مشکل حالات
دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستانی اس کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں
سات سال کے تعطل کے بعد 2015ء میں یوم پاکستان کی تقریب کی بحالی ظاہر ہے کہ تمام پاکستانیوں کے لیے ایک بڑی خوش خبری تھی لیکن سات سال تک اس اہم قومی تقریب کا منعقد نہ ہونا پوری قوم کے لیے یقینا باعث شرمندگی تھا۔ حالانکہ جب اس تقریب کو بحال کیا گیا تو اس وقت بھی ملک میں دہشتگردی عروج پر تھی مگر عزم وہمت بھی تو کوئی چیز ہے جب موجودہ حکومت نے ہمت کی تو فوج نے بھی ساتھ دیا اور پھر جب سے یوم پاکستان کی تقریب شایان شان طریقے سے منعقد ہوتی چلی آرہی ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے بعض سیاستدان بھی دہشتگردی سے اس قدر خوف زدہ ہوچکے ہیں کہ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ وہ پاکستان سپر لیگ کے فائنل میچ کے بھی لاہور میں انعقاد کی کھل کر مخالفت کر رہے تھے اور اگر ان کا کہا مان لیا جاتا تو عالمی سطح پر ہماری کتنی بے عزتی ہوتی۔ دہشتگردوں اور ان کے حمایتیوں کے کتنے حوصلے بلند ہوتے اور قوم کے جذبات کس حد تک مجروح ہوتے؟ خوش قسمتی سے اس دفعہ یوم پاکستان جس کروفر سے منایا گیا اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس تقریب میں پہلی دفعہ دوست ممالک کے فوجی دستے اور فوجی بینڈ بھی شریک تھے۔
چین اور سعودی عرب کے فوجی دستوں اور جنوبی افریقہ کی فوج کے سربراہ کی شرکت سے ایک طرف پاکستان کی تنہائی کے بارے میں دشمن کا پروپیگنڈا زائل ہوگیا تو دوسری طرف دشمن کو یہ بھی پتہ چل گیا کہ ہمارے دوست ہمارا کس حد تک ساتھ دے سکتے ہیں۔ صدر مملکت کے بے باک خطاب اور جدید فوجی ساز و سامان کی نمائش نے ضرور ہمارے دشمن کی آنکھیں کھول دی ہوں گی۔ وہ خود کو بہت طاقتور خیال کرتا ہے مگر اب اسے پتہ چل گیا ہوگا کہ پاکستانی بھی خالی ہاتھ نہیں بیٹھے ہیں۔
صدر مملکت نے اپنے خطاب میں بھارت کو صاف صاف بتا دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر چارہ نہیں ہے اور ہم اس کی جانب سے افغانستان کے ذریعے یا کسی اور ذریعے سے تھوپی گئی دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ خوش قسمتی سے کراچی کی دہشتگردی کو لگام دی جاچکی ہے اور اس کے محرک شخص کی دہشتگردانہ سیاست کا چراغ گل ہوچکا ہے۔ بلوچستان کے حالات کو قابو میں کرلیا گیا ہے۔
دشمن کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستانی اس کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں،اس کے لیے بہتر تو یہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو حل کرکے خطے میں پائیدار امن کو ممکن بنائے۔اب اس کے ممبئی، پٹھان کوٹ اور اڑی جیسے خودساختہ ڈرامے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ ان کی اصلیت سے پوری دنیا واقف ہوچکی ہے۔ اب وقت ڈراموں کا نہیں ہے امن کو آگے بڑھانے کا ہے تاکہ دونوں ممالک کے غریب عوام کا بھلا ہوسکے۔ دونوں ممالک کا اصل مسئلہ غربت ہے۔
کاش کہ مودی جی اب اس حقیقت سے چشم پوشی ترک کرکے اسلحے کے ڈھیر لگانا بند کردیں۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ قیمتی سے قیمتی اسلحہ بھی خود نہیں لڑتا اسے فوجی ہی چلاتے ہیں مگر بھارتی فوج کا جو حال خود حکومت نے بنا رکھا ہے اس پر تو ترس آتا ہے۔ جس فوج کو ڈھنگ کا کھانا بھی میسر نہ ہو وہ کیا خاک لڑے گی؟ ضرورت اب اس امرکی ہے کہ پاکستان کو کمزور سمجھ کر مسائل کو التوا میں نہ ڈالا جائے۔ مسائل کو حل کرنے کی جانب سنجیدگی سے توجہ دی جائے تو اس میں دونوں ہی ملکوں کا فائدہ ہے اگر بات ایٹمی جنگ کی حد تک جاتی ہے تو پھر کشمیر کس کا ہوگا یہ بات بھارت کے سوچنے کی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے کچھ لوگ نظریہ پاکستان سے بدظن نظر آتے ہیں وہ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ اور قائد اعظم کو سیکولر شخصیت ثابت کرنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور دو قومی نظریہ اس کی بنیاد ہے اور ہر پاکستانی اس نظریے پر اٹل ہے۔ ہم سب ہی دیکھ چکے ہیں کہ بھارتی انتہا پسند لیڈر ایل کے ایڈوانی کو قائد اعظم کو اسلام پسند نہ کہنے کی کیسی سخت سزا بھگتنا پڑی تھی اور اس کی وجہ سے ان کا وزیر اعظم بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوکر رہ گیا تھا۔
ان کا قصور صرف اتنا ہی تھا کہ انھوں نے 2005ء میں پاکستان کے دورے کے موقیع پر قائد اعظم کے مزار پر جاکر انھیں ایک سیکولر لیڈر کہہ دیا تھا ان کا یہ کہنا راشٹریہ سیوک سنگھ کے ٹھیک کلیجے پر جا کر لگا اور ناگپور ہیڈ کوارٹر سے فوراً ردعمل ظاہر ہوا کہ ایڈوانی جھوٹ بولتا ہے وہ کیسا آر ایس ایس کا پرچارک ہے کہ اسے اتنا بھی نہیں پتہ کہ جناح ایک نمبر کا کٹر مسلمان اور اسلام پسند لیڈر تھا۔ اس جرم کی پاداش میں ایڈوانی کا مکمل سوشل بائیکاٹ کیا گیا۔ ان کی جگہ مودی کو وزیر اعظم کا الیکشن لڑا کر کامیاب کیا گیا۔
الیکشن کے بعد مودی نے اپنے استاد ایڈوانی کو مکمل طور پر گھر میں بٹھا دیا تھا۔ اس بصیرت افروز واقعے سے پتہ چلا کہ قائد اعظم کے دشمن بھی انھیں سیکولر ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ خوش قسمتی سے ہمارے ہاں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔ جس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے۔ قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے والے ان کی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ دینے لگتے ہیں کہ لو اس میں دیکھ لو انھوں نے صاف صاف کہا تھا کہ ہندو ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان مسلمان نہیں رہے گا۔ بس سمجھ لو کہ اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ خود سیکولر تھے اور پاکستان بھی سیکولر اسٹیٹ ہے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک سیکولر اسٹیٹ ہی ہے اگر وعدے کے مطابق اسے اسلامی اسٹیٹ بنادیا گیا ہوتا تو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے جیسا سانحہ ہرگز پیش نہ آتا۔ اب ہمیں ہوش کے ناخن لینا چاہیے اوراس بحث سے نکل کر ملک کی فکر کرنا چاہیے۔اس وقت بھارت امریکا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف کئی سازشیں تیارکر رہا ہے۔ نئی دہلی میں تینوں ممالک کی کئی خفیہ میٹنگیں ہوچکی ہیں۔ اب کیا نیا عذاب پاکستان پر نازل کیا جانے والا ہے۔ ابھی ان کی موجودہ نازل کی گئی دہشتگردی سے ہی ہم مکمل نجات حاصل نہیں کرپائے ہیں۔
ٹرمپ کے بارے میں ہم نے ابتدا میں جو تاثر قائم کیا تھا کہ وہ پاکستان اور بھارت کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے، لگتا ہے وہ اسرائیل کے ورغلانے پر ہمارے خلاف بھارت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ امریکا کا بھارت کے ساتھ لاجسٹک اور میری ٹائم معاہدہ ہمارے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکا بھارت کا پہلے ہی ہر سطح پر ساتھ دے رہا ہے۔وہ بھارت کو جنوبی ایشیا کا ایسا طاقتور ملک بنانا چاہتا ہے جو چھوٹے ہمسایوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ چین کا بھی مقابلہ کرسکے۔
چین بھی امریکی ارادوں سے غافل نہیں ہے اس نے امریکی رویے کو دیکھتے ہوئے ہی روس سے اپنے تعلقات میں گہرائی پیدا کرلی ہے۔ وہ روس کے ساتھ مل کر جنوبی ایشیا میں امریکی جارحیت کو روکنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس وقت افغان مسئلے نے تمام پڑوسیوں کے امن کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ بھارت اس مسئلے کی طوالت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
روس کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں قابل تعریف ہیں مگر امریکا اور بھارت اس کی کوششوں کو بے نتیجہ بنانے کے درپے ہیں۔ تاہم امید ہے کہ پاکستان اور چین کے تعاون سے افغان مسئلے کو حل کرنے کی روسی کوششیں بالآخر بار آور ثابت ہوں گی اور پاکستان اپنی مشکلات سے نجات حاصل کر لے گا۔