ماحولیاتی تبدیلیاں اور کرۂ ارض کا مستقبل
دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا
خالق کائنات نے بنی نوع انسان کو تازہ فرحت بخش ہوا، بارش، مٹی، آگ، پہاڑ، سمندر، دریا، آبشاریں، جھیلیں، پھول، پھل، جاندار الغرض بحر و بر اور فضا کی تمام نعمتیں بخش کر زمین پر بھیجا۔ مگر ہم نے قدرت کی نعمتوں کا بے دریغ اور غلط استعمال کرکے قدرت کے توازن میں بگاڑ پیدا کردیا، بڑھتی ہوئی آبادی، ہولناک جنگوں، جنگلات کی بے دریغ کٹائی، سمندر اور دریاؤں کو آلودہ کرنے کے عمل، بے تحاشا تعمیرات، کارخانوں اور گاڑیوں کے سائلنسرز سے خارج ہونے والے دھوئیں نے کرۂ ارض کے ماحول کو انتہائی آلودہ کردیا ہے۔ نظام فطرت کے برخلاف اقدامات کے باعث آج کرۂ ارض پر بسنے والے اربوں انسانوں کو شدید مشکلات درپیش ہیں، اگر کہا جائے کہ ماحول کا بگاڑ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔
یہ بات مسلسل دہرائی جارہی ہے کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات سے متعلق خاصی تشویش میں مبتلا ہیں اور اس حقیقت کو محسوس کررہے ہیں کہ اگر کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت (گلوبل وارمنگ) کو کنٹرول کرنے کی اجتماعی کوشش نہ کی گئی تو سیلابوں، خشک سالی، طوفانوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے سلسلے کو نہیں روکا جاسکے گا اور ایسے ممالک جو جزیروں کی صورت میں آباد ہے، صفحہ ہستی سے معدوم ہوسکتے ہیں، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر کرۂ ارض دو اعشاریہ سات سلیسئس سالانہ کی شرح سے گرم ہوتا رہا تو اس صدی کے آخر تک گلیشیئر پگھل جائیں گے، سمندروں کی سطح بلند ہوجائے گی، کراچی اور گوادر ڈوب جائیں گے، ممبئی، مدراس، نیویارک، لاس اینجلس، اور دنیا کے دوسرے ساحلی شہر بھی غرق آب ہوجائیں گے۔
پچھلے سال قطب شمالی کا درجہ حرارت وہاں پر سردیوں کے اوسط درجہ حرارت سے بھی 36ڈگری فارن ہائیٹ (20ڈگری سینٹی گریڈ) زیادہ نوٹ کیا گیا، جس سے وہاں نئی برف بننے کا عمل خاصا سست ہوا، قطب شمالی پر سردیوں کے دوران نئی برف کی وافر مقدار جمتی ہے جب کہ وہاں گرمیوں کے موسم میں بڑے پیمانے پر برف پگھلتی ہے جس سے بننے والا پانی ساری دنیا کے سمندوں میں پہنچتا ہے اور نہ صرف سمندر بلکہ زمین کے ماحول کو بھی متوازن رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ گلوبل وارمنگ سے ہونے والی حرارت تیزی سے سمندر میں اتر رہی ہے اور سمندر 13فیصد تیزی سے گرم ہورہے ہیں۔ جرنل سائنس ایڈوانسز میں شایع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 60برس سے سمندروں کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور گزشتہ تخمینوں کے مقابلے میں اب یہ گرمی 13فیصد تیزی سے بڑھ رہی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موسمیاتی نظام میں سمندر غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی گرمی سے زمین سے لے کر ہوا تک کا سارا سسٹم متاثر ہورہا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 2015تاریخ کا گرم ترین سال رہا لیکن اگلے ہی برس یہ ریکارڈ ٹوٹ گیا اور 2016تاریخ کا گرم ترین سال قرار پایا، جب کہ 2017اپنی گرمی میں گزشتہ سال کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے، دنیا میں جس تیزی سے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ہر نیا سال پچھلے سال کے مقابلے میں گرم تر ثابت ہورہا ہے یہ خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔
عالمی درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ پر کام کرنیوالے سائنسدانوں کے مطابق ہمالیہ کے برفیلے تودے پگھل رہے ہیں حتیٰ کہ یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے، اسی طرح ایشیاء، افریقہ، امریکا، جنوبی امریکا کے بڑے خطے ناقابل رہائش ریگستانوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں، ان تبدیلیوں کی وجہ سے کہیں انتہائی سیلابی صورتحال تو کہیں قحط سالی بہت سی اموات کا سبب بن سکتی ہے۔
بلاشبہ زمین کے ماحول کو مغربی ممالک اور امریکا کی اندھا دھند صنعتی مہم بازی اور بے لگام منافع خوری کی وجہ سے جو نقصان پہنچا اس کی مرمت کی تمام تر ذمے داری مغرب پر ہی عائد ہوتی ہے ایک طرف تو کائنات میں انسانوں کے واحد مسکن کرۂ ارض کو ناقابل رہائش بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف ایشیائی اور افریقی ملکوں کے باشندے اس صنعتی جبر کی قیمت اپنی صحت اور زندگی سے ادا کررہے ہیں، جب امیر اور متمول ملکوں کو اپنی ان ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ ان کی تلافی کے لیے مالی ذمے داریوں سے پہلوتہی کرتے ہیں۔
بڑے ترقیاتی ممالک کے کارخانے اور کاروبار دنیا میں موسم کو بڑی تیزی سے تبدیل کررہے ہیں، ان اہم ممالک میں سرفہرست چین، امریکا اور روس ہیں، چین کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ ترقی کی قیمت پر ماحول اور موسم کو مزید خراب کرنا مناسب نہیں ہے مگر اس کے لیے کیا قیمت ادا کرنی ہے، یہ ذرا مشکل سوال ہے؟ امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس کو اندازہ ہوچکا ہے کہ ماحول اور موسم کی خرابیاں ان کی ترقی کے سفر کو مشکوک بنارہی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں غریب ممالک مفت میں اپنا ماحول اور موسم خراب کررہے ہیں، وقتی ترقی تو ہورہی ہے مگر ماحول اور موسم کی خرابی عالمی زراعت اور صحت کو سب سے زیادہ خراب کرتی نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ماحولیات کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا نہ لیا گیا یا پھر نئے راستے تلاش نہیں کیے گئے تو پھر اس کرۂ ارض کا مستقبل سوالیہ نشان بن جائے گا۔
اس وقت دنیا بھر میں ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں پر کافی تشویش نظر آرہی ہے لیکن ہمارے وطن عزیز پاکستان میں موسم اور ماحول ونوں میں خاصے تناؤ اور تلخی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے ، ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور میں ماحول اور موسم کے بارے میں توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان اس وقت بھی آیندہ الیکشن کے بارے میں منصوبے بنارہے ہیں، پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر آبادی کا دباؤ نمایاں ہے، پھر ہماری معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے، جب کہ ملک میں کارخانے بھی لگ رہے ہیں، ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین عالمی موسمیاتی تبدیلیوں میں اہم حیثیت کے حامل ہیں، ان کی وجہ سے ماحول اور موسم بدلتے جارہے ہیں، پاکستان کا شمار اگرچہ فضا میں بھاری مقدار میں مہلک گیسز خارج کرنے والے ممالک میں نہیں ہوتا تاہم بدقسمتی سے موسمی تغیرات سے متاثر سرفہرست دس ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں موسمی تبدیلیوں کے سبب قدرتی آفات اور خشک سالی سمیت پانی کی کم یابی کے خدشات زیادہ ہیں، پاکستان میں پانی کی قلت اور بھارتی آبی جارحیت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں نے صورتحال کو مزید سنگین کردیا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2016قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوچکا ہے، یہ ایکٹ ایسے اداروں کی تشکیل میں مدد فراہم کرے گا جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے مطابقت فراہم کریں گے۔ اس قانون کے بعد تین اہم ادارے پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل، پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور پاکستان کلائمیٹ چینج فنڈ قائم کیے گئے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی میں کی گئی لاپرواہی کی روایات کو ترک کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی اقتصادی حالت، معیشت کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ ہیں اور ان کی وجہ سے سب سے بڑا چیلنج زرعی سیکڑ کو درپیش ہے۔
پاکستان میں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو سرسبز اور ماحول سے مطابقت رکھتا ہو، تاکہ پائیدار ترقی اور نمو تک پہنچا جاسکے، موسمیاتی تبدیلیاں جس تیزی سے وقوع پذیر ہورہی ہیں، ان سے نمٹنے کا موقع اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، سو فوری اور موثر اقدامات کیے جانے چاہیے، جن میں زیادہ درجہ حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت کی حامل فصلیں، سیلاب سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام اور شمال کی جانب دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے اور زیادہ منصوبے شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے خدشات کے پیش نظر پالیسی ساز اداروں اور سیاسی جماعتوں کو بھی گلوبل وارمنگ کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھنا ہوگا۔
یہ بات مسلسل دہرائی جارہی ہے کہ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت کرۂ ارض پر موجود ہر قسم کے ماحولیاتی نظاموں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اثرات سے متعلق خاصی تشویش میں مبتلا ہیں اور اس حقیقت کو محسوس کررہے ہیں کہ اگر کرۂ ارض کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت (گلوبل وارمنگ) کو کنٹرول کرنے کی اجتماعی کوشش نہ کی گئی تو سیلابوں، خشک سالی، طوفانوں اور گلیشیئرز کے پگھلنے کے سلسلے کو نہیں روکا جاسکے گا اور ایسے ممالک جو جزیروں کی صورت میں آباد ہے، صفحہ ہستی سے معدوم ہوسکتے ہیں، خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر کرۂ ارض دو اعشاریہ سات سلیسئس سالانہ کی شرح سے گرم ہوتا رہا تو اس صدی کے آخر تک گلیشیئر پگھل جائیں گے، سمندروں کی سطح بلند ہوجائے گی، کراچی اور گوادر ڈوب جائیں گے، ممبئی، مدراس، نیویارک، لاس اینجلس، اور دنیا کے دوسرے ساحلی شہر بھی غرق آب ہوجائیں گے۔
پچھلے سال قطب شمالی کا درجہ حرارت وہاں پر سردیوں کے اوسط درجہ حرارت سے بھی 36ڈگری فارن ہائیٹ (20ڈگری سینٹی گریڈ) زیادہ نوٹ کیا گیا، جس سے وہاں نئی برف بننے کا عمل خاصا سست ہوا، قطب شمالی پر سردیوں کے دوران نئی برف کی وافر مقدار جمتی ہے جب کہ وہاں گرمیوں کے موسم میں بڑے پیمانے پر برف پگھلتی ہے جس سے بننے والا پانی ساری دنیا کے سمندوں میں پہنچتا ہے اور نہ صرف سمندر بلکہ زمین کے ماحول کو بھی متوازن رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
ایک بری خبر یہ بھی ہے کہ گلوبل وارمنگ سے ہونے والی حرارت تیزی سے سمندر میں اتر رہی ہے اور سمندر 13فیصد تیزی سے گرم ہورہے ہیں۔ جرنل سائنس ایڈوانسز میں شایع ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 60برس سے سمندروں کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور گزشتہ تخمینوں کے مقابلے میں اب یہ گرمی 13فیصد تیزی سے بڑھ رہی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ موسمیاتی نظام میں سمندر غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں اور ان کی گرمی سے زمین سے لے کر ہوا تک کا سارا سسٹم متاثر ہورہا ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ 2015تاریخ کا گرم ترین سال رہا لیکن اگلے ہی برس یہ ریکارڈ ٹوٹ گیا اور 2016تاریخ کا گرم ترین سال قرار پایا، جب کہ 2017اپنی گرمی میں گزشتہ سال کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے، دنیا میں جس تیزی سے اوسط درجہ حرارت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ہر نیا سال پچھلے سال کے مقابلے میں گرم تر ثابت ہورہا ہے یہ خطرے کی گھنٹیاں ہیں۔
عالمی درجہ حرارت کے اتار چڑھاؤ پر کام کرنیوالے سائنسدانوں کے مطابق ہمالیہ کے برفیلے تودے پگھل رہے ہیں حتیٰ کہ یورپ اور دنیا کے دیگر حصوں میں بھی یہی صورتحال ہے، اسی طرح ایشیاء، افریقہ، امریکا، جنوبی امریکا کے بڑے خطے ناقابل رہائش ریگستانوں میں تبدیل ہوسکتے ہیں، ان تبدیلیوں کی وجہ سے کہیں انتہائی سیلابی صورتحال تو کہیں قحط سالی بہت سی اموات کا سبب بن سکتی ہے۔
بلاشبہ زمین کے ماحول کو مغربی ممالک اور امریکا کی اندھا دھند صنعتی مہم بازی اور بے لگام منافع خوری کی وجہ سے جو نقصان پہنچا اس کی مرمت کی تمام تر ذمے داری مغرب پر ہی عائد ہوتی ہے ایک طرف تو کائنات میں انسانوں کے واحد مسکن کرۂ ارض کو ناقابل رہائش بنایا جارہا ہے تو دوسری طرف ایشیائی اور افریقی ملکوں کے باشندے اس صنعتی جبر کی قیمت اپنی صحت اور زندگی سے ادا کررہے ہیں، جب امیر اور متمول ملکوں کو اپنی ان ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو وہ ان کی تلافی کے لیے مالی ذمے داریوں سے پہلوتہی کرتے ہیں۔
بڑے ترقیاتی ممالک کے کارخانے اور کاروبار دنیا میں موسم کو بڑی تیزی سے تبدیل کررہے ہیں، ان اہم ممالک میں سرفہرست چین، امریکا اور روس ہیں، چین کو اب اندازہ ہورہا ہے کہ ترقی کی قیمت پر ماحول اور موسم کو مزید خراب کرنا مناسب نہیں ہے مگر اس کے لیے کیا قیمت ادا کرنی ہے، یہ ذرا مشکل سوال ہے؟ امریکا، روس، برطانیہ اور فرانس کو اندازہ ہوچکا ہے کہ ماحول اور موسم کی خرابیاں ان کی ترقی کے سفر کو مشکوک بنارہی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں غریب ممالک مفت میں اپنا ماحول اور موسم خراب کررہے ہیں، وقتی ترقی تو ہورہی ہے مگر ماحول اور موسم کی خرابی عالمی زراعت اور صحت کو سب سے زیادہ خراب کرتی نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر ماحولیات کی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی کا سہارا نہ لیا گیا یا پھر نئے راستے تلاش نہیں کیے گئے تو پھر اس کرۂ ارض کا مستقبل سوالیہ نشان بن جائے گا۔
اس وقت دنیا بھر میں ماحولیاتی اور موسمی تبدیلیوں پر کافی تشویش نظر آرہی ہے لیکن ہمارے وطن عزیز پاکستان میں موسم اور ماحول ونوں میں خاصے تناؤ اور تلخی کا رجحان دکھائی دے رہا ہے ، ہمارے ہاں کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور میں ماحول اور موسم کے بارے میں توجہ دیتی نظر نہیں آتی۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان اس وقت بھی آیندہ الیکشن کے بارے میں منصوبے بنارہے ہیں، پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں پر آبادی کا دباؤ نمایاں ہے، پھر ہماری معیشت کا زیادہ انحصار زراعت پر ہے، جب کہ ملک میں کارخانے بھی لگ رہے ہیں، ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین عالمی موسمیاتی تبدیلیوں میں اہم حیثیت کے حامل ہیں، ان کی وجہ سے ماحول اور موسم بدلتے جارہے ہیں، پاکستان کا شمار اگرچہ فضا میں بھاری مقدار میں مہلک گیسز خارج کرنے والے ممالک میں نہیں ہوتا تاہم بدقسمتی سے موسمی تغیرات سے متاثر سرفہرست دس ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے جہاں موسمی تبدیلیوں کے سبب قدرتی آفات اور خشک سالی سمیت پانی کی کم یابی کے خدشات زیادہ ہیں، پاکستان میں پانی کی قلت اور بھارتی آبی جارحیت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیوں نے صورتحال کو مزید سنگین کردیا ہے۔
ذہن نشین رہے کہ پاکستان کلائمیٹ چینج ایکٹ 2016قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور ہوچکا ہے، یہ ایکٹ ایسے اداروں کی تشکیل میں مدد فراہم کرے گا جو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ ان سے مطابقت فراہم کریں گے۔ اس قانون کے بعد تین اہم ادارے پاکستان کلائمیٹ چینج کونسل، پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی اور پاکستان کلائمیٹ چینج فنڈ قائم کیے گئے، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ماضی میں کی گئی لاپرواہی کی روایات کو ترک کرتے ہوئے ماحولیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی اقتصادی حالت، معیشت کے لیے زندگی و موت کا مسئلہ ہیں اور ان کی وجہ سے سب سے بڑا چیلنج زرعی سیکڑ کو درپیش ہے۔
پاکستان میں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو سرسبز اور ماحول سے مطابقت رکھتا ہو، تاکہ پائیدار ترقی اور نمو تک پہنچا جاسکے، موسمیاتی تبدیلیاں جس تیزی سے وقوع پذیر ہورہی ہیں، ان سے نمٹنے کا موقع اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، سو فوری اور موثر اقدامات کیے جانے چاہیے، جن میں زیادہ درجہ حرارت برداشت کرنے کی صلاحیت کی حامل فصلیں، سیلاب سے پیشگی خبردار کرنے کا نظام اور شمال کی جانب دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کرنے کے بڑے اور زیادہ منصوبے شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے خدشات کے پیش نظر پالیسی ساز اداروں اور سیاسی جماعتوں کو بھی گلوبل وارمنگ کو اپنے ایجنڈے میں سرفہرست رکھنا ہوگا۔