فلمی دنیا کی بے حسی

شمشاد بیگم وہ واحد گلوکارہ ہیں جن کے گیت آج بھی ذوق وشوق سے سنے جاتے ہیں


Raees Fatima April 02, 2017
[email protected]

ایسا کیوں ہے کہ پرانی فلمیں، ان کی موسیقی، اداکارائیں اور اداکاروں کی شہرت یا یوں کہیے کہ عمریںلمبی ہوتی تھیں۔آج یہ عالم ہے دونوں ملکوں میں کہ یاد ہیں تو وہی پرانے لوگ، دلیپ کمار، راجیش کھنہ، محمد علی، وحید مراد، ندیم، شاہد، اشوک کمار، گرودت اور امیتابھ وغیرہ۔ لیکن جو عروج اورچاہت دلیپ صاحب کے بعد کسی کو ملی تو وہ ہیں راجیش کھنہ، جہاں تک امیتابھ بچن کا سوال ہے تو ان کے سر پہ اندرا گاندھی کا ہاتھ تھا، ورنہ شروع میں تو فلم سازوں نے انھیں ان کے لمبے قد اور دبلے پتلے جسم کی وجہ سے مسترد کردیا تھا۔

کیسی عجیب بات ہے کہ ماضی کے ہیرو اور ہیروئنوں کا فلمی کیریئر بہت طویل ہوتا تھا جب کہ آج یہ عالم ہے کہ تھوک کے حساب سے انڈیا میں فلمیں بن رہی ہیں اور اسی حساب سے نئی نئی ہیروئنیں بھی کام کر رہی ہیں لیکن مادھوری ڈکشٹ کے بعد ''آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہوگیا'' والی بات ہے۔

موسیقار نوشاد علی کی یاد داشتوں میں بعض بڑے عبرت ناک واقعات درج ہیں۔ فلمی دنیا کی بے حسی اور خود غرضی کی داستانوں سے انسان عبرت پکڑتا ہے۔ راج کماری دوبے ہندوستان کی مایہ ناز گلوکارہ تھیں۔ ان کا جنم بنارس میں 1924ء میں ہوا، کچھ فلموں میں بھی کام کیا، لیکن وجۂ شہرت گلوکاری تھی۔ راج کماری اپنے وقت کی نہایت مقبول گلوکارہ تھیں۔ ان کی ہم عصر گلوکاراؤں میں امیربائی کرناٹکی، زہرہ بائی انبالہ والی اور شمشاد بیگم تھیں، لیکن متذکرہ بالا گلوکار خواتین کی آوازکی رینج بہت زیادہ تھی، یہ سب زیادہ تر اونچے سروں میں گاتی تھیں اور عوام میں مقبول بھی بہت تھیں۔

شمشاد بیگم وہ واحد گلوکارہ ہیں جن کے گیت آج بھی ذوق وشوق سے سنے جاتے ہیں۔ لیکن ان کے برعکس راج کماری دھیمے اور نیچے سروں میں گاتی تھیں۔ ان کی آواز میں ایک عجیب طرح کا سوز تھا جوکم کم لوگوں کے گلے میں ہوتا ہے۔ خاص کر المیہ گیت جس انداز میں انھوں نے گائے وہ ایک منفرد، دلکش اور مسحورکن انداز تھا۔ 1949ء میں فلم ''محل'' میں راج کماری کے گائے ہوئے یہ گیت امر ہوگئے اور فلم کی مقبولیت کا باعث بھی بنے۔

(1) گھبرا کے جو ہم سر کو ٹکرائیں تو اچھا ہو۔ (2) میں وہ دلہن ہوں راس نہ آیا جسے سنگھار۔ (3) ہائے میرا دل۔ (4) یہ رات پھر نہ آئے گی۔ (5) چھن چھن گھنگھرو باجے (زہرہ بائی انبالہ والی کے ساتھ گایا)

راج کماری نے ہندی، اردو کے علاوہ گجراتی، تامل اور پنجابی زبانوں میں بھی گایا۔ آواز کی اٹھان بہت اچھی تھی، پہلا گیت H.M.V نے گیارہ برس کی عمر میں ریکارڈ کیا۔ اپنے دورکی مقبول گلوکارہ جو سیدھے سادے آسان راگوں کے علاوہ ٹھمری دادرا اور دیگر راگوں میں بھی اتنی ہی آسانی سے گاتی تھیں۔ فلم ''پاکیزہ'' میں نوشاد کی موسیقی میں سولوگیت''نجریا کی ماری'' یقینا موسیقی کے دلدادہ لوگوں کو یاد ہوگا۔ نوشاد علی نے راج کماری کو بہت سپورٹ کیا۔

فلم ''سنگھرش'' کی شوٹنگ بنارس میں ہورہی تھی جو اب ''وارانسی'' کہلاتا ہے۔ اس فلم کے ہیرو دلیپ کمار اور ہیروئن وجینتی مالا تھیں، سنجیو کمار نے بھی ایک اہم رول کیا تھا۔ اس فلم کی آؤٹ ڈور شوٹنگ میں ایک کورس بھی شامل تھا۔ جس کی آوازوں کے لیے چار پانچ لڑکیوں کی بھی ضرورت تھی۔

آگے کا حال خود نوشاد علی کی زبانی سنیے ''جس روز میں اس گیت کی ریکارڈنگ کے لیے ریکارڈنگ تھیٹر پہنچا مجھے کورس گانے والی چار لڑکیوں کے درمیان ایک بوڑھی خاتون نظر آئیں، میں نے اپنے اسسٹنٹ شفیع سے پوچھا ...''میں نے پانچ لڑکیاں بلائی تھیں۔ یہ بوڑھی خاتون کون ہیں۔ جاکر معلوم کرو''۔شفیع نے مجھے جواب دیا... ''نوشاد صاحب آپ نے پہچانا نہیں؟ یہ راج کماری ہیں۔ اپنے وقت کی مایہ ناز پلے بیک سنگر۔ آج کل بہت پریشان ہیں لہٰذا کورس گانے کے لیے آگئی ہیں''۔میں نے یہ سنا تو چکر سا آگیا۔ میں ریکارڈنگ روم سے میوزک ہال میں گیا اور راج کماری کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا ''یہ آپ کیا کررہی ہیں؟ کورس گانے کے لیے آپ آئی ہیں؟... یہ تو ہمارے لیے بڑی شرم کی بات ہے''

راج کماری بولیں

''نوشاد صاحب اس میں شرم کی کوئی بات نہیں کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں اس سے بھی محروم ہوجاؤں؟ خدا کے واسطے آپ مجھے کورس گانے سے نہ روکیے۔ یہ تو وقت کی بات ہے کہ کبھی ہیروئن کے لیے گاتی تھی اور آج کورس گارہی ہوں۔ میری بھی ضرورتیں ہیں۔ میں تو آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ جب کورس گانے کی ضرورت ہو آپ مجھے ضرور بلایا کریں''

راج کماری کی یہ بات سن کر ان کا ماضی نوشاد صاحب کے سامنے آگیا۔ ''میں پرکاش پکچر کی فلم ''اسٹیشن ماسٹر'' کی موسیقی دے رہا تھا۔ یہ میری چوتھی فلم تھی۔ اس فلم کی پلے بیک سنگر کی حیثیت سے راج کماری آئی تھیں۔ میں نیا نیا موسیقار تھا اور راج کماری اس زمانے کی سب سے مقبول گلوکارہ۔ ہم سب ان کی آمد کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ جب راج کماری کی لمبی چوڑی بیوک کار اسٹوڈیو میں داخل ہوئی تو پروڈیوسر نے آگے بڑھ کر خود کارکا دروازہ کھولا تھا، جب کہ ان کا شوفر شان کے ساتھ اسٹیئرنگ پہ بیٹھا رہا تھا۔ ان کے ساتھ ان کا ایک ملازم پاندان اور دوسرا سامان لے کر گاڑی سے اترا تھا، گیت کی ریکارڈنگ ختم ہوئی تو راج کماری کی کار کا دروازہ پھر پروڈیوسر نے بند کیا تھا۔ میں انھی راج کماری کو آج کورس سنگرکی حیثیت سے دیکھ رہا تھا۔

دوسری کورس گانے والی لڑکیاں اور سازندے حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ یہ کون بوڑھی خاتون ہیں... سب لوگ ہی اپنی جگہ سے اٹھے اور انھوں نے راج کماری کے پاؤں چھوئے پھر راج کماری نے مجھ سے کہا: ''نوشاد صاحب کورس گانا کوئی بری بات نہیں آپ دیکھئے کہ اپنے وقت کا مشہور موسیقار اورگلوکار خان مستانہ آج کل ماہم شریف کی درگاہ کے سامنے صدا لگاتا ہے۔ ''اﷲ کے نام پر کچھ دیتے جاؤ'' تو کیا کورس گانا بری بات ہے''

خان مستانہ اپنے وقت کے مشہور موسیقار،کمپوزر اورگلوکار تھے۔ بے شمار فلموں میں ہیرو پہ پکچرائز کیے ہوئے گیت گائے۔ فلم ''بابل'' کا مشہور ڈائبٹ ... ملتے ہی آنکھیں دل ہوا دیوانہ کسی کا ... خان مستانہ نے اوما دیوی کے ساتھ مل کر گایا تھا۔

راج کماری کا انتقال سن 2000ء میں بنارس میں ہوا۔ ان کے شوہر V-K-Dubey کا تعلق فلمی دنیا سے نہیں تھا، نوشاد صاحب نے آخر وقت تک راج کماری کا ساتھ دیا۔ وہ 1950ء تک باقاعدہ گاتی رہیں۔ پھر لتا کی آمد نے سارا منظر نامہ بدل دیا۔ برٹش ٹی وی نے اپنے ایک پروگرام میں راج کماری کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا کہ ان کے مشہور گیتوں کے سیٹ بنائے۔ اس پروگرام کا نام تھا ''محفل'' اور یہ 24 مارچ 1991ء کو نشر ہوا تھا۔ اس پروگرام میں راج کماری نے اپنے مقبول اور پسندیدہ گیت سنائے اور خوب داد سمیٹی۔

کیسی بے حس ہے یہ شوبز کی دنیا چڑھتے سورج کی پجاری۔ خواہ ٹی وی ہو، فلم ہو یا ااسٹیج ہر جگہ بے حسی چھائی ہے۔ نجانے اداکار، اداکارائیں، گلوکار اور دیگر ستارے کیوں نہیں سوچتے کہ شوبز کی دنیا بڑی ظالم ہے ایک نہ ایک دن شہرت کا سورج غروب ہوجائے گا تو کیا ہوگا۔ جن کی شہرت کا چراغ گل ہوجاتا ہے ان کی موت کی خبر بھی دو سطری چھپتی ہے۔ بعض اوقات تو وہ بھی نہیں۔ صرف شوبزکی دنیا ہی پہ موقوف نہیں بلکہ ادب کی دنیا بھی بڑی ظالم اور بے حس ہے یہ بھی چڑھتے سورج کی پجاری ہے۔

تعزیتی ریفرنس بھی انھی شخصیات کا ہوتا ہے جن کی اولادوں سے کچھ فائدے اور امید ہو۔ نمبر بھی نکالے جاتے ہیں، محفلیں بھی سجتی ہیں، بس ''کچھ لو تو کچھ دو'' کا فارمولا ادب میں آج کل سکۂ رائج الوقت ہے۔ جب تک سامنے والے کی جیب میں کھنکتے سکوں، شہرت اور فائدے کی اشرفیوں کی کھنک کا بخوبی اندازہ نہیں ہوجاتا۔ اگلا پانی کو بھی نہیں پوچھتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں