اظہار رائے کی آزادی

آزادیٔ رائے انسان کا بنیادی اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں

ISLAMABAD:
اظہار رائے کی آزادی سے کا مطلب یہ ہے کہ ہرانسان تقریروتحریر میں آزاد ہے اورکسی بھی فکر، نظریہ، سوچ، عمل اورنظام کے بارے میں اپنا ایک خاص نکتہ نظر قائم کرسکتا ہے اورکسی بھی فکر، سوچ، نظریہ یا عمل کی حمایت کرکے اس کی ترویج کرسکتا ہے یا پھر تنقید کرنے سے اس کی اصلاح یا اس سے یکسر منحرف ہوجانے کا بھی حق رکھتا ہے۔

آزادیٔ رائے انسان کا بنیادی اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ حق شعورکو پروان چڑھا کر بہت ساری گتھیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے ابواب سے روشناس کرواتا ہے۔ اجتماعی شعور سے اخذ کی گئی متنوع قسم کی آراء جب باہم ملتی ہیں تو وہ اجتماعی مفاد پر متنج ہوتی ہیں۔ اختلافِ رائے کو قبول کرنے کی بنیاد یہ تسلیم کرنے میں ہے کہ لوگوں کا زاویہ نظر مختلف ہوتا ہے اوران کی جانب سے کسی بھی تصور کے حوالے سے کی جانے والی تشریح مختلف ہو سکتی ہے۔

''اظہارِ رائے کی آزادی''کا مفہوم تو یہ ہے کہ کسی کو بھی کھل کر اپنا نکتہ نظر بیان کرنے، سوال اٹھانے، اختلاف اور تنقیدکرنے کی اجازت ہے، لیکن کسی دوسرے کی تذلیل اورکردار کشی کرنے اور دوسروں پر تہمتیں لگا کر اس کو نقصان پہنچانے کی کسی کو اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق بجا ہے، لیکن یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ جہاں تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے ہی تذلیل کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اورکسی کی تذلیل کرنا ہر معاشرے میں برا عمل ہے۔

کئی لوگ تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کرجاتے ہیں اور نفرت انگیز مذہبی و سیاسی تقاریر کرنے، شرانگیز بیانات دینے، کسی کی عزت کو داغدارکرنے، کسی کی توہین و تحقیر اور تذلیل کرنے،کسی کے مذہب، مسلک، فرقے اورکسی کی محترم شخصیت پر انگلی اٹھانے کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ آزادی رائے کے اخلاقی حق کی کھلی خلاف ورزی اوران کی شعوری پستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دنیا کے کسی بھی معاشرے میں رائے کے اظہارکی ایسی آزادی نہیں دی جاتی، جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں۔ ہر معاشرے نے اپنے اپنے حالات کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر کی ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 1966ء میں پاس کی گئی ایک قرار داد (ICCPR) کے مطابق ضروری ہے کہ کوئی بھی ایسی تقریر یا تحریر جو کسی ملک میں رہنے والے کسی بھی فرد یا گروہ کی مذہبی، قومی یا نسلی مخالفت یا دل آزاری کا سبب بنے اور ان کے خلاف نفرت یا حقارت کا اظہارکرے تو اس ملک کا فرض ہے کہ اس کو روکے اور اس کے خلاف قانون سازی کرے، جب کہ متعدد یورپین ممالک میں آزادی اظہار رائے پر بہت سی پابندیاں ہیں۔

بیلجیئم میں ایک قانون کے مطابق کسی کو یہ رائے دینے کی اجازت نہیں ہے کہ ہولوکاسٹ نہیں ہوا تھا۔ اگر کوئی کسی بھی بنیاد پر ہولوکاسٹ سے انکار کرنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کے لیے قید اور جرمانے کی سزا ہے۔ کینیڈا میں بھی ہولوکاسٹ کے خلاف بات کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انگلینڈ، فرانس، جاپان، ہالینڈ، ناروے سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ قانون موجود ہے کہ کسی گروہ، نسل، مذہب کی تضحیک یا دل آزاری پر مبنی تقریر نہیں کی جا سکتی۔


بھارت کے آئین کے مطابق بھی کوئی ایسی تحریر یا تقریر جو بھارت کی سالمیت کے خلاف ہو، اخلاق یا مذہب کے خلاف ہو، عوام میں بے چینی پھلانے کی وجہ یا کسی کی ہتک کا باعث بنتی ہو یا کسی دوست ملک کے خلاف ہو تو اس پر پابندی بھی ہے اور اس پر سزا بھی دی جا سکتی ہے، لیکن اپنے قوانین کو بھول کر مغربی ممالک پاکستان اور مسلمانوں کو آزدی اظہار رائے کے بارے میں مشورے دیتے نظر آتے ہیں۔

یورپ کے دوغلے پن کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ جہاں خود اپنے شہریوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی نہیں ہے، وہاں آزادیٔ رائے کے اظہارکی دھجیاں اڑاتے ہوئے فریڈم آف اسپیچ کے نام پر شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا جاتا ہے، مقدس ہستیوں، پیغمبرِ اسلام کو معاذ اللہ برا بھلا کہا جاتا ہے، اسلام کی ہتک اور تذلیل کی جاتی ہے، اسلامی ہیروز کو ظالم بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور مسلمانوں، حجاب، قرآن، مساجد، اسلامی تعلیمات اور اسلامی شعار کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، جسے کسی طور بھی ''فریڈم آف اسپیچ'' نہیں کہا جا سکتا، بلکہ یہ ''فریڈم آف اسپیچ'' کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔

دوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے کو آزادی سمجھنے والے مغربی ممالک یہ الزام عاید کرتے ہیں کہ اسلام اظہار رائے کی آزادی کے خلاف ہے، لیکن حقیقت میں اسلام ہی نے سب سے پہلے انسانوں کو اظہار رائے کی آزادی دی۔ اسلام سے قبل روم و فارس میں لوگوں کو حکمرانوں کے خلاف ایک لفظ کہنے کی اجازت نہ تھی۔ اسلام نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر آزاد کروایا اور اعلان کیا کہ انسان آزاد پیدا ہوا ہے اور اسے آزادی سے زندگی گزارنے کا پورا حق حاصل ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں جب گورنر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے ایک شخص کوکوڑے مارے تو اس وقت حضرت عمر نے حضرت عمر و بن العاص سے فرمایا تھا: ''اے عمرو! تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا، جب کہ ان کی ماؤں نے ان کو آزاد جنا تھا۔''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پختہ رائے سازی اور اظہار راے کے تمام تر وسائل کی تعلیم دینے میں ایک شاندار نمونہ عطا کرتے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ مشاورت، مراجعت، گفتگو اور اپنی غیر موجودگی میں اجتہاد کی ترغیب بھی دی، جو آزادی اظہار رائے کی مضبوط دلیل ہے۔

راے کے اظہار کی آزادی کو اسلام محض ایک اختیاری حق قرار نہیں دیتا، بلکہ یہ اس کا فرض، ذمے داری اور امانت ہے، جسے ہر حال میں مسلمان کو ادا کرنا چاہیے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ''ظالم سلطان کے سامنے حق بات کہنا افضل جہاد ہے۔'' جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راے کے اظہار کی آزادی محض حق نہیں، بلکہ ذمے داری ہے، جسے ادا کرنا ضروری ہے، چاہے اس کی ادائی میں کچھ قربانیاں بھی دینا پڑیں۔ اگرکوئی شخص حکمرانوں میں بھی کوئی برائی دیکھے تو بھی اپنی رائے کا اظہار کرے، مگر رائے کی آزادی کے ساتھ اسلام نے انسان کو رائے دینے میں کچھ حدود کا پابند بھی کیا ہے۔

سورہ حجرات میں اظہار رائے کی حدود بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کسی کا تمسخر نہیں کر سکتا، کسی کی غیبت نہیں کر سکتا، کسی پر بہتان، الزام تراشی، یاکسی کی ذاتی زندگی کے عیب نہیں ٹٹول سکتا، حتی کہ کسی کو برے نام اور القاب سے نہیں پکار سکتا، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نے ہر معاملے میں انسان کو ایسے قوانین عطا کیے ہیں، جن پر عمل کیا جائے تو کسی بھی انسان کو تکلیف نہ پہنچے اور دنیا میں امن وسکون کا راج ہو۔
Load Next Story