جنگ آزادی کا ہیرو بھگت سنگھ
چودہ سال کی عمر میں بھگت سنگھ نے گردوارہ ننکانہ صاحب جہاں نہتے لوگوں کے قتل کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا میں حصہ لیا۔
RAWALPINDI:
ہر علاقے اور ہرخطے میں نامور انقلابی ہیروز پیدا ہوئے۔ جیسا کہ افریقہ کے سنکارا، جنوبی امریکا کے چی گویرا، شمالی امریکا کی ایماگولڈ مان جب کہ برصغیر کے بھگت سنگھ۔ وہ بنیادی طور پر ایک سچے انارکسٹ تھے۔28 ستمبر 1907ء میں، سندھوجاٹ خاندان میں، جڑانوالہ، ضلع لائل پور برٹش انڈیا، موجودہ فیصل آباد، پاکستان میں پیدا ہوئے۔
ان کا خاندان پہلے ہی سے برطانوی استعماریت کے خلاف جنگ آزادی میں شامل رہا۔ جب ان کی عمر صرف بارہ سال کی تھی تو وہ ہائی اسکول سے بھاگ کر جلیانوالہ باغ جہاں دس ہزار ہندوستانیوں کو جنرل ڈائیر کے حکم پرگولیوں کی بوچھاڑ میں شہیدکر دیاگیا تھا، اس جگہ کی زیارت کی جب کہ چودہ سال کی عمر میں بھگت سنگھ نے گردوارہ ننکانہ صاحب جہاں نہتے لوگوں کے قتل کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا میں حصہ لیا۔
انھوں نے اسٹوڈنٹ لا ئف میں ہندوستانی عوام کو برطانوی سامراج سے آ زادی دلوانے کی خاطر جدوجہد کے جذبے کو بڑھانے کے لیے متعدد اسٹیج ڈراموں میں بہترین اداکاری کی۔ ان ڈراموں میں' رانا پرتاپ، سمراٹ چندر گپتا'' اور ''بھارت در دشا'' شامل ہیں۔ انھوں نے ہندوستان سوشلسٹ ری پبلک ایسوسی ایشن میں یہ تجویز رکھی کہ ایسا کام کیا جائے جس میں ہم برطانوی سامراج کو مار بھگانے میں ابلاغ عامہ کو زیادہ متوجہ کرا سکیں ۔ 1922ء کے چورا چوری کے واقعے کے بعد ''نوجوان انقلابی تحریک'' میں شامل ہوئے اور برطانوی سامراج کے خلاف پر تشدد تحریک شروع کی۔ انھوں نے امرتسر سے شایع ہونے والے اردو اور پنجابی اخباروں میں مضامین لکھے۔ وہ 1923ء میں ''نو جوان بھارت سبھا'' میں شامل ہو گئے۔
واضح رہے کہ اس تنظیم میں سائیں عزیزاللہ کارکن تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ انگریزوں سے بندوقیں چھین کر مخصوص مقام پر پہنچانا۔ وہ دو بار مرتے مر تے بچ گئے۔ سائیں عزیزاللہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مر کزی کمیٹی کے رکن، سیکریٹریٹ اور پولیٹ بیورو کے رکن تھے۔ اسی سال بھگت سنگھ ''پنجاب ہندی ساہیتہ سمیلون'' میں پنجاب کے مسائل پر مقابلہ مضمون نویسی میں شرکت کی۔
دہلی سے شایع ہونے والے اخبارات 'ویر' اور ''ارجون'' میں بھی مضا مین لکھتے رہے۔ انھوں نے سب سے پہلے باکونن، لینن اور ٹراٹسکی کی کتابوں کا مطا لعہ کیا ۔کرتی کسان پارٹی کا ترجمان ''کرتی'' میں انارکزم پر تسلسل سے ان کے مضامین شایع ہوتے رہے۔ ان کے اکثر مضامین کے عنوان 'بلونت' رنجت' اور' بدروہی' ہوتے تھے۔
بھگت سنگھ نے 1930 ء میں لاہور جیل میں ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا ''میں دہریہ کیوں بنا؟'' بھگت سنگھ، گاندھی کے عدم تشدد کے مو قف کے سخت خلاف تھے، انھوں نے ہندو مسلم فسادات کو دیکھتے ہوئے مذہب سے دوری اختیارکی۔ جب وہ نو جوانوں میں بہت مقبول ہونے لگے تو انھیں گرفتارکر لیا گیا۔ انھوں نے 8 اپریل 1929ء میں سینٹرل اسمبلی میں پمفلٹ پھینکا۔
برصغیر میں ''انقلاب زندہ آباد'' کا نعرہ سب سے پہلے بھگت سنگھ نے دیا۔ بھگت سنگھ نے پہلی بار ہندوستان کی جیل میں سیاسی قیدی ہو نے کے ناتے انھیں سہولت دیے جانے اور عام قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کرتے ہوئے انھیں جیل مینوئل کے مطابق سہولت دلوانے کے لیے ہڑتال کر رکھی تھی۔ بمبئی (اب ممبئی) ہائی کورٹ نے بھگت سنگھ کی عدالت میں حاضری کے بغیر مقدمہ چلا نے کی ریمارکس دیے، جس پر بھگت سنگھ کے وکیل کے طور پر قائداعظم محمدعلی جناح نے عدالت میں یہ موقف اختیارکیا کہ بھگت سنگھ کی عدالت میں حاضری کے بغیر مقدمہ چلانا غیر آئینی ہو گا، اس لیے جب تک ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔
اس وقت تک مقدمے کو ملتوی رکھا جائے، لیکن عدالت نے اس موقف کو نہ مانا۔ لاہور ہائی کورٹ کا کوئی جج بھگت سنگھ کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے پر تیار نہ تھا۔ آخرکار نواب احمد خان نے دستخط کر دیے۔23 مارچ 1931ء کو طے شدہ سرکاری وقت سے ایک گھنٹہ قبل ہی انھیں فوارا چوک لاہور میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔ ان کی پھانسی کو 86 سال ہو گئے۔
گزشتہ سال پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نے اس فوارا چوک کا نام بدل کر بھگت سنگھ چوک رکھ دیا تھا۔ جس پر ایک تنظیم کے اعتراض پر لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس تنظیم نے یہ اعترازکیا تھا کہ بھگت سنگھ نان مسلم ہیں، جب کہ بھگت سنگھ کا کسی مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ تبھی تو سا ری دنیا چی گویرا کی طرح بھگت سنگھ کو بھی اپنا ہیرو سمجھتی ہے۔ واضح ر ہے کہ کچھ عرصے بعد بھگت سنگھ کی برسی پر 23 مارچ کو ہی کسی نے ان کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے والے جج نواب احمد خان کو لاہور میں ہی گولی مارکر ہلاک کر دیا تھا۔
ہندوستان کی آزادی میں جن عظیم لوگوں نے جام شہادت نوش کیا ان میں سے بھگت سنگھ سرفہرست تھے۔ وہ پھانسی پانے کے وقت لاہورگورنمنٹ کالج کے معروف طالب علم رہنما تھے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جنگ آزادی میں ہزاروں آزادی کے متوالے اپنی جان سے جاتے رہے۔ جن میں ہندو، مسلم، سکھ، جین، بدھ، یہودی، زرتشی، بہائیِ، دہریے اور مظاہر پرست سب شامل تھے۔ یہ لڑائی پیداواری قوتوں، محنت کشوں اور شہریوں کی لڑا ئی تھی نہ کہ مذہبی، لسانی یا فرقہ پرستی کی لڑا ئی تھی۔
بھگت سنگھ نے جس آزادی کی خاطر اپنی قیمتی جان کی قربانی دی یہ مقصد ہندو پاک میں ستر سال گزرنے کے باوجود حاصل نہیں ہو پایا، حقیقی آزادی طبقات کے خاتمے اور جائیداد کی مشترکہ ملکیت ہونا ہی اصلی آزادی ہے۔ بھگت سنگھ کے اصولوں کو حاصل کر نے کے لیے آج بھی بھگت سنگھ کی برسی پر ان کے گا ؤں سمیت پاکستان کے درجنوں شہروں میں جلسے منعقد ہوئے اور ہندوستان، نیپال میں سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں میں جلسے منعقد ہوئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔
بھگت سنگھ نے جن مقاصد کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہ مقاصد آج بھی حاصل نہیں ہو پائے ہیں، ان مقاصدکے حصول کے لیے برصغیر کے عوام برسرپیکار ہیں۔ جب جائیداد، ملکیت، جاگیرداری، سرمایہ داری، سرمایہ دارانہ نظام کے اداروں جو عوام کو فائدہ دینے کے بجا ئے صاحب جائیداد کے محافظ ہیں کو ختم کر کے ایک غیرطبقاتی نظام قائم نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک عوام کا استحصال ہوتا رہے گا۔
ہر علاقے اور ہرخطے میں نامور انقلابی ہیروز پیدا ہوئے۔ جیسا کہ افریقہ کے سنکارا، جنوبی امریکا کے چی گویرا، شمالی امریکا کی ایماگولڈ مان جب کہ برصغیر کے بھگت سنگھ۔ وہ بنیادی طور پر ایک سچے انارکسٹ تھے۔28 ستمبر 1907ء میں، سندھوجاٹ خاندان میں، جڑانوالہ، ضلع لائل پور برٹش انڈیا، موجودہ فیصل آباد، پاکستان میں پیدا ہوئے۔
ان کا خاندان پہلے ہی سے برطانوی استعماریت کے خلاف جنگ آزادی میں شامل رہا۔ جب ان کی عمر صرف بارہ سال کی تھی تو وہ ہائی اسکول سے بھاگ کر جلیانوالہ باغ جہاں دس ہزار ہندوستانیوں کو جنرل ڈائیر کے حکم پرگولیوں کی بوچھاڑ میں شہیدکر دیاگیا تھا، اس جگہ کی زیارت کی جب کہ چودہ سال کی عمر میں بھگت سنگھ نے گردوارہ ننکانہ صاحب جہاں نہتے لوگوں کے قتل کے خلاف احتجاج ہو رہا تھا میں حصہ لیا۔
انھوں نے اسٹوڈنٹ لا ئف میں ہندوستانی عوام کو برطانوی سامراج سے آ زادی دلوانے کی خاطر جدوجہد کے جذبے کو بڑھانے کے لیے متعدد اسٹیج ڈراموں میں بہترین اداکاری کی۔ ان ڈراموں میں' رانا پرتاپ، سمراٹ چندر گپتا'' اور ''بھارت در دشا'' شامل ہیں۔ انھوں نے ہندوستان سوشلسٹ ری پبلک ایسوسی ایشن میں یہ تجویز رکھی کہ ایسا کام کیا جائے جس میں ہم برطانوی سامراج کو مار بھگانے میں ابلاغ عامہ کو زیادہ متوجہ کرا سکیں ۔ 1922ء کے چورا چوری کے واقعے کے بعد ''نوجوان انقلابی تحریک'' میں شامل ہوئے اور برطانوی سامراج کے خلاف پر تشدد تحریک شروع کی۔ انھوں نے امرتسر سے شایع ہونے والے اردو اور پنجابی اخباروں میں مضامین لکھے۔ وہ 1923ء میں ''نو جوان بھارت سبھا'' میں شامل ہو گئے۔
واضح رہے کہ اس تنظیم میں سائیں عزیزاللہ کارکن تھے۔ ان کا کام یہ تھا کہ انگریزوں سے بندوقیں چھین کر مخصوص مقام پر پہنچانا۔ وہ دو بار مرتے مر تے بچ گئے۔ سائیں عزیزاللہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مر کزی کمیٹی کے رکن، سیکریٹریٹ اور پولیٹ بیورو کے رکن تھے۔ اسی سال بھگت سنگھ ''پنجاب ہندی ساہیتہ سمیلون'' میں پنجاب کے مسائل پر مقابلہ مضمون نویسی میں شرکت کی۔
دہلی سے شایع ہونے والے اخبارات 'ویر' اور ''ارجون'' میں بھی مضا مین لکھتے رہے۔ انھوں نے سب سے پہلے باکونن، لینن اور ٹراٹسکی کی کتابوں کا مطا لعہ کیا ۔کرتی کسان پارٹی کا ترجمان ''کرتی'' میں انارکزم پر تسلسل سے ان کے مضامین شایع ہوتے رہے۔ ان کے اکثر مضامین کے عنوان 'بلونت' رنجت' اور' بدروہی' ہوتے تھے۔
بھگت سنگھ نے 1930 ء میں لاہور جیل میں ایک مضمون لکھا، جس کا عنوان تھا ''میں دہریہ کیوں بنا؟'' بھگت سنگھ، گاندھی کے عدم تشدد کے مو قف کے سخت خلاف تھے، انھوں نے ہندو مسلم فسادات کو دیکھتے ہوئے مذہب سے دوری اختیارکی۔ جب وہ نو جوانوں میں بہت مقبول ہونے لگے تو انھیں گرفتارکر لیا گیا۔ انھوں نے 8 اپریل 1929ء میں سینٹرل اسمبلی میں پمفلٹ پھینکا۔
برصغیر میں ''انقلاب زندہ آباد'' کا نعرہ سب سے پہلے بھگت سنگھ نے دیا۔ بھگت سنگھ نے پہلی بار ہندوستان کی جیل میں سیاسی قیدی ہو نے کے ناتے انھیں سہولت دیے جانے اور عام قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک کرتے ہوئے انھیں جیل مینوئل کے مطابق سہولت دلوانے کے لیے ہڑتال کر رکھی تھی۔ بمبئی (اب ممبئی) ہائی کورٹ نے بھگت سنگھ کی عدالت میں حاضری کے بغیر مقدمہ چلا نے کی ریمارکس دیے، جس پر بھگت سنگھ کے وکیل کے طور پر قائداعظم محمدعلی جناح نے عدالت میں یہ موقف اختیارکیا کہ بھگت سنگھ کی عدالت میں حاضری کے بغیر مقدمہ چلانا غیر آئینی ہو گا، اس لیے جب تک ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کیا جاتا۔
اس وقت تک مقدمے کو ملتوی رکھا جائے، لیکن عدالت نے اس موقف کو نہ مانا۔ لاہور ہائی کورٹ کا کوئی جج بھگت سنگھ کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے پر تیار نہ تھا۔ آخرکار نواب احمد خان نے دستخط کر دیے۔23 مارچ 1931ء کو طے شدہ سرکاری وقت سے ایک گھنٹہ قبل ہی انھیں فوارا چوک لاہور میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا۔ ان کی پھانسی کو 86 سال ہو گئے۔
گزشتہ سال پنجاب کے وزیراعلی شہباز شریف نے اس فوارا چوک کا نام بدل کر بھگت سنگھ چوک رکھ دیا تھا۔ جس پر ایک تنظیم کے اعتراض پر لاہور ہائی کورٹ نے شہباز شریف کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس تنظیم نے یہ اعترازکیا تھا کہ بھگت سنگھ نان مسلم ہیں، جب کہ بھگت سنگھ کا کسی مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ تبھی تو سا ری دنیا چی گویرا کی طرح بھگت سنگھ کو بھی اپنا ہیرو سمجھتی ہے۔ واضح ر ہے کہ کچھ عرصے بعد بھگت سنگھ کی برسی پر 23 مارچ کو ہی کسی نے ان کے ڈیتھ وارنٹ پر دستخط کرنے والے جج نواب احمد خان کو لاہور میں ہی گولی مارکر ہلاک کر دیا تھا۔
ہندوستان کی آزادی میں جن عظیم لوگوں نے جام شہادت نوش کیا ان میں سے بھگت سنگھ سرفہرست تھے۔ وہ پھانسی پانے کے وقت لاہورگورنمنٹ کالج کے معروف طالب علم رہنما تھے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جنگ آزادی میں ہزاروں آزادی کے متوالے اپنی جان سے جاتے رہے۔ جن میں ہندو، مسلم، سکھ، جین، بدھ، یہودی، زرتشی، بہائیِ، دہریے اور مظاہر پرست سب شامل تھے۔ یہ لڑائی پیداواری قوتوں، محنت کشوں اور شہریوں کی لڑا ئی تھی نہ کہ مذہبی، لسانی یا فرقہ پرستی کی لڑا ئی تھی۔
بھگت سنگھ نے جس آزادی کی خاطر اپنی قیمتی جان کی قربانی دی یہ مقصد ہندو پاک میں ستر سال گزرنے کے باوجود حاصل نہیں ہو پایا، حقیقی آزادی طبقات کے خاتمے اور جائیداد کی مشترکہ ملکیت ہونا ہی اصلی آزادی ہے۔ بھگت سنگھ کے اصولوں کو حاصل کر نے کے لیے آج بھی بھگت سنگھ کی برسی پر ان کے گا ؤں سمیت پاکستان کے درجنوں شہروں میں جلسے منعقد ہوئے اور ہندوستان، نیپال میں سیکڑوں شہروں اور دیہاتوں میں جلسے منعقد ہوئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔
بھگت سنگھ نے جن مقاصد کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا وہ مقاصد آج بھی حاصل نہیں ہو پائے ہیں، ان مقاصدکے حصول کے لیے برصغیر کے عوام برسرپیکار ہیں۔ جب جائیداد، ملکیت، جاگیرداری، سرمایہ داری، سرمایہ دارانہ نظام کے اداروں جو عوام کو فائدہ دینے کے بجا ئے صاحب جائیداد کے محافظ ہیں کو ختم کر کے ایک غیرطبقاتی نظام قائم نہیں کر دیا جاتا اس وقت تک عوام کا استحصال ہوتا رہے گا۔