پارا چنار میں کار بم دھماکا
کرم ایجنسی میں پاراچنار کی داخلی صورتحال انتہائی حساس اور دیگر علاقوں سے بے حد مختلف ہے
کرم ایجنسی کے ہیڈ کوارٹر پارا چنار میں کار بم دھماکا کے نتیجہ میں 25 افراد شہید اور95 سے زیادہ زخمی ہوگئے، شہداء میں ایک خاتون اور 2 بچے بھی شامل ہیں۔
دہشتگردی کے اس واقعہ کے پس پردہ سرگرم قوتوں کے فرقہ وارانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، ان قوتوں کا ظالمانہ ہدف معصوم پاکستانی عوام ہیں جن کے خون ناحق سے وہ دنیا کو اپنے سفاکانی ایجنڈہ سے مرعوب کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں، ان دہشت گردوں نے پاراچنار کو گزشتہ کئی برسوں سے نشانہ پر رکھا ہوا ہے جب کہ خونریزی میں مبتلا مختلف گروہ ملکی سالمیت، داخلی امن اور مذہبی و فرقہ وارانہ ہم آہنگی کوتباہ کرنے کی مذموم کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
اگرچہ دہشتگردوں کے نیٹ ورک پوری قوت سے تہس نہس ہوچکے ہیں ، ان کی باقیات سر اٹھانے کے قابل نہیں تاہم بعض کالعدم تنظیموں اور دیگر دہشتگرد اسپلنٹر گروپس کی باہمی چپقلش اور بالادستی کی خواہش ہے کہ بیگناہ شہریوں کا خون بہایا جائے ، ان کی اس بربریت پر مبنی برین واشڈ ذہنیت ، عسکری حکمت عملی اور غیر محسوس سرگرمیوں کا خاتمہ کرنے کیلیے ارباب اختیاراور سکیورٹی اداروں کو مزید ہائی الرٹ رہنا چاہیے، دشمن گھات لگائے بیٹھا ہے، وہ پردوں میں آج بھی چھپا ہے، اس کے سہولت کار ہوںگے، ان تک رسائی کیلیے مستعد فورسز کو اور بھی چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
کرم ایجنسی میں پاراچنار کی داخلی صورتحال انتہائی حساس اور دیگر علاقوں سے بے حد مختلف ہے، اسی لیے دہشتگرد اسے نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور کوئی ہدف نہیں ملتا تو پاراچنار کوزدپر لیتے ہیں، اس دہشت گردی کی ذمے داری بھی ایک گروپ نے قبول کی ہے ، بہر حال کوئی بھی جارح قوت ہو اس نے ملکی سلامتی ، عوام کی جان ومال اور مذہبی مقامات کو ٹارگٹ کرنے کی شرم ناک واردات کی ہے جسے سکیورٹی ادارے ایک چیلنج سمجھ کر کیفر کردار تک پہنچائیں، ادھر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے زخمیوں کی عیادت کی اور پارا چنار میں آرمی پبلک اسکول کے قیام کا اعلان کیا۔
دہشتگردی کے ماہرین فرقہ واریت کے جنون کو معاشرتی سطح پر ایک خاص گروہ کی فکری اور عملی جارحیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر نے ایک ٹی وی ٹاک میں کہا ہے کہ پاکستان کی تزویراتی پوزیشن ابھی تک زحمت بنی ہوئی ہے،جب کہ فاٹا اصلاحات دہشتگردی کے خلاف جنگ کا حصہ ہیں، ہمیں دہشتگردوں کی کمر توڑنے کے لیے نعروں کی ضرورت نہیں کیونکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری اگلی نسل نے بھی لڑنی ہے۔
قومی عزم سے معمور یہ نکتہ ہماری سکیورٹی فورسز کیلیے قابل غور ہے، دہشتگرد تنظیموں اور فرقہ پرست جماعتوں نے علاقے میں تشدد کی دلدوز وارداتوں کی حرکیات خود سے طے کی ہیں، وہ کچھ دن چپ رہ کر حکومت کو اپنی پسپائی کا دھوکہ دیتی ہیں پھر اچانک بزدلانہ کارروائی کرتی ہیں، یہ بھی ''ہٹ اینڈ رن '' جیسی جھڑپیں ہیں جن کا خاتمہ ناگزیر ہے جب کہ دہشتگرد اس کوشش میں ہیں کہ اپنے غیر ملکی آقاؤں کو باور کرا دیں کہ پاکستان میں امن وامان کی صورتحال بے قابو ہے اور ریاست مخالف عناصر سے جنگ میں پاکستان کی حکمت عملی ان کے خلاف غیر موثر رہی ہے۔
یہ عناصر ہر صورت مذہبی اور فرقہ وارانہ آگ بھڑکانا چاہتے ہیں، عوام کو ان سے ہوشیار رہنا چاہیے۔ پارہ چنار سے رکن قومی اسمبلی ساجد طوری نے ایک ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ پاراچنار میں مکمل سیکیورٹی کا کوئی بندوبست نہیں ہے، ادھر طوری بنگش قبائل کی جانب سے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا۔
لہٰذا اب بھی وقت ہے کہ دہشتگردوں کی باقیات کا قلع قمع کرنے کیلیے آپریشن ردالفساد ، سکیورٹی میکنزم،خارجہ پالیسی اور نیشنل ایکشن پلان پر مجموعی طور پر عملدرآمد کیا جائے، عسکریت پسندوں اور پاکستان کی سلامتی کے مخالفین سے کسی قسم کی رعایت نہ برتی جائے، فرقہ واریت کا زہر معاشرے کے لیے سم قاتل ہے اور جن ہاتھوں نے اس کا پرچم تھام رکھا ہے وہ قلم ہونے چاہئیں۔حالیہ دہشت گردی نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ فاٹا میں اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شمال مغربی سرحدوں کو محفوظ بنانا بھی ضروری ہے۔
پاکستان میں جہاں اندرونی طور پر دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں، وہاں غیرملکی قوتیں بھی ہماری شمال مغربی سرحد کی نرمی سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔پاکستان کے پالیسی سازوں کو کثیر الجہتی حکمت عملی پر عمل کرنا ہے۔افغانستان اور ایران سے ملنے والی سرحد کو بھی محفوظ بنانا ہے اور فاٹا کی تمام ایجنسیوں میں آئین اور قانون کی عملداری کو یقینی بنانا ہے۔پاکستان میں بعض گروہ قومیت ، لسانیت اور صوبائیت کے نام پر نفرت کا کاروبار کررہے اور گروہ بندی اور مسلکی نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔
ایسے گروہوں کی بیخ کنی کرنے کے لیے جہاں سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سماج کو جدیدیت کی راہ پر ڈالنے کے قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر کے خاتمہ کے لیے اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔