بینظیر بھٹو اور مریم نواز
بینظیر بھٹو کی زندگی عروج و زوال کی ایک عجیب اور المناک داستان ہے
بینظیر بھٹو کی زندگی عروج و زوال کی ایک عجیب اور المناک داستان ہے۔ وہ مسلم ممالک کی پہلی اور کم عمر وزیراعظم تھی، وہ اس گھرانے سے تعلق رکھتی تھی جس کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خاں سے بغاوت کرکے ایک نئی پارٹی کی بنیاد رکھی اور پھر الیکشن جیت کر وزیراعظم بنا۔ اس نے دوسرا الیکشن اس مقصد سے قبل از وقت کرایا تاکہ اس میں قطعی اکثریت حاصل کرلے۔ میں نے اس الیکشن میں بحیثیت ریٹرننگ افسر گوجرانوالہ دیکھا کہ اس کی پارٹی کے امیدواروں نے اپنی حد تک دھاندلی سے جو اس ملک کی روایت بن چکی ہے اکثریت حاصل کرلی تھی لیکن بھٹو کو ضیاء الحق نے جیل میں ڈال دیا اور پھر عدالت کے ذریعے پھانسی دلوا دی۔
بات یہیں ختم نہ ہوئی، بینظیر بھٹو جو دنیا کی نظروں میں واقعی بے نظیر خاتون تھی اس کے ایک بھائی شاہنواز کو کسی نے 1980ء میں اس کے بیرون ملک اپارٹمنٹ میں قتل کردیا جب کہ دوسرا مرتضٰے بھٹو 1996ء میں کراچی شہر میں جب بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھی پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ محترمہ کی والدہ اپنے خاوند اور دو بیٹوں کے قتل کی وجہ سے ذہنی توازن اور یادداشت کھو بیٹھی اور جلا وطنی میں خالق حقیقی سے جاملی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد 18 دسمبر 1987ء میں بینظیر بھٹو کی لاڑکانہ میں حاکم علی کے بیٹے آصف علی زرداری سے شادی ہوگئی۔ بینظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری اور معروف پندرہ روزہ دھنک کے مالک و مدیر اعلیٰ سرور سکھیرا اس شادی میں موجود تھے۔ ابھی چند روز قبل انھوں نے مجھے اور جاوید اقبال کو شام کی چائے پر بلا رکھا تھا تو بتانے لگے کہ تقریب کے دوران ملکی اور غیر ملکی معروف مدعوئین بینظیر کو مل کر مبارک باد اور تحائف دے رہے تھے جب کہ آصف زرداری ایک طرف بیٹھے تھے۔
بینظیر بھٹو جو اب بینظیر زرداری بن چکی تھیں 1988ء میں الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کی طرف سے وزیراعظم بنیں۔ وہ ملک کی گیارہویں نامور لیکن پہلی مسلم وزیراعظم تھیں۔ سکھیرا صاحب کے مطابق بینظیر ان تھک کام کرتی تھیں۔ Multi Dimentional شخصیت، کافی حد تک موڈی، فیشن وغیرہ، بناؤ سنگھار، مزاح اور مذاق سے لاتعلق اور پیروں فقیروں سے دعا کرانا پسند کرتی تھیں۔ ان کی پہلی وزارت عظمیٰ دو سال رہی اور انھیں بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کیا گیا۔
بینظیر 21 جون 1953ء کو پیدا ہوئیں۔ 35 سال کی تھیں جب وہ عملی سیاسی زندگی میں آنے کے بعد وزیراعظم بنیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم کراچی میں ہوئی پھر پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل لاء میں ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1977ء میں پاکستان آئیں تو جنرل ضیاء الحق کے حکم پر ہاؤس اریسٹ کردی گئیں۔ یہ اس بھٹو کی بیٹی تھی جو 1971ء سے 1977ء تک ملک کا وزیراعظم رہا۔
جنرل ضیاء الحق وہ شخص تھا جو اپنے محسن کو جس نے اسے آؤٹ آف ٹرن چیف آف آرمی اسٹاف بنایا اس لیے پھانسی دینے پر مجبور تھا کہ پھندہ ایک تھا اور گردنیں دو۔ لیکن دنیوی سزاء ضیاء الحق کے مقدر میں لکھی تھی جس کا جہاز 1988ء میں کریش کرگیا اور وہ لقمہ اجل بن گئے۔
بینظیر بھٹو دوسری بار 1993ء میں وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئیں۔ لیکن تیسرے ہی سال پھر کرپشن الزامات پر برطرف کردی گئیں۔ اس بار بینظیر اور آصف زرداری پر مبینہ طور پر نوے کیسز بنے لیکن کوئی اپنے انجام تک نہ پہنچا۔ اس کے بعد وہ خود ساختہ جلاوطنی پر طویل عرصہ تک لندن اور دبئی میں رہیں جب کہ زرداری آٹھ سال تک بغیر سزا کے جیل میں قیام پذیر رہے۔
محترمہ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی واپس آئیں تو ایک بڑے جلوس کے ساتھ ایئرپورٹ سے روانہ ہوئیں۔ اگرچہ ان کے ٹرک کے گرد پچاس پارٹی ورکر سیکیورٹی گارڈز کا حصار تھا لیکن ان پر خودکش حملہ ہوگیا وہ خود تو بچ گئیں لیکن مبینہ طور پر اس حملے میں 136 لوگوں کی ہلاکت ہوئی اور چار سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔
اگرچہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو ممکنہ حملوں کی اطلاع دے رکھی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سیکیورٹی ناکافی رہی جس کی وجہ یقینا یہی تھی کہ بی بی جنرل پرویز مشرف کی رضا مندی کے خلاف پاکستان لوٹی تھیں۔ پھر 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر نے لیاقت علی خاں کی قتل گاہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک ریلی سے خطاب کیا اور جب ایک بلٹ پروف گاڑی میں وہاں سے روانہ ہوتے وقت وہ لوگوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے گاڑی کے Sunroof میں کھڑی ہوئی تو تین گولیاں چلیں ایک خودکش دھماکا ہوا اور یہ حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔
گاڑی میں اس کے ہمراہ مخدوم امین فہیم، ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید عباسی تھے جو محفوظ رہے۔ اس وقت آصف زرداری دبئی میں تھے، وہ واپس آئے اور ایک وصیت نامے کی بنیاد پر محترمہ کے جانشین بن گئے۔ وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل کے طویل عرصہ بعد ان کے وارثوں نے شہید کے خون آلود محفوظ کپڑے حاصل کرنا چاہے ان کی درخواست پر میں نے بحیثیت علاقہ مجسٹریٹ حکم لکھا کہ خون آلود کپڑوں کو محفوظ کرکے پولیس میوزیم میں رکھا جائے۔
شوکت جاوید انسپکٹر جنرل پولیس نے لاہور کے آئی جی آفس میں پولیس میوزیم قائم کیا تھا۔ مجھے سمیع الرحمن سابق ڈی آئی جی پولیس نے کنفرم کیا ہے کہ لیاقت علی خاں کے خون آلود کپڑے و دیگر کئی تاریخی اشیاء اور دستاویزات اس میوزیم میں محفوظ ہیں۔ بینظیر کی وصیت تو محفوظ رہی اور زرداری صاحب کے کام آئی لیکن محترمہ کے قاتلوں کا سراغ ملا نہ ان کے خون آلود کپڑوں کو محفوظ کیے جانے کی خبر ہے۔
دنیا کے ایک سو ممالک کے سربراہان کی ایک سو معروف دختران کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی قابلیت کو سراہا گیا ہے۔ ان میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جو شادی کے بعد سے مریم صفدر ہے شامل ہے۔ مریم اپنے والد کی مشیر خاص ہے جو پنجاب یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سے پس پردہ رہ کر سیاست میں والد نواز شریف کے الیکشن کے علاوہ روز مرہ کاموں میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ وہ ایک سال تک پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن رہی اور اب ہیلتھ کیئر پروگرام کی روح رواں ہے۔
مریم نواز جلد ہی کھل کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرے گی اور آیندہ الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑے گی۔ وہ ایک اچھی سیاسی فائٹر ثابت ہوگی تاہم آج کل مختلف الزامات کی زد میں ہیں۔ یہ معاملات ان کی متوقع آیندہ سیاسی زندگی کو متاثر کرسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز ایک خوشگوار شخصیت اور نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں۔
بات یہیں ختم نہ ہوئی، بینظیر بھٹو جو دنیا کی نظروں میں واقعی بے نظیر خاتون تھی اس کے ایک بھائی شاہنواز کو کسی نے 1980ء میں اس کے بیرون ملک اپارٹمنٹ میں قتل کردیا جب کہ دوسرا مرتضٰے بھٹو 1996ء میں کراچی شہر میں جب بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھی پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ محترمہ کی والدہ اپنے خاوند اور دو بیٹوں کے قتل کی وجہ سے ذہنی توازن اور یادداشت کھو بیٹھی اور جلا وطنی میں خالق حقیقی سے جاملی۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد 18 دسمبر 1987ء میں بینظیر بھٹو کی لاڑکانہ میں حاکم علی کے بیٹے آصف علی زرداری سے شادی ہوگئی۔ بینظیر بھٹو کے پریس سیکریٹری اور معروف پندرہ روزہ دھنک کے مالک و مدیر اعلیٰ سرور سکھیرا اس شادی میں موجود تھے۔ ابھی چند روز قبل انھوں نے مجھے اور جاوید اقبال کو شام کی چائے پر بلا رکھا تھا تو بتانے لگے کہ تقریب کے دوران ملکی اور غیر ملکی معروف مدعوئین بینظیر کو مل کر مبارک باد اور تحائف دے رہے تھے جب کہ آصف زرداری ایک طرف بیٹھے تھے۔
بینظیر بھٹو جو اب بینظیر زرداری بن چکی تھیں 1988ء میں الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی کی طرف سے وزیراعظم بنیں۔ وہ ملک کی گیارہویں نامور لیکن پہلی مسلم وزیراعظم تھیں۔ سکھیرا صاحب کے مطابق بینظیر ان تھک کام کرتی تھیں۔ Multi Dimentional شخصیت، کافی حد تک موڈی، فیشن وغیرہ، بناؤ سنگھار، مزاح اور مذاق سے لاتعلق اور پیروں فقیروں سے دعا کرانا پسند کرتی تھیں۔ ان کی پہلی وزارت عظمیٰ دو سال رہی اور انھیں بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کیا گیا۔
بینظیر 21 جون 1953ء کو پیدا ہوئیں۔ 35 سال کی تھیں جب وہ عملی سیاسی زندگی میں آنے کے بعد وزیراعظم بنیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم کراچی میں ہوئی پھر پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل لاء میں ہارورڈ اور آکسفورڈ یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1977ء میں پاکستان آئیں تو جنرل ضیاء الحق کے حکم پر ہاؤس اریسٹ کردی گئیں۔ یہ اس بھٹو کی بیٹی تھی جو 1971ء سے 1977ء تک ملک کا وزیراعظم رہا۔
جنرل ضیاء الحق وہ شخص تھا جو اپنے محسن کو جس نے اسے آؤٹ آف ٹرن چیف آف آرمی اسٹاف بنایا اس لیے پھانسی دینے پر مجبور تھا کہ پھندہ ایک تھا اور گردنیں دو۔ لیکن دنیوی سزاء ضیاء الحق کے مقدر میں لکھی تھی جس کا جہاز 1988ء میں کریش کرگیا اور وہ لقمہ اجل بن گئے۔
بینظیر بھٹو دوسری بار 1993ء میں وزیراعظم کے عہدے پر متمکن ہوئیں۔ لیکن تیسرے ہی سال پھر کرپشن الزامات پر برطرف کردی گئیں۔ اس بار بینظیر اور آصف زرداری پر مبینہ طور پر نوے کیسز بنے لیکن کوئی اپنے انجام تک نہ پہنچا۔ اس کے بعد وہ خود ساختہ جلاوطنی پر طویل عرصہ تک لندن اور دبئی میں رہیں جب کہ زرداری آٹھ سال تک بغیر سزا کے جیل میں قیام پذیر رہے۔
محترمہ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی واپس آئیں تو ایک بڑے جلوس کے ساتھ ایئرپورٹ سے روانہ ہوئیں۔ اگرچہ ان کے ٹرک کے گرد پچاس پارٹی ورکر سیکیورٹی گارڈز کا حصار تھا لیکن ان پر خودکش حملہ ہوگیا وہ خود تو بچ گئیں لیکن مبینہ طور پر اس حملے میں 136 لوگوں کی ہلاکت ہوئی اور چار سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔
اگرچہ انھوں نے جنرل پرویز مشرف کو ممکنہ حملوں کی اطلاع دے رکھی تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ سیکیورٹی ناکافی رہی جس کی وجہ یقینا یہی تھی کہ بی بی جنرل پرویز مشرف کی رضا مندی کے خلاف پاکستان لوٹی تھیں۔ پھر 27 دسمبر 2007ء کو بینظیر نے لیاقت علی خاں کی قتل گاہ لیاقت باغ راولپنڈی میں ایک ریلی سے خطاب کیا اور جب ایک بلٹ پروف گاڑی میں وہاں سے روانہ ہوتے وقت وہ لوگوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے گاڑی کے Sunroof میں کھڑی ہوئی تو تین گولیاں چلیں ایک خودکش دھماکا ہوا اور یہ حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔
گاڑی میں اس کے ہمراہ مخدوم امین فہیم، ڈاکٹر صفدر عباسی اور ناہید عباسی تھے جو محفوظ رہے۔ اس وقت آصف زرداری دبئی میں تھے، وہ واپس آئے اور ایک وصیت نامے کی بنیاد پر محترمہ کے جانشین بن گئے۔ وزیراعظم لیاقت علی خاں کے قتل کے طویل عرصہ بعد ان کے وارثوں نے شہید کے خون آلود محفوظ کپڑے حاصل کرنا چاہے ان کی درخواست پر میں نے بحیثیت علاقہ مجسٹریٹ حکم لکھا کہ خون آلود کپڑوں کو محفوظ کرکے پولیس میوزیم میں رکھا جائے۔
شوکت جاوید انسپکٹر جنرل پولیس نے لاہور کے آئی جی آفس میں پولیس میوزیم قائم کیا تھا۔ مجھے سمیع الرحمن سابق ڈی آئی جی پولیس نے کنفرم کیا ہے کہ لیاقت علی خاں کے خون آلود کپڑے و دیگر کئی تاریخی اشیاء اور دستاویزات اس میوزیم میں محفوظ ہیں۔ بینظیر کی وصیت تو محفوظ رہی اور زرداری صاحب کے کام آئی لیکن محترمہ کے قاتلوں کا سراغ ملا نہ ان کے خون آلود کپڑوں کو محفوظ کیے جانے کی خبر ہے۔
دنیا کے ایک سو ممالک کے سربراہان کی ایک سو معروف دختران کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی قابلیت کو سراہا گیا ہے۔ ان میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز جو شادی کے بعد سے مریم صفدر ہے شامل ہے۔ مریم اپنے والد کی مشیر خاص ہے جو پنجاب یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے انگریزی ادب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سے پس پردہ رہ کر سیاست میں والد نواز شریف کے الیکشن کے علاوہ روز مرہ کاموں میں اہم کردار ادا کررہی ہے۔ وہ ایک سال تک پرائم منسٹرز یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن رہی اور اب ہیلتھ کیئر پروگرام کی روح رواں ہے۔
مریم نواز جلد ہی کھل کر اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرے گی اور آیندہ الیکشن میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑے گی۔ وہ ایک اچھی سیاسی فائٹر ثابت ہوگی تاہم آج کل مختلف الزامات کی زد میں ہیں۔ یہ معاملات ان کی متوقع آیندہ سیاسی زندگی کو متاثر کرسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز ایک خوشگوار شخصیت اور نواز شریف کی سیاسی وارث ہیں۔