے تو خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کی ایما پر اردو کو قومی زبان قرار دینے کا اعلان مشرقی پاکستان میں دہرایا۔ مشرقی پاکستان میں ان کی مقبولیت کا گراف نیچے گر گیا۔ پھر غلام محمد نے ایک دن خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا اور کچھ عرصے بعد آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ اس وقت کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ نے چوہدری غلام محمد کے منتخب اسمبلی کو توڑنے کے فیصلے کو نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس منیر نے یہ فیصلہ لکھا اور 1958 میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ کو درست قرار دیا۔ جسٹس منیر نے بعد میں شایع ہونے والی اپنی کتاب میں اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا مگر کسی عدالت نے ان کا کوئی احتساب نہیں کیا۔
پھر جب فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے 1958میں مارشل لاء نافذ کر کے ریاست کی سربراہی سنبھال لی تو انھوں نے سیاستدانوں کے احتساب کا بیڑا اٹھایا۔ بہت سے سیاستدانوں کو ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دو بیٹے گوہر اور اختر ایوب بری فوج میں کمیشنڈ افسر تھے، مگر انھوں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا اور صنعت کار بن گئے۔ چند برسوں میں ان کا شمار ملک کے 22 امیرترین خاندانوں میں ہونے لگا۔ جنرل یحییٰ خان نے پہلی دفعہ 303 افسروں کو برطرف کیا۔
یحییٰ خان کی پالیسی کی بنا پر ملک ٹوٹ گیا مگر انھیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ تدفین بھی فوجی اعزاز کے ساتھ ہوئی۔ جنرل ضیاء نے قانونی حکومت کو برطرف کر کے مارشل لاء نافذ کیا۔ پھر افغان جنگ میں شرکت کر کے ملک کی ساخت کو تباہ کیا مگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا گیا۔ جنرل ضیاء نے ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کی آڑ میں ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ جنرل ضیاء کی پالیسیوں کے نتیجے میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ ہوا۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا مگر نہ تو ضیاء الحق اور نہ ہی ان کے اقتدار کو قانونی جواز فراہم کرنے والے چیف جسٹس انوار الحق کو کسی قسم کے احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کی پالیسی کے خلاف کارگل پر چڑھائی کی۔ پھر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی قیادت میں فل بنچ نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی قرار دیا اور آئین میں ترمیم کا اختیار دیا۔ پرویز مشرف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے مگر مشرف اور ارشاد حسن خان مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔ مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مقدمہ میں جب بھی خصوصی عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ ہوا، اسلام آباد کی سڑکوں پر بم پھٹنے لگے۔ دوسری طرف ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو کٹہرے میں احتساب کا سامنا کرنا پڑا اور ایک ایسے ہی عدالتی فیصلے کے ذریعے سزائے موت دی گئی کہ ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کو کہنا پڑا کہ یہ بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ قانونی طور پر اتنا کمزور ہے کہ اس مقدمہ کو کبھی بھی عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ 1988 سے 1999تک برسر اقتدار آنے والی دونوں جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو کڑے احتساب سے گزرنا پڑا۔
پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو 10 سال سے زائد عرصے تک قید برداشت کرنی پڑی۔ مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کو اٹک قلعہ میں مہینوں قید تنہائی میں گزارنے پڑے اور اب بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کو مختلف نوعیت کے احتساب کا سامنا ہے۔
رضا ربانی کی یہ بات درست ہے کہ جنرلوں، ججوں اور منتخب سیاستدانوں کے احتساب کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیے۔ نیب کرپشن کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ نیب کی جگہ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں آنا چاہیے جو سب کا یکساں احتساب کرے مگر سیاستدانوں سے ہمدردی کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ سیاستدانوں کو مکمل طور پر شفاف ہونا چاہیے اور بروقت احتساب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسی طرح دیگر بااثر گروہوں کے احتساب کا راستہ کھلے گا۔ پھر اس حقیقت کو بار بار بیان کرنے میں سب کا فائدہ ہے کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہی تبدیلی لاسکتی ہیں۔ سیاستدانوں کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
ملک کے سیاسی نظام کے طالب علموں کے لیے رضا ربانی کا بیان کوئی نئی بات نہیں مگر نوجوانوں کے لیے یہ باتیں چونکا دینے والی ہیں۔ سیاستدانوں، بیوروکریسی اور عدلیہ میں بدعنوانی، قوائد و ضوابط کی خلاف ورزیوں کی روایت بہت پرانی ہے، 1948سے سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کا پردہ چاک کرنے اور انھیں قرار واقعی سزا دینے کا عمل جاری ہے، مگر ریاستی اداروں کو چلانے والے دیگر موثر گروپوں کے احتساب کا معاملہ مبہم اور گنجلک ہے۔ 50ء کی دہائی میں سیاستدانوں کے احتساب کے لیے اس وقت کی سویلین حکومت نے پہلا قانون نافذ کیا تھا۔
اس قانون کے تحت سندھ کے سابق وزیراعلیٰ ایوب کھوڑو سمیت بہت سے سیاستدانوں کو احتساب کا سامنا کرنا پڑا تھا اور کئی سیاستدانوں کو پبلک آفس چھوڑنے پڑے تھے اور کئی کو سزائیں کاٹنی پڑیں۔ اس زمانے میں چوہدری محمد علی اور غلام محمد بیوروکریسی کی نمایندگی کرتے تھے۔ یہ دونوں بیوروکریٹ اس وقت کے انتظامی ڈھانچے میں موثر طاقت کے حامل تھے۔ ایک اور بیوروکریٹ اور سابق فوجی میجر جنرل ریٹائرڈ اسکندر مرزا اور فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان ان بیوروکریٹس کی پشت پناہی کرتے تھے۔
غلام محمد لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دور میں وزیر خزانہ تھے۔ انھیں ملک کے بانی محمد علی جناح نے اس عہدے پر تعینات کیا تھا۔ غلام محمد آئی سی ایس افسر تھے۔ انھوں نے متحدہ ہندوستان کی عبوری وزارت میں لیاقت علی خان کے وزیر خزانہ بننے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چوہدری محمد علی ایک رجعت پسند ذہن رکھتے تھے۔ وہ محمد علی جناح کے جدید ریاست کو جمہوریہ قرار دینے کے لیے ایک سیکیولر ریاست کے تصور کے خلاف تھے مگر جناح صاحب کے سامنے اپنے رجعت پسند خیالات کی ترویج نہیں کرتے تھے۔ البتہ جناح صاحب کی 11 اگست 1947کی آئین ساز اسمبلی کے دوسرے دن کے اجلاس میں کی جانے والی بنیادی تقریر کی اشاعت کو روکنے کی کوشش کی تھی۔ غلام محمد لیاقت علی خان کے قتل کے بعد گورنر جنرل بن گئے اور بنگال سے تعلق رکھنے والے سینئر سیاسی رہنما خواجہ ناظم الدین وزیراعظم بن گئے تھے۔
خواجہ ناظم الدین کو بیوروکریسی کی زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مغربی پاکستان کی بیوروکریسی نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ مشرقی پاکستان سے غذائی سامان بھارت اسمگل ہورہا ہے اور اس بنا پر مشرقی پاکستان میں غذائی قلت پیدا ہورہی ہے، جس کی ذمے داری وزیراعظم خواجہ ناظم الدین اور وزیر اعلیٰ نورالامین پر ہے تو خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کی ایما پر اردو کو قومی زبان قرار دینے کا اعلان مشرقی پاکستان میں دہرایا۔ مشرقی پاکستان میں ان کی مقبولیت کا گراف نیچے گر گیا۔ پھر غلام محمد نے ایک دن خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کردیا اور کچھ عرصے بعد آئین ساز اسمبلی کو توڑ دیا۔ اس وقت کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ نے چوہدری غلام محمد کے منتخب اسمبلی کو توڑنے کے فیصلے کو نظریہ ضرورت کے تحت درست قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس منیر نے یہ فیصلہ لکھا اور 1958 میں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ کو درست قرار دیا۔ جسٹس منیر نے بعد میں شایع ہونے والی اپنی کتاب میں اپنی اس غلطی کا اعتراف کیا مگر کسی عدالت نے ان کا کوئی احتساب نہیں کیا۔
پھر جب فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے 1958میں مارشل لاء نافذ کر کے ریاست کی سربراہی سنبھال لی تو انھوں نے سیاستدانوں کے احتساب کا بیڑا اٹھایا۔ بہت سے سیاستدانوں کو ایبڈو کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔ جنرل ایوب خان کے دو بیٹے گوہر اور اختر ایوب بری فوج میں کمیشنڈ افسر تھے، مگر انھوں نے فوج سے استعفیٰ دے دیا اور صنعت کار بن گئے۔ چند برسوں میں ان کا شمار ملک کے 22 امیرترین خاندانوں میں ہونے لگا۔ جنرل یحییٰ خان نے پہلی دفعہ 303 افسروں کو برطرف کیا۔
یحییٰ خان کی پالیسی کی بنا پر ملک ٹوٹ گیا مگر انھیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ تدفین بھی فوجی اعزاز کے ساتھ ہوئی۔ جنرل ضیاء نے قانونی حکومت کو برطرف کر کے مارشل لاء نافذ کیا۔ پھر افغان جنگ میں شرکت کر کے ملک کی ساخت کو تباہ کیا مگر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انوارالحق کی سربراہی میں نظریہ ضرورت کے تحت جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو جائز قرار دے دیا گیا۔ جنرل ضیاء نے ایک متنازعہ عدالتی فیصلے کی آڑ میں ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی۔ جنرل ضیاء کی پالیسیوں کے نتیجے میں مذہبی انتہاپسندی کو فروغ ہوا۔ ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر عام ہوا مگر نہ تو ضیاء الحق اور نہ ہی ان کے اقتدار کو قانونی جواز فراہم کرنے والے چیف جسٹس انوار الحق کو کسی قسم کے احتساب کا سامنا کرنا پڑا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی دوسری حکومت کی پالیسی کے خلاف کارگل پر چڑھائی کی۔ پھر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ سابق چیف جسٹس ارشاد حسن خان کی قیادت میں فل بنچ نے پرویز مشرف کے اقتدار کو قانونی قرار دیا اور آئین میں ترمیم کا اختیار دیا۔ پرویز مشرف آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے مگر مشرف اور ارشاد حسن خان مزے سے زندگی گزار رہے ہیں۔ مشرف کو آئین کے آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کے مقدمہ میں جب بھی خصوصی عدالت میں پیش ہونے کا فیصلہ ہوا، اسلام آباد کی سڑکوں پر بم پھٹنے لگے۔ دوسری طرف ملک کے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو کٹہرے میں احتساب کا سامنا کرنا پڑا اور ایک ایسے ہی عدالتی فیصلے کے ذریعے سزائے موت دی گئی کہ ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر کو کہنا پڑا کہ یہ بھٹو کو سزائے موت کا فیصلہ قانونی طور پر اتنا کمزور ہے کہ اس مقدمہ کو کبھی بھی عدالتی نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا۔ 1988 سے 1999تک برسر اقتدار آنے والی دونوں جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو کڑے احتساب سے گزرنا پڑا۔
پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو 10 سال سے زائد عرصے تک قید برداشت کرنی پڑی۔ مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف کو اٹک قلعہ میں مہینوں قید تنہائی میں گزارنے پڑے اور اب بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کو مختلف نوعیت کے احتساب کا سامنا ہے۔
رضا ربانی کی یہ بات درست ہے کہ جنرلوں، ججوں اور منتخب سیاستدانوں کے احتساب کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیے۔ نیب کرپشن کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔ نیب کی جگہ ایک ایسے ادارے کا قیام عمل میں آنا چاہیے جو سب کا یکساں احتساب کرے مگر سیاستدانوں سے ہمدردی کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ سیاستدانوں کو مکمل طور پر شفاف ہونا چاہیے اور بروقت احتساب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اسی طرح دیگر بااثر گروہوں کے احتساب کا راستہ کھلے گا۔ پھر اس حقیقت کو بار بار بیان کرنے میں سب کا فائدہ ہے کہ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ہی تبدیلی لاسکتی ہیں۔ سیاستدانوں کا کوئی متبادل نہیں ہے۔