راحیل شریف کی نئی ذمے داری

پاکستان نے سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کی باقاعدہ تصدیق کر دی ہے


مزمل سہروردی March 31, 2017
[email protected]

جنر ل (ر)راحیل شریف سعودی عرب جا رہے ہیں۔ پاکستان نے سعودی فوجی اتحاد میں شمولیت کی باقاعدہ تصدیق کر دی ہے۔ سب لوگ اس پر تبصرہ کر رہے ہیں۔ لیکن خبر یہ بھی ہے کہ جنرل (ر)راحیل شریف اکیلے نہیں جا رہے بلکہ انھوں نے سعودی حکومت کو اپنے ساتھ بیس لوگوں کی ایک ٹیم کے نام دیے تھے اور حکومت پاکستان نے اس ساری ٹیم کے این او سی جا ری کر دیے ہیں۔ خبر یہی ہے کہ اس بیس رکنی ٹیم میں ریٹا ئرڈ جنرلز اور دیگر رینک کے افسران شامل ہیں۔یہ وہی لوگ ہیں جو جنرل راحیل شریف کی ٹیم تھے۔

یہ سب لوگ سعودی عرب جا رہے ہیں۔ وہاں 14 اپریل کو ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس طے ہے جس میں اس اتحادی فوج کے خدوخال اہداف اور بجٹ کی تفصیلات طے کی جائیں گی۔ اس روڈ میپ کی منظوری کے بعد جنرل راحیل شریف اور ان کی ٹیم یکم مئی سے باقاعدہ کام شروع کرے گی۔ یمن میں فوج نہ بھیجنے کے اعلان کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں سرد مہری آئی تھی۔ یہ سرد مہری کوئی چھپی ہوئی نہیں تھی۔ یہ بحث اپنی جگہ کہ یہ فوج نہ بھیجنے کا فیصلہ کیوں اور کن وجوہات پر ہوا۔ لیکن یہ امید ضرور کی جا رہی ہے کہ جنرل راحیل شریف کے اتحادی فوج کی سربراہی سنبھالنے سے نہ صرف پاک سعودی عرب تعلقات بہتر ہو جائیں گے بلکہ پاکستان کے سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے بھی تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ کیونکہ یہ تمام عرب ممالک نہ صرف اس فوجی اتحاد کا حصہ ہیں۔ بلکہ ان کے اور سعودی عرب کے مفادات بھی یکساں ہیں۔

اگر قارئین کو یاد ہو تو پاکستان کے یمن فوج نہ بھیجنے کے اعلان کے بعد سعودی عرب کی جانب سے تو بر ملا اتنا رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا تھا لیکن متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر خارجہ نے ایک سخت انٹر ویو دے دیا تھا۔ یمن فوج نہ بھیجنے کے اعلان کے بعد پاکستان اور عرب ممالک کے تعلقات میں سرد مہری سے بھارت نے بھی بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اور بھارتی وزیر اعظم مودی کے عرب ممالک کے دورے اسی سرد مہری کے ثمرات سمیٹنے کی کوشش کی تھی۔یہ کہا جا سکتا ہے کہ عرب ممالک نے بھی پاکستان کو احساس دلوانے کے لیے ہی بھارت کو استعمال کیا۔ اور شاید اب پاکستان کو احساس بھی ہو گیا ہے۔ اور پاکستان کی پالیسی میں واضح تبدیلی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ تبدیلی دیر سے آئی ہے۔ اور بہت وقت ضایع کیا گیا ہے۔

سعودی اتحادی فوج کے بارے میں ایران کے تحفظات کوئی راز نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی حکومت کی جانب سے ایران کو یہ یقین دلوایا گیا ہے کہ ایران سے کوئی براہ راست تنازعہ نہیں ہو گا۔ ایرانی سفیر نے پاک فوج کے سربراہ سے بھی ملاقات کی ہے۔ لیکن ایرانیوں کے تحفظات کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی جانب سے راحیل شریف کو منتخب کرنے کی وجہ ان کے خیالات ہیں۔ عربوں کو راحیل شریف پسند بھی اسی لیے ہیں کہ وہ شروع سے ان کے موقف کے حق میں رہے ہیں۔

راحیل شریف کے لیے نئی ذمے داری کوئی آسان نہیں ہے۔ اگر یہی مان لیا جائے کہ یہ اتحادی فوج صرف دہشتگردی کے خلاف ہے تب بھی اس کے اہداف آسان نہیں ہیں۔ یہ ایک نئی فوج بنا نے کا کام ہے۔ جس کا تعلق مختلف ممالک سے ہو گا۔ سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہو گا۔ راحیل شریف اور ان کی جو ٹیم ان کے ساتھ جا رہی ہے ان کا عربی زبان پر عبور ایک مسئلہ ہو گا۔

ویسے تو پاکستان کہہ رہا ہے کہ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ پاکستان اس اتحادی فوج میں کیا کردار ادا کرے گا۔ لیکن اگر یہ مان لیا جائے کہ ہمارے لوگ لڑنے کا نہیں ٹریننگ کا کام کریں گے۔ تب بھی یہ کوئی آسان کام نہیں ہو گا، اگر لڑنے والی فوج افریقی اور دیگر ممالک سے لے بھی لی جائے۔تب بھی کٹھن مراحل سامنے آئیں گے جنھیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ رائے بھی موجود ہے کہ کیا پاک فوج کے سربراہ کو ریٹائرمنٹ کے بعد اس قسم کی ذمے داری لینی چاہیے کہ نہیں۔ لیکن جنرل سے لے کر میجر تک ریٹائر ہونے والے تمام فوجی ہی ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہ کچھ کرتے ہیں۔ ہمیں ملک کے مختلف اداروں میں ریٹائرڈ فوجی کام کرتے نظرآتے ہیں۔ اس ضمن میں قانون اور آئین میں کوئی ممانعت نہیں۔ جنرل ریٹائرڈ جہانگیر کرامت بھی ان میں شامل ہیں۔

وہ امریکا میں ایک تھنک ٹینک میں ملازمت کرتے رہے۔ اور بعد میں پرویز مشرف نے انھیں امریکا میں پاکستان کا سفیر بھی تعینات کر دیا تھا۔ اسی طرح مرزا اسلم بیگ نے بھی فرینڈز کے نام سے ایک تنظیم بنائی تھی۔ جنرل پاشا بھی بیرون ملک ملازمت کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح ریٹائرڈ جنرل ہمیں ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں بھی سر گرم نظر آتے ہیں۔ تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے ریٹائرڈ جنرلز کو اپنی جماعتوں میں جگہ دی ہوئی ہے۔ جب سیاسی جماعتوں کو ان جنرلز کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے سیاسی کردار پر کوئی اعتراض نہیں اور ان کے لیے دروازے کھلے ہیں تو پھر باقی اعتراض کی کیا گنجائش ہے۔

جنرل راحیل شریف کا کیس اس حد تک مضبوط ہے کہ جب ان سے پہلے کسی کی ریٹائرمنٹ کے بعد کسی نئی ذمے داری پر اعتراض نہیں کیا گیا تو ان پر اعتراض کیوں۔ وہ اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے باقی لوگ ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ راحیل شریف کے اتحا دی فوج کی کمان سنبھالنے میں پاک عرب تعلقات میں بہتری ایک ایسا فائدہ ہے جس کی قدرو قیمت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت صرف سعودی عرب میں بیس لاکھ پاکستانی کام کر رہے ہیں۔ اگر ان کی تعداد میں ہی اضافہ ہو جاتا ہے تو بھی قومی خدمت ہے۔ باقی فوائد اگر مل جائیں تو الگ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں