
گوشت سے نفور تھا، وہاں جڑی بوٹیاں کثرت سے تھیں جن پر گزارا ہونے لگا۔ کئی سال گزر گئے، بندروں کی صحبت اُس کو ایسی بھائی کہ یہ وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ بندروں کی سی اُچھل کود اور حرکات و سکنات کرنے لگا۔ رفتہ رفتہ اُسے بھی یقین ہوگیا کہ وہ بھی ایک بندر ہے۔ کمی ہے تو صرف دُم کی، اُس نے سوچا اِس سے کیا فرق پڑتا ہے اور اپنے بندر ہونے کی دریافت پر بہت خوش ہوا۔ اِسی خوشی میں بھاگا بھاگا دوبارہ گاﺅں پہنچا اور آتے ہی اعلان کردیا کہ وہ بندر ہے اور ناصرف وہ بندر ہے بلکہ سب گاﺅں والے بھی بندر ہیں۔
یہ سُن کر حسبِ توقع گاﺅں کی اکثریت نے اُس کا حقہ پانی بند کردیا اور اُسے دُر فٹے منہ کہا مگر وہ اپنی بات پر اڑا رہا، اپنے اور اُن کے بندر ہونے پر اِصرار کرتا رہا۔ کچھ عرصے بعد اُنہی میں سے کچھ لوگ اُس باندر (بندر) کے ہم خیال ہوگئے۔ ویسے بھی وہ اپنے آپ کو انسان کہلاتے کہلاتے اُکتا چکے تھے۔ انہوں نے اُس باندر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا واقعی تم ٹھیک کہتے ہو۔ اتنا عرصہ تم بندروں میں رہے، اِس لئے ہم سے بہتر جانتے ہوں گے۔ ہوتے ہوتے یہ بات پھیل گئی جس پر گاﺅں کی کابینہ فیصلہ کرنے بیٹھ گئی۔ دونوں طرف سے بھاری اکثریت تھی، دلائل دیئے جانے لگے۔ کچھ لوگوں نے اعتراض اُٹھایا، اگر ہم واقعی بندر ہیں تو ہماری دُم کہاں گئی؟
اِس کا جواب دینا ضروری تھا ورنہ بندر ہونے کی دلیل کمزور پڑجاتی۔ کچھ دنوں بعد باندروں نے اُس کا جواب ڈھونڈ لیا۔ اُس اولین باندر اور اُس کے حواریوں نے ایک دن دلیل پیش کی، چونکہ ہم کافی عرصہ پہلے پیٹھ کے بَل بیٹھنے لگے تھے جس کی وجہ سے وہ گِھس گئی۔ دوسرا یہ کہ ہم نے دُم کا استعمال کم کردیا تھا اور دماغ کا زیادہ، اور فطرت کا اُصول ہے، جس چیز کا استعمال کم کردیا جائے وہ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہے۔ اِس لئے ہماری دُم ختم ہوگئی اور دماغ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے وہ مزید تیز ہوگیا۔ اُس باندر کی یہ بات سب کو بڑی مدلل لگی، وہاں موجود بہت سے لوگوں نے واہ واہ کی اور بلا چوں و چراں اپنے آپ کو باندر اور اُسے اپنا رہبر مان لیا۔
اب سب کو اِس بات پر افسوس ہوا کہ اپنی نالائقی کی وجہ سے ہم نے اتنی اچھی چیز کھودی۔ اگر دُم ہوتی تو زندگی کا لُطف دوبالا ہوجاتا۔ مثلاً اُس کی وجہ سے ہم کپڑوں سے آزاد ہوجاتے، آسانی سے اپنی پیٹھ چھُپا سکتے تھے، درختوں پر مزے سے جُھولتے، چھلانگیں لگاتے، کوئی حملہ آور ہوتا تو دُم دبا کر بھاگ جاتے۔ الغرض ایک دُم سے کئی کام لئے جاسکتے تھے۔ اِن باتوں کے پیشِ نظر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ جو ہوگیا، سو ہوگیا۔ ناسمجھی سے کئے گئے اِس بے پایاں نقصان کا ازالہ تو ممکن نہیں، البتہ اپنی کھوئی ہوئی دُم واپس لانے کی طرف توجہ دی جائے۔
چنانچہ گاﺅں والوں نے مل کر ایک انجمن بنائی، اُس کا نام انجمنِ دُم پسند مصنفین رکھ دیا۔ اِس انجمن کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ اِس بات پر سوچ بچار کرے کہ کھوئی ہوئی دُم کس طرح واپس لائی جاسکتی ہے۔ انجمن دُم پسند مصنفین نے باہم سر جوڑ لئے۔ آخر طریقہ دریافت کیا، چونکہ دُم کا نقصان دماغ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہوا ہے اور فطرت کا یہ اُصول ہے کہ جو چیز جس طرح ختم ہوتی ہے، اُسی قاعدے سے واپس لائی جاسکتی ہے۔ لہذا آئندہ دماغ کا استعمال کم سے کم کیا جائے اور پیٹھ سخت جگہ پر رکھنے کی بجائے ہوٹلوں کی نرم نرم کرسیوں پر رکھی جائے، تاکہ پیدا ہوتی ہوئی دُم کے گھِسنے کا خطرہ نہ رہے اور وہ لمبی سے لمبی ہوتی جائے۔
اب اُن کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ دماغ کا استعمال کم کیسے کیا جائے؟ ضرورت ایجاد کی ماں ہے، ایک دن یہ معمہ بھی حل کرلیا گیا۔ وہ اِس طرح کہ شراب زیادہ سے زیادہ پی جائے اور اُس کے نشے میں بندر ہونے سے انکار کرنے والوں اور اپنے اشرف مخلوق کہلانے والوں کو مسلسل گالیاں دی جائیں۔ تواتر سے خدا کا انکار کیا جائے، اِس پر عمل ہونے لگا، مسلسل شراب پی جانے لگی اور بغیر وقفے کے انسانوں اور اُس کے بنانے والے کو گالیاں دی جانے لگیں۔ یہ عمل کافی کارآمد ثابت ہوا، رفتہ رفتہ دماغ نے واقعی کام چھوڑ دیا۔
جس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے کائنات کو ایک حادثہ قرار دے دیا، مگر حیرت کی بات یہ ہوئی کہ دماغ کے چلے جانے سے دُم، جس کے واپس آنے کی بہت توقع تھی، وہ بھی پیدا نہ ہوئی۔ یہ ایک سانحہِ عظیم تھا جس کی اُنہیں خبر تک نہ ہوئی۔ عرصے بعد جب اُن کو بتایا گیا کہ اُن کا نقصان دوہرا ہوچکا ہے تو اِس بات پر مزید غور کرنے کے لئے انجمن دُم پسند مصنفین کے تمام ارکان دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے، مگر اب مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ سوچ بچار دماغ کے ذریعے سے کرنا تھی اور وہ پاس نہیں تھا۔ یہ بات اُن کو سمجھائی بھی نہیں جاسکتی تھی کہ اِس کے لیے دماغ ہونا ضروری ہے۔ جب اُن سے کہا گیا کہ دماغ کی واپسی اب اُن کے بس کا کام نہیں ہے، اُٹھ کر کوئی اور کام کریں۔
آہ لیکن بناء دماغ یہ باتیں وہ کہاں سُن اور سمجھ سکتے تھے، مکمل احساسِ کمتری میں مبتلا ہوگئے۔ وہ دیکھتے تھے کہ کچھ کے پاس دُم ہے اور کچھ کے پاس دماغ ہے اور خود اُن کے پاس اِن میں سے کچھ بھی نہیں رہا، تو وہ بے دریغ اور متواتر سب کو کوسنے دینے لگے۔ ہوتے ہوتے یہ مسئلہ لا ینحل صورت اختیار کرگیا اور یہ بے دُم کے بندر، انسانوں کے شہر میں ایک وباء کی شکل اختیار کرگئے۔
حضرات! تب سے اب تک ایک عرصہ ہوگیا ہے، انجمن دُم پسند مصنفین کے تمام ارکان سوائے خُدا اور انسانوں کو گالیاں دینے کے اور شراب پینے کے، کچھ نہیں کرتے۔ اِن کے پاس اب نہ دُم ہے، نہ دماغ ہے۔ کسی دوسرے کی نہ بات سُنتے ہیں نہ سمجھتے ہیں، کام کاج کچھ نہیں کرتے، جس کی وجہ سے دیگر اعضاء بھی ناکارہ ہوکر ختم ہوچکے ہیں۔
ہمارا مشورہ ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ ایسا آئے جو اِنہیں دوبارہ جنگلوں میں اِن کی برادری کے پاس چھوڑ آئے، ممکن ہے وہاں ایک دو نسلیں گزارنے کے بعد اُن کی دوبارہ دُم نکل آئے کیونکہ جیسا کہ یہ مانتے ہیں،
''اگر اتنی بڑی کائنات حادثے سے پیدا ہوسکتی ہے تو ایک چھوٹی سی دُم کیوں پیدا نہیں ہوسکتی۔''
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔