پیراگوئے میں مظاہرین نے پارلیمنٹ کو آگ لگادی

مشتعل مظاہرین نے سینیٹ کی عمارت کی کھڑکیاں توڑ دیں اور باڑ اکھاڑ دیئے


ویب ڈیسک April 01, 2017
پیراگوئے کے صدر کی جانب سے دوسری مرتبہ صدارتی الیکشن لڑنے کے اعلان پر مظاہرے شروع ہوئے۔ فوٹو: فائل

پیراگوئے میں صدر ہوریکٹیو کارٹس کی جانب سے دوبارہ انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کے بعد پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے اور مشتعل ہجوم نے پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگادی۔

یوروگوئے کے آئین کے مطابق ملک کا صدر دوسری مدت کے لئے صدارتی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا لیکن ملک کے موجود صدر ہوریکٹیو کارٹس نے اس قانون میں نرمی کرتے ہوئے دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کا بل پارلیمنٹ سے منظور کروایا تو ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پیراگوئے کے صدر کی جانب سے صدارتی انتخابات میں دوبارہ حصہ لینے کے اعلان کے بعد ملک بھر میں پر تشدد مظاہرے پھوٹ پڑے اور مشتعل مظاہرین نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی عمارت کو نذر آتش کردیا اور اس کی کھڑکیاں اور باڑ توڑ دیئے۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے بل کی حمایت کرنے والے اراکین پارلیمنٹ کے آفسز میں بھی توڑ پھوڑ کی۔

دوسری جانب پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں برسائیں جس سے متعدد افراد اور سیاستدان زخمی بھی ہوئے۔

پیراگوئے کے صدر نے اپنی ٹویٹ میں عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کے ذریعے جمہوریت کو فتح نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جا سکتا ہے، آپ لوگ یقین رکھیں کہ موجودہ حکومت صورت حال کو معمول پر لانے کے لئے بھرپور کوشش جاری رکھے گی۔

اپوزیشن جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سینیٹر کا کہنا ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا ہے لیکن ہم اس کا مقابلہ کریں گے اور عوام کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر اس فیصلے کے خلاف مظاہرے کریں۔

واضح رہے کہ پیرا گوئے میں جنرل الفریڈو اسٹرایسنر نے 1954 میں مارشل لاء لگایا تھا اور پھر 1989 تک اقتدار پر قابض رہے۔ جنرل الفریڈو کے بعد نئی حکومت نے 1992 میں ملک کا آئین بنایا لیکن اس وقت سے ملک میں سیاسی عدم استحکام موجود ہے۔ موجودہ صدر کی مدت 2018 میں ختم ہو رہی ہے لیکن اگر پارلیمنٹ سے دوسری صدارتی مدت میں انتخاب کا بل منظور ہو جاتا ہے سابق صدر فرنینڈو لوگو جنہیں 2012 میں زمینوں پر قبضے کے الزام میں صدارت سے ہٹایا گیا تھا بھی صدارتی مہم میں حصہ لے سکیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔