بے باک اور بہادر جعفر احمد
گہری نیند سے آنکھ کھلی تو میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی
گہری نیند سے آنکھ کھلی تو میں گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ زندگی میں کبھی بزکشی کا کھیل نہیں دیکھا تھا لیکن خواب میں ایک وسیع میدان تھا اور جنگ آشنا گھوڑوں پر بیٹھے ہوئے خونخوار چہروں والے لوگ، سر سے محروم ایک بکری کے بھس بھرے وجود کو لمبی لمبی چھڑیوں سے مارتے ہوئے اپنے قبضے میں لینے کی کوشش کررہے تھے۔
بزکشی کے بارے میں پڑھا تھا اور سنا بھی تھا لیکن خواب میں سہی پہلی بار اس کھیل کا دیدار ہوا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میں جعفر احمد کی کتاب پڑھتے ہوئے سوگئی تھی، جس میں انھوں نے جمہوریت کے ساتھ برتے جانے والے سلوک کے خلاف بار بار احتجاج کیا تھا اور یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہمارے لبرل افراد نے جمہوریت کا دفاع کیوں نہیں کیا۔
بزکشی ایک قبائلی کھیل ہے جو 10 سے 15 صدی عیسوی کے درمیان ترک ۔ منگول قبائل کے ساتھ افغانستان، قازقستان،کرغزستان اور تاجکستان میں آیا اور ان علاقوں میں بہت مقبول رہا ہے۔ یہ کھیل پشتون، ازبک، یوغیر، ہزارہ، منگول اور سنکیانگ کے چینیوں میں کھیلا جاتا ہے۔افغانیوں کو یہ اس قدر محبوب رہا کہ جب شاہ امان اللہ اور شاہ ظاہر شاہ کا خاندان ترک وطن پر مجبور ہوا تو انھوں نے امریکا میں بھی اس کھیل کا وقتاً فوقتاً اہتمام کیا۔ ادھر طالبان تھے جنہوں نے افغانستان کے جن علاقوں پر قبضہ کیا وہاں بہ جبر بزکشی ممنوع کردی تھی۔ ان کے خیال میں یہ غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کھیل ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی تشکیل جمہوریت کے ذریعے ہوئی۔ یہاں سول اور ملٹری بیورو کریسی نے اور خود غرض اور دنیا کی طمع میں گرفتار سیاستدانوں نے جمہوریت کے ساتھ وہی سلوک کیا جو بزکشی کے سفاکانہ کھیل میں بھُس بھری ہوئی بکری کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے تعلیم کے زمانے سے ہی اپنا رشتہ ترقی پسند سیاست اور جمہوریت سے استوار رکھا۔ دو دہائیوں کے درمیان ڈاکٹر جعفر احمد ہمارے اہم اور قابل ذکر دانشور کے طور پر ابھرے ہیں۔ خاندانی اعتبار سے مذہبی سوچ اور سیاست سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ طالب علمی کے زمانے سے ہی ترقی پسند خیالات سے وابستہ رہے۔ سید سبط حسن سے ان کی قربت نے ان کے خیالات اور شخصیت کو صیقل کیا اور آج زندگی کی 6 دہائیاں گذارنے کے بعد بھی ان کے سیاسی نظریات اور ان کی استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ان کی تازہ کتاب Pakistan_Historical Legacies, Contemporary Issues ان کے 39 مضامین کا مجموعہ ہے۔
یہ مضامین پاکستان اور دوسرے ملکوں کے موقر انگریزی اخبارات میں شائع ہوتے رہے اور پڑھنے والوں سے داد وصول کرتے رہے۔ انھوں نے ان مضامین کو تاریخ، جمہوریت وفاقیت اور صوبائی خود مختاری کے علاوہ عصر حاضر میں پاکستان جیسے عنوانات کے تحت مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کا ابتدائیہ ہمارے نامور دانشور اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن آئی اے رحمن نے لکھا ہے۔
ڈاکٹر جعفر احمد نے کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز کیا تو کس نے یہ سوچا تھا کہ ہمارے شہر کا ایک تابندہ طالب علم ایم اے کرنے اورگولڈ میڈل لینے کے بعد کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرے گا اور لکھتا چلا جائے گا۔ یہ تو خود ڈاکٹر جعفر احمد نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ تعلیمی میدان میں منزلیں مارتے ہوئے، ملکوں ملکوں جمہوریت ، انسانی حقوق اور عصری تاریخ پر لیکچر دیتے ہوئے وہ آگے ہی بڑھتے جائیں گے۔ انھیں 'امن کشتی 'میں سفر کرنے کا موقع ملے گا اور وہ سنگاپور سے سری لنکا تک مختلف بندرگاہوں پر اتر کر ان شہروں میں علم کے موتی بکھیریں گے۔
یہ وہ 'امن کشتی' ہے جس کے بارے میں ہمارے یہاں کم لوگوں کو معلوم ہے کہ چند جاپانی طلبہ نے 1983ء میں امن، انسانی حقوق، ماحولیاتی تحفظ اور عوام کے لیے پائیدار ترقی کی خاطر یہ مسافر جہاز سمندر میں اتارا تھا۔ 'امن کشتی' کہنے کو کشتی ہے لیکن یہ بڑے اور بھاری بھرکم جہاز ہوتے ہیں اور ہر سفر کے لیے ایک نیا جہاز چارٹر کیا جاتا ہے، اس میں 'ٹوپاز'، 'مونالیزا' اور 'اوشین ڈریم' نام کے جہاز شامل ہیں۔
جعفر کی حالیہ کتاب کے مضامین کا تانا بانا ہماری نو آبادیاتی تاریخ، پاکستان میں جمہوریت، سیاست اور وفاقیت کے الجھے سلجھے ہوئے لچھوں سے ترتیب پایا ہے۔ پاکستان جسے جمہوریت کے نام پر تعمیر کرنے کی بات کی گئی تھی، یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ وہ ابتدا سے ایک بند سماج کی صورت اختیار کرگیا۔ وہ عناصر جو پاکستان کے قیام کے مخالف تھے، وہ فوراً پاکستان آ پہنچے۔ ان کا مقصد پاکستان کو ایک کٹر مذہبی ریاست میں تبدیل کرنا تھا، جہاں نام جمہوریت کا لیا جائے اور حکومت انتہا پسند مذہبی قوتوں اور فوجی آمریت کی ہو۔ پاکستان عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے وجود میں آیا تھا لیکن یہاں روزِ اول سے عوامی حقوق سلب کیے گئے۔
مشرقی پاکستان میں بنگلہ زبان کے حقوق غصب ہوئے، ان کی افرادی اکثریت کو آئینی طور پر کم کیا گیا۔ یہ ظلم و ناانصافی کا وہ بیج تھا جو تناور پیڑ بنا اور آخر کار پاکستان کے دولخت ہونے پر منتج ہوا۔ ہمارے یہاں جمہوریت آج بھی کس قدر کمزور اور کٹر پن کتنا توانا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ چند دنوں پہلے ہمارے وزیراعظم کی ہولی کی تقریب میں شرکت اور ان کی تقریر پر شور رو غوغا ہے۔ کھلم کھلا انھیں مشرک اور کافر قرار دیا جارہا ہے اور انھیں قتل کرنے کے فتوے دیئے گئے ہیں۔ سندھ یونیورسٹی، جام شورو میں اُن طلبہ سے تحریری معافی طلب کی گئی ہے جنہوں نے یونیورسٹی میں ہولی منائی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی میں جس طرح ایک ثقافتی تقریب پر حملہ ہوا، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔
ایک ایسے حبس زدہ ماحول میں ڈاکٹر جعفر جمہوریت پر اصرار کرتے ہیں۔ اس کے حق میں مضامین لکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ہماری سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے یک دل ہو کر جمہوریت کی حفاظت نہیں کی، اگر وفاقیت کو اور صوبائی خود مختاری کو نقصان پہنچا تو ہم وہ جنگ ہار جائیں گے جس کا تعلق ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل سے ہے۔ اس کتاب میں مذہبی انتہا پسندی کو چیلنج کیا گیا ہے اور یہ بات کھل کرکہی گئی ہے کہ ہماری نجات رواداری اور وسیع المشربی میں ہے جو دراصل سکیولرازم کا دوسرا نام ہے۔
ڈاکٹر جعفر کی یہ کتاب سادہ اور سہل انداز میں ہماری نئی نسل کو تحریک پاکستان کا تاریخی تناظر بتاتی ہے، پھر وہ جمہوریت، وفاقیت اور صوبائی خود مختاری کے معاملات پر روشنی ڈالتے ہیں اور ملٹری سائیکی پر لکھتے ہیں۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی نے جس طرح جڑ پکڑی اور ہماری روادار اور وسیع البنیاد ثقافت اور تہذیب کو پارہ پارہ کیا، اس پر کھل کر بات کرتے ہیں۔ بہ اصرار یہ کہتے ہیں کہ صرف جمہوریت ہمیں اس دلدل سے نکال سکتی ہے جس میں ہم پھنس اور دھنس چکے ہیں۔
وہ کسی تذبذب کے بغیر یہ لکھتے ہیں کہ 1956ء، 1962ء، اور 1973ء کے تین آئین ہمارے سامنے ہیں اور ان تینوں میں مذہب کا دائرہ اثر اور اختیار بڑھتا گیا۔ ہم آج بھی اس انتظار میں ہیں جب 1973ء کا آئین اپنی روح اوراپنے بیان کے ساتھ ایک بار پھر بحال ہوگا۔ وہ لوگ جو 1973ء کے آئین کی اصل روح سے واقف ہیں اور جنھیں یاد ہے کہ جنرل (ر) ضیا الحق نے اسے بارہ صفحے کا چیتھڑا کہا تھا، اور پھر اسی آئین میں وہ کتربیونت کی تھی کہ وہ اپنی اصل روح سے محروم ہوگیا، وہ آج بھی جمہوریت کو پاکستان میں رائج دیکھنے کی خواہش کرتے ہیں اور 1973ء کے آئین کی بحالی کا خواب دیکھتے ہیں۔
ان کے یہ مضامین خاص مواقعے پر اخباروں کے لیے لکھے گئے، انھیں لکھتے ہوئے ان کی محدودات تھیں لیکن ایک جعفر وہ بھی ہیں جو غیر ملکی اخباروں اور ملک میں ہونے والے سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں۔ ایسی محفلوں میں وہ کھل کر ان موضوعات پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہیں جن پر قلم اٹھانا ہمارے یہاں خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت ان کی ایسی ہی ایک تحریر یاد آرہی ہے جو 2003 ء میں لکھی گئی تھی اور میری کتاب ''ضمیر کا نوحہ'' کا ابتدائیہ تھی۔ اپنی اس تحریر میں انھوں نے لکھا:
''پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی کی اپنی ایک دنیا ہے۔ ایک جانب اکثر و بیشتر مذہبی تنظیمیں غیر مسلموں کی طرف مستقل عناد کے رویے کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ دوسری طرف فرقہ پرستی کا دور دورہ ہے اور ایک فرقے کے انتہا پسند دوسرے فرقے کو کافر گردانتے ہیں اور ان کو تہ تیغ کرنے کو اپنے لیے وسیلۂ نجات تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ مسجدوں اور امام بارگاہوں پر حملے ہوتے ہیں، مخالف فرقے کے سرکردہ افراد کی 'ٹارگٹ کلنگ' ہوتی ہے اور جنازوں تک پر فائرنگ کی جاتی ہے۔''
ڈاکٹر جعفر کی یہ تحریریں ان کو اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتی ہیں۔ ایسی تحریریں، سر ہتھیلی پر رکھ کر لکھی جاتی ہیں۔ اپنی ان تحریروں سے وہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں، جہاں منتخب حکومت کے باوجود اقتدارکے سرچشموں پر قابض عناصر ہماری جمہوریت کے ساتھ بزکشی کا کھیل کھیلتے ہیں۔ پاکستان جہاں دولاشاہ کے چوہوں کی فوج ظفر موج دوڑتی پھرتی ہے وہاں جعفر ایسے بے باک اور بہادر لکھنے والے کی موجودگی ہمارے لیے تسکین کا سبب ہے۔