ایک دیگچہ دال کا
صبح نماز کے وقت وہ اپنا ناشتہ تیار کرتے تھے اور یوں سبھی مل جل کر رات کی بھوک کا مقابلہ کر لیتے
PESHAWAR:
لکھنا لکھانا میرا پیشہ ہے، یہی میری روٹی روزی کا ذریعہ ہے اور اس میں خوبی یا کوتاہی براہ راست میری معاش پر اثرانداز ہوتی ہے۔ مدرسہ کی دنیا میں میرے ایک محترم استاد نے جب دیکھا کہ میری زبان میں لکنت ہے تو اس نے نہ جانے کس کیفیت میں یہ فرمایا کہ قدرت اس کی یہ کمی کسی اور صورت میں پوری کر دے گی۔ ان کا اشارہ غالباً میری تحریر کی صلاحیتوں کی طرف تھا۔
کاش کہ وہ زبان کی لکنت کی کمی پوری کرنے کی جگہ فراخیٔ رزق کی دعا کرتے تو میری قلم کی اس محتاجی میں کچھ کمی ہو جاتی اور مجھے رزق کے سامان میں فراخی مل جاتی لیکن میں کچھ بتا نہیں سکتا کہ میرے یہ استاد کس قدر پرہیزگار تھے اور ان کی نیکی کا جلوہ ان کے مبارک چہرے سے کس قدر دن رات عیاں رہتا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنے گاؤں میں دینی علوم کی تعلیم وتعلم میں گزار دی اور ان کے درس کا شہرہ اتنی دور تک پھیل گیا کہ ان کے درس میں دوردراز کے اضلاع کے طلبہ حاضر ہونے لگے۔ان کی مسجد کے قریب ایک حجرہ تھا جس میں بیٹھ کر وہ درس دیا کرتے تھے اور رات کو ان کے طلبہ اسی کمرے کے کونے کھدروں میں سو جاتے تھے۔
صبح نماز کے وقت وہ اپنا ناشتہ تیار کرتے تھے اور یوں سبھی مل جل کر رات کی بھوک کا مقابلہ کر لیتے۔ اس درس کے واحد استاد ذرا دیر سے آتے کہ ان کے شاگرد اطمینان کے ساتھ ناشتے سے فارغ ہو جائیں۔ اس مسجد کے ایک کمرے میں سبھی مل جل کر ناشتہ کرتے اور وہیں دیواروں کے ساتھ رکھی ہوئی اپنے درس کی کتابیں اٹھا لیتے۔ نشان زدہ صفحوں سے اپنی اپنی کتابیں کھول لیتے اور دینی علوم کی کسی کتاب سے اپنا درس شروع کر دیتے۔ یہ ان کے استادوں کی برکت تھی یا طلبہ کی دینی علوم سے رغبت کا کرشمہ تھا کہ اس بوسیدہ حجرے سے ایسے ذہن تیار ہو کر باہر نکلے کہ انھوں نے اپنے اپنے عہد میں علم وفضل کی ایک دنیا آباد کر لی۔
ان کے مدرسے کے استاد جو ایک معمولی سی بارانی زمین سے دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے تھے، اپنے مدرسے کے طلبہ کے لیے ہر روز ایک دیگچہ دال کا بھجوا دیتے اور قریب کے تنور سے چند روٹیاں بھی، یہ طلبہ کی خوراک تھی جو غریب گھرانوں سے دینی علوم کی تعلیم کے لیے اس مشہور مدرسے کا رخ کرتے تھے۔ اس درسگاہ کے استاد حضرت مولانا خدا بخش ان کا استقبال کرتے اور ان کے لیے دال روٹی کا بندوبست کرتے۔
یاد پڑتا ہے کہ اس زمانے میں مجلس احرار کی بڑی شہرت تھی اور اس کے مشہور ومعروف مقرر دور دور تک اس دیہاتی مدرسے کے دینی علوم کی تدریس کا ذکر کیا کرتے تھے جس کے نتیجے میں دور کے اضلاع کے طلبہ بھی یہاں پہنچ جاتے اور دینی علوم کی تحصیل کرتے اور پھر نہ جانے کہاں کہاں جا کر ان علوم کو پھیلاتے۔
یہ غیرسرکاری مدرسے تھے جن کی کتابیں بھی مفت میں ملتی تھیں کہ سابقہ طلبہ فارغ ہو کر اپنی کتابیں اپنے آنے والے ساتھیوں کے لیے چھوڑ جاتے اور خود دور چلے جاتے اپنے اپنے گھروں کو جہاں وہ اس گاؤں سے حاصل کی گئی تعلیم کو عام کرتے اور یوں دینی علوم کی تدریس و تعلیم کا یہ سلسلہ جاری رہتا ورنہ اسکول اور کالج بھی موجود تھے جہاں کی تعلیم ذریعہ روزگار بنتی تھی اور رائج الوقت تھی جب کہ دینی مدرسوں کی تعلیم کا کوئی دنیاوی فائدہ نہیں تھا لیکن خدا نے روزی کا وعدہ کر کے ان دینی مدرسوں کو بھی آباد کر دیا تھا جن کے حجروں اور صحنوں میں طلبہ کا ہجوم رہتا تھا اور وہ سب ایک مقصد کے تحت دینی علوم کی تحصیل میں مصروف رہتے تھے جن کی تعلیم کسی مسجد کی امامت اور کسی ایسے ہی مدرسے کی استادی تک محدود رہتی تھی جس کا نقد معاوضہ شاید ہی ملتا تھا اور ملتا تھا تو قسطوں میں کبھی زیادہ کبھی کم لیکن خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا تھا۔
یہ معاوضہ نہیں تبرک سمجھا جاتا تھا اور زندگی بھر اس پر فخر کیا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانے تھے جب تعلیم مفت ہوتی تھی اور طلبہ کی اپنی اپنی ہمت تھی کہ وہ اس دینی تعلیم کو بھی ذریعہ روزگار بنا لیتے۔ اس کے کئی طریقے تھے جو اب متروک ہو چکے ہیں۔ مکتب مدرسہ اب وہ نہیں رہے لیکن ان کے طلبہ اب بھی موجود ہیں اور علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
میں یہ جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں تب صرف سرکاری اسکول اور مدرسے موجود ہوا کرتے تھے جہاں کی تعلیم سے فارغ ہونے والوں کو نوکری بھی مل سکتی تھی جب کہ دوسری طرف دینی تعلیم سے نوکری وغیرہ نہیں ملتی تھی، زیادہ سے زیادہ مسجد کی نوکری مل جاتی تھی یا کسی درس وتدریس والے مدرسے میں استاد کی ملازمت۔ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ لوگ دینی تعلیم کو پسند کرتے تھے اور دینی علوم کے مدرسے والے بھوکوں نہیں مرتے تھے۔ عام مسلمان اپنا فرض سمجھتے تھے کہ وہ دینی مدرسوں کی باقاعدہ خدمت کریں اور اس کا اجر حاصل کریں۔
اس طریقہ تعلیم کا ایک نتیجہ یہ نکلا تھا کہ معاشرے میں نیکی پھیل رہی تھی۔ دینی مدرسوں کے فارغ التحصیل دینی تعلیم کی ترویج وغیرہ کو ایک عبادت سمجھتے تھے، ایک نوکری نہیں۔ نوکریاں تو اور بھی بہت تھیں جن کی تنخواہ تھی مگر کوئی اجر نہیں تھا۔ اجر خدا کے پاس تھا بس کچھ اس تنخواہ کو اور کچھ لوگ اس اجر کو بہت کچھ سمجھتے تھے جس کی قسمت میں جو بھی تھا وہ اسے مل رہا تھا۔ کچھ لوگ تنخواہ پا رہے تھے اور کچھ لوگ یہ تنخواہ کسی اور کھاتے میں جمع کرا دیتے تھے۔ بس دال کا ایک دیگچہ جس کی برکت پھیل رہی تھی۔
لکھنا لکھانا میرا پیشہ ہے، یہی میری روٹی روزی کا ذریعہ ہے اور اس میں خوبی یا کوتاہی براہ راست میری معاش پر اثرانداز ہوتی ہے۔ مدرسہ کی دنیا میں میرے ایک محترم استاد نے جب دیکھا کہ میری زبان میں لکنت ہے تو اس نے نہ جانے کس کیفیت میں یہ فرمایا کہ قدرت اس کی یہ کمی کسی اور صورت میں پوری کر دے گی۔ ان کا اشارہ غالباً میری تحریر کی صلاحیتوں کی طرف تھا۔
کاش کہ وہ زبان کی لکنت کی کمی پوری کرنے کی جگہ فراخیٔ رزق کی دعا کرتے تو میری قلم کی اس محتاجی میں کچھ کمی ہو جاتی اور مجھے رزق کے سامان میں فراخی مل جاتی لیکن میں کچھ بتا نہیں سکتا کہ میرے یہ استاد کس قدر پرہیزگار تھے اور ان کی نیکی کا جلوہ ان کے مبارک چہرے سے کس قدر دن رات عیاں رہتا تھا۔ انھوں نے اپنی زندگی اپنے گاؤں میں دینی علوم کی تعلیم وتعلم میں گزار دی اور ان کے درس کا شہرہ اتنی دور تک پھیل گیا کہ ان کے درس میں دوردراز کے اضلاع کے طلبہ حاضر ہونے لگے۔ان کی مسجد کے قریب ایک حجرہ تھا جس میں بیٹھ کر وہ درس دیا کرتے تھے اور رات کو ان کے طلبہ اسی کمرے کے کونے کھدروں میں سو جاتے تھے۔
صبح نماز کے وقت وہ اپنا ناشتہ تیار کرتے تھے اور یوں سبھی مل جل کر رات کی بھوک کا مقابلہ کر لیتے۔ اس درس کے واحد استاد ذرا دیر سے آتے کہ ان کے شاگرد اطمینان کے ساتھ ناشتے سے فارغ ہو جائیں۔ اس مسجد کے ایک کمرے میں سبھی مل جل کر ناشتہ کرتے اور وہیں دیواروں کے ساتھ رکھی ہوئی اپنے درس کی کتابیں اٹھا لیتے۔ نشان زدہ صفحوں سے اپنی اپنی کتابیں کھول لیتے اور دینی علوم کی کسی کتاب سے اپنا درس شروع کر دیتے۔ یہ ان کے استادوں کی برکت تھی یا طلبہ کی دینی علوم سے رغبت کا کرشمہ تھا کہ اس بوسیدہ حجرے سے ایسے ذہن تیار ہو کر باہر نکلے کہ انھوں نے اپنے اپنے عہد میں علم وفضل کی ایک دنیا آباد کر لی۔
ان کے مدرسے کے استاد جو ایک معمولی سی بارانی زمین سے دو وقت کی روٹی بمشکل حاصل کر پاتے تھے، اپنے مدرسے کے طلبہ کے لیے ہر روز ایک دیگچہ دال کا بھجوا دیتے اور قریب کے تنور سے چند روٹیاں بھی، یہ طلبہ کی خوراک تھی جو غریب گھرانوں سے دینی علوم کی تعلیم کے لیے اس مشہور مدرسے کا رخ کرتے تھے۔ اس درسگاہ کے استاد حضرت مولانا خدا بخش ان کا استقبال کرتے اور ان کے لیے دال روٹی کا بندوبست کرتے۔
یاد پڑتا ہے کہ اس زمانے میں مجلس احرار کی بڑی شہرت تھی اور اس کے مشہور ومعروف مقرر دور دور تک اس دیہاتی مدرسے کے دینی علوم کی تدریس کا ذکر کیا کرتے تھے جس کے نتیجے میں دور کے اضلاع کے طلبہ بھی یہاں پہنچ جاتے اور دینی علوم کی تحصیل کرتے اور پھر نہ جانے کہاں کہاں جا کر ان علوم کو پھیلاتے۔
یہ غیرسرکاری مدرسے تھے جن کی کتابیں بھی مفت میں ملتی تھیں کہ سابقہ طلبہ فارغ ہو کر اپنی کتابیں اپنے آنے والے ساتھیوں کے لیے چھوڑ جاتے اور خود دور چلے جاتے اپنے اپنے گھروں کو جہاں وہ اس گاؤں سے حاصل کی گئی تعلیم کو عام کرتے اور یوں دینی علوم کی تدریس و تعلیم کا یہ سلسلہ جاری رہتا ورنہ اسکول اور کالج بھی موجود تھے جہاں کی تعلیم ذریعہ روزگار بنتی تھی اور رائج الوقت تھی جب کہ دینی مدرسوں کی تعلیم کا کوئی دنیاوی فائدہ نہیں تھا لیکن خدا نے روزی کا وعدہ کر کے ان دینی مدرسوں کو بھی آباد کر دیا تھا جن کے حجروں اور صحنوں میں طلبہ کا ہجوم رہتا تھا اور وہ سب ایک مقصد کے تحت دینی علوم کی تحصیل میں مصروف رہتے تھے جن کی تعلیم کسی مسجد کی امامت اور کسی ایسے ہی مدرسے کی استادی تک محدود رہتی تھی جس کا نقد معاوضہ شاید ہی ملتا تھا اور ملتا تھا تو قسطوں میں کبھی زیادہ کبھی کم لیکن خندہ پیشانی سے قبول کیا جاتا تھا۔
یہ معاوضہ نہیں تبرک سمجھا جاتا تھا اور زندگی بھر اس پر فخر کیا جاتا تھا۔ یہ وہ زمانے تھے جب تعلیم مفت ہوتی تھی اور طلبہ کی اپنی اپنی ہمت تھی کہ وہ اس دینی تعلیم کو بھی ذریعہ روزگار بنا لیتے۔ اس کے کئی طریقے تھے جو اب متروک ہو چکے ہیں۔ مکتب مدرسہ اب وہ نہیں رہے لیکن ان کے طلبہ اب بھی موجود ہیں اور علم کی روشنی پھیلا رہے ہیں۔
میں یہ جس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں تب صرف سرکاری اسکول اور مدرسے موجود ہوا کرتے تھے جہاں کی تعلیم سے فارغ ہونے والوں کو نوکری بھی مل سکتی تھی جب کہ دوسری طرف دینی تعلیم سے نوکری وغیرہ نہیں ملتی تھی، زیادہ سے زیادہ مسجد کی نوکری مل جاتی تھی یا کسی درس وتدریس والے مدرسے میں استاد کی ملازمت۔ حالات بہت بدل گئے ہیں۔ لوگ دینی تعلیم کو پسند کرتے تھے اور دینی علوم کے مدرسے والے بھوکوں نہیں مرتے تھے۔ عام مسلمان اپنا فرض سمجھتے تھے کہ وہ دینی مدرسوں کی باقاعدہ خدمت کریں اور اس کا اجر حاصل کریں۔
اس طریقہ تعلیم کا ایک نتیجہ یہ نکلا تھا کہ معاشرے میں نیکی پھیل رہی تھی۔ دینی مدرسوں کے فارغ التحصیل دینی تعلیم کی ترویج وغیرہ کو ایک عبادت سمجھتے تھے، ایک نوکری نہیں۔ نوکریاں تو اور بھی بہت تھیں جن کی تنخواہ تھی مگر کوئی اجر نہیں تھا۔ اجر خدا کے پاس تھا بس کچھ اس تنخواہ کو اور کچھ لوگ اس اجر کو بہت کچھ سمجھتے تھے جس کی قسمت میں جو بھی تھا وہ اسے مل رہا تھا۔ کچھ لوگ تنخواہ پا رہے تھے اور کچھ لوگ یہ تنخواہ کسی اور کھاتے میں جمع کرا دیتے تھے۔ بس دال کا ایک دیگچہ جس کی برکت پھیل رہی تھی۔