ہمارے مضبوط کردار

بے تحاشا شعبے ہمارے ملک میں ایسے ہیں جن پر کام کرنے کی شدید ضرورت ہے


فرح ناز March 31, 2017
[email protected]

بے تحاشا شعبے ہمارے ملک میں ایسے ہیں جن پر کام کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ شعبے ان بنیادی شعبوں سے کم اہم نہیں ہے جو ہماری زندگی میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ یوں تو ہمارا اسٹرکچر بے انتہا کمزور ہے، اور بدقسمتی کہ ہر ایک اپنے آپ کو مضبوط تر اور ڈھانچے کو کمزور تر کرتا چلا گیا، حالانکہ بنیادیں مضبوط ہوں تو عمارتیں مضبوط ہی ہوتی ہیں۔ مگر ایسا نہ ہوسکا تمام کے تمام اپنی دکانیں چمکا کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور وہی مسائل اور مزید گمبھیر ہوجاتے ہیں۔ اسمارٹ فون کے ساتھ ساتھ دنیا میں امیر بننے کی دوڑ میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ دولت کی فراوانی سب کو عزیز تر ہوگئی ہے اور بالکل اسمارٹ فون کی طرح سب کو سب کچھ فنگر پرنٹس پر چاہیے۔ آسان اور سہولت سے بھری زندگی کس کو بری لگتی ہے۔ مگر یہ آسان زندگی کروڑوں لوگوں کی زندگیوں سے کھیل کر حاصل کی جائے تو کیا کہنے؟

بنیادی ضروریات کو ہر حال میں تمام کی پہنچ میں بنانا ہوگا اور بنانا چاہیے وہ شہر ہو یا دیہات ، وہ مرد ہو یا عورت، دل اور دماغ کے ساتھ بہترین پلاننگ اور بہترین سہولیات کی فراہمی ہی ہمارے ملک میں چار چاند لگا سکتی ہے۔ رزق کا وعدہ تو رب العزت کا ہے۔ کروڑوں کیا اربوں کا مالک اور والی ہے، ہم سب تو ایک دوسرے کے لیے وسیلے ہیں اور اپنے اپنے حصے کا کام کرکے ہم سب نے چلے ہی جانا ہے۔

جیسے کہ عمران خان اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ ایک شخص پچھلے 20 سال سے لگاتار محنت کیے جا رہا ہے جب کہ اس کی اپنی ذاتی زندگی بھی تکلیف میں آئی، جب کہ اس کی ذاتی خوشیاں بھی ختم ہوئیں اس کے باوجود لگاتار کئی سالوں سے یہ مضبوط شخص بہترین اپوزیشن کا کردار پوری ایمانداری سے نبھا رہا ہے اور بہترین ہیں وہ لوگ بھی جو اس کا ساتھ دے رہے ہیں ہر طرح سے۔ کتنی بھیانک حقیقتیں اور اصل چہرے عمران خان نے کروڑوں لوگوں کے سامنے پیش کردیے، جدوجہد کی ایسی مثال قائم کردی ہے جو آج نہیں تو کل ہماری تاریخ کا حصہ ہوگی۔

انسان بشر ہے، برائیاں اور اچھائیاں پیدائش سے لے کر موت تک رہتی ہیں۔ مگر اعلیٰ وہ جس نے اچھائیوں کے ساتھ ساتھ برائیوں کو بھی تسلیم کرلیا، ہدایت کے راستے اللہ پاک نے تمام انسانوں کے لیے کھولے ہیں، جس نے اللہ سے ہدایت مانگی اللہ نے اسے عطا کی، ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ہر لمحہ اللہ پاک سے اپنے لیے ہدایت مانگیں۔ عمران خان کی یہ اچھائی ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کے منفی پہلوؤں کو بھی تسلیم کیا۔ ایمانداری اور لگن کے ساتھ جس طرح انھوں نے شوکت خانم کینسر اسپتال قائم کیے ہیں وہ یقینا ایک شاندار کارنامہ ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان ایک ناکام سیاستدان ہے وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں اور شاید یہی ان کی آخری خواہش ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم بننے کے لیے ہیرو ہونا ضروری ہوتا ہے؟ کیا اسپتال اور تعلیمی ادارے قائم کرنا ضروری ہوتا ہے؟ کیا اپنی ذاتی زندگی کو ناکام بنانا ضروری ہوتا ہے؟ ہم سب لوگوں کو بھی اپنے دل و دماغ کو ذرا کھول کر چلنا چاہیے۔ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے ملک میں تعلیم و تربیت کا وہ معیار نہیں، ہم ذرا نظر ڈالیں اپنے گزرے پچھلے سالوں پر کئی باب سیاہ نظر آتے ہیں۔ کئی سوال بے جواب نظر آتے ہیں، روشنی کم اور اندھیرا زیادہ نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، ذاتی مفادات کی سیاست اپنے عروج پر عمران خان واحد ایک ایسی مضبوط شخصیت کے طور پر کھڑے ہیں جن میں کم خامیاں اور زیادہ خوبیاں ہیں۔ ایسے بیانات عمران خان کے متضاد بنا دیے جاتے ہیں جن کا پہلو وہ نہیں ہوتا جو دکھایا جاتا ہے۔

مگر ان تمام کے ساتھ عمران خان کی سوچ اور بیانات اور ان کی تقاریر بے انتہا شاندار اور مدبرانہ ہے، آج نہیں تو کل تاریخ ضرور اس کی گواہی دے گی۔ امریکا سے یورپ سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا عمران خان کو اس لیے آتا ہے کہ اس کے اپنے ذاتی مفادات نہیں ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچا کمزور ہے۔ مگر یہ سب وہ چیزیں ہیں جو صحیح ہوسکتی ہیں اور ان پر توجہ کی شدید ضرورت ہے۔ سرکاری اداروں سے لے کر نجی اداروں تک۔ مضبوط بنیادوں کی شدید ضرورت ہے اور اس پر فوراً کام ہونا چاہیے۔ ابھی سے اس پر کام ہوگا تو کم ازکم 10 سال میں اس کے پھل نظر آئیں گے۔

بجائے اس کے کہ ہم سب ایک دوسرے کو برا بھلا ہی کہتے رہیں اور اپنے ذاتی مفادات کو مقدم جانتے رہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سب پاکستان کے لیے کام کریں، جنرل مشرف کا ایک جملہ اسی لیے بہت اہمیت رکھتا ہے کہ انھوں نے کہا کہ ''سب سے پہلے پاکستان'' اس میں نہ کوئی شک ہے اور نہ شبہ، مگر ضرورت ہے عملی طور پر اس کو نبھانے کی، عملی طور پر ہم سب کو اپنے آپ کو بدلنے کی بات کرنی ہوگی۔

ہم سب کو ایک عام آدمی سے ایک خاص آدمی تک، سب کو صرف اور صرف ''سب سے پہلے پاکستان'' کا سوچنا ہوگا، صرف ایک صوبہ یا صرف ایک شہر کی ترقی کافی نہیں، چھوٹے چھوٹے دیہاتوں اور گاؤں کو بہت بہتر کرنا ہوگا خاص طور پر بنیادی سہولتیں اور تعلیم۔ انسانوں کو اللہ پاک نے اشرف المخلوقات بنایا ہے اور ہم انسان ہی ان انسانوں کو جانور بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر خواتین کی عزت و حرمت اور ان کے حقوق کو اور ان کی متعین کردہ آزادی کو ممکن بنانا ہوگا۔ وقت آگے آگے بھاگ رہا ہے۔ اور ہمیں بھی دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی حدود کا تعین کرتے ہوئے چلنا ہوگا اور اس میں مرد اور عورت دونوں کو اپنے اپنے مضبوط کردار نبھانے ہوں گے۔

ملک کی معیشت مضبوط ہو، اندرون ملک پیداوار میں فراوانی ہو، ملاوٹ جیسے موذی مرض پر قابو پایا جائے، عدلیہ کا نظام مضبوط تر ہو، اور سب سے زیادہ ضروری اقربا پروری کا خاتمہ اور چھوٹے اداروں سے لے کر بڑے ادارے تک مضبوط، کرپشن سے پاک، گو یہ مشکل ترین ٹاسک ہیں مگر ناممکن نہیں ہیں۔ کسی نہ کسی کو تو آگے بڑھنا ہوگا، بہت سوں کو قربانیاں دینی ہوں گی آخر یہ ملک ہزاروں قربانیوں کے بعد ہی وجود میں آیا اب تو اس کی بقا اور سلامتی بھی ہم سب کا فریضہ ہے۔ ذاتیات سے باہر ہم نکلیں تو دیکھیں کہ ہم سب کی کتنی اہمیت ہے، اور ہم سب مزید اہم رول ادا کرنے کے قابل ہیں۔ ذاتی پسندیدگی اور ناپسندیدگی کو بنیاد بناکر کردار سازی نہ کی جائے، کیونکہ سب وقتی جمع خرچ ہے، جن لوگوں میں قابلیت ہے اور جو پاکستان کی بنیادیں مضبوط کرسکتے ہیں جو ایماندار ہے، جو دین اور دنیا دونوں کو لے کر چلنا چاہتے ہیں۔

کیا حرج ہے کہ ہم ان کو اپنے ساتھ ملائیں، زندگی ختم ہونے والی شے ہے آج نہیں تو کل اس کا خاتمہ برحق ہے وہ جائیں گے ہمارے اور آپ کے اعمال۔ ملک اور کروڑوں زندگیوں کی ذمے داری تو نصیبوں والوں کو ہی ملتی ہے کہ اللہ پاک آپ کو بھی موقعہ دے کہ ہم اور آپ بھی رسول پاکؐ اور حضرت عمرؓ کے بتائے گئے راستے پر چل نکلیں، یورپ میں حضرت رسول پاکؐ کی حیات طیبہ ایک رول ماڈل ہے۔ حضرت عمرؓ کی خلافت اور دور حکومت ایک مثال ہے تو پھر ہمارے لیے کیوں نہیں؟ ہم جوکہ وارث ہیں اور امتیٔ رسولؐ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔