اسپاٹ فکسنگ کمزور کیس چلانے کیلیے بیساکھیوں کی تلاش
ناصر جمشید سے اہم معلومات لینے کے پیش نظر ٹریبیونل کی کارروائی کو غیر ضروری طول دیا گیا، ذرائع
پی سی بی کو کمزور اسپاٹ فکسنگ کیس چلانے کیلیے بیساکھیوں کی تلاش ہے جبکہ بکیز سے رابطوں کا اعتراف کرنے والے محمد عرفان کا بیان دیگر کرکٹرز کیخلاف بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔
پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ابتدائی ملزمان شرجیل خان اور خالد لطیف کو پہلے میچ کے بعد معطل کرکے دبئی سے وطن واپس روانہ کردیا گیا، محمد عرفان، شاہ زیب حسن اور ذوالفقار بابر بھی شکوک کی زد میں آئے لیکن انھیں ایونٹ میں شرکت سے نہیں روکا گیا، شرجیل خان اور خالد لطیف کو پی ایس ایل کے دوران جبکہ محمد عرفان اور شاہ زیب حسن کو بعد میں چارج شیٹ جاری کی گئی۔ سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے ملزم ناصر جمشید انگلینڈ میں گرفتار ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے، ان کا پاسپورٹ مقامی حکام کی تحویل میں ہے، محمد عرفان نے بکیز کے رابطوں پر اطلاع نہ کرنے کی غلطی تسلیم کرلی، اس لیے ٹریبیونل میں جانے کی ضرورت نہیں پڑی، وہ اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر ایک سال کیلیے معطل ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق طویل قامت پیسر کا بیان دیگر کرکٹرز کیخلاف بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا الزامات سے انکار کرنے والے شرجیل خان 24مارچ کو ہی جسٹس (ر) اصغرحیدرکی سربراہی میں قائم ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوگئے تھے،کیس کو کسی نتیجے تک پہنچانے کیلیے طویل طریقہ کار طے کیا گیا، جس کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر باقاعدہ سماعت کا سلسلہ بھی 15مئی سے شروع ہوگا، اسی روز خالد لطیف کو بھی آنا تھا لیکن بیماری کی وجہ سے مہلت دیدی گئی، انھوں نے جمعے کو ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوکر الزامات سنے، معطل اوپنر کیلیے بھی کارروائی کا طویل طریقہ کار طے کیا ہے، بورڈ الزامات کی تفصیل اور شواہد 14اپریل کو جمع کرائے گا، خالدلطیف 5مئی کواپنا موقف دیں گے، روزانہ کی بنیاد پر باقاعدہ سماعت 19مئی سے شروع ہوگی۔
ذرائع کے مطابق ٹریبیونل میں جانے والے کرکٹرز کو زیادہ وقت دینے کی وجہ بھی ناصر جمشید سے تحقیقات کیلیے مواقع پیدا کرنا ہے، پی سی بی انگلینڈ میں موجود اوپنر سے پوچھ گچھ پر انحصار کر رہا ہے، ملوث کھلاڑیوں کے خلاف ثبوت بھی ناصر جمشید سے تحقیقات پر منحصر ہیں،انھوں نے ابھی تک بورڈ کیساتھ کوئی تعاون نہیں کیا، پاسپورٹ ضبط ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان نہیں آسکتے، جس کی وجہ سے کیس کمزور پڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، ناصرجمشید سے باز پرس کیلیے انگلینڈ میں پاکستانی سفارتخانے سے بھی مدد لی جا رہی ہے، اگر ممکن ہوا تو ان سے ہائی کمیشن کے دفتر میں ملاقات کی جائے گی، پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ کرنل(ر)اعظم خان اور جی ایم لیگل سلمان نصیر اگلے ہفتے انگلینڈ جائیں گے۔
دوسری جانب چیئرمین پی ایس ایل نجم سیٹھی کی باتوں سے بھی اسپاٹ فکسنگ کیس کی کمزور کڑیوں کی نشاندہی ہوتی ہے، ایک انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیاکہ کرپشن کو روکنے کیلیے برطانوی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اس کا کام باریک بینی سے میچز کا جائزہ لیتے ہوئے غیرمعمولی نوبال یا اس نوعیت کی سمیت کسی بھی مشکوک واقعے کی رپورٹ کرنا ہے،مگر وہ میچزکے دوران کسی بھی قسم کی کرپشن سرگرمی کا سراغ لگانے میں ناکام رہی، گوکہ برطانوی کمپنی کی حتمی رپورٹ ابھی آنا ہے تاہم انھوں نے چند میچز پر رپورٹ بنائی ہے، البتہ اس سے کسی غلط کام کی نشاندہی نہیں ہوئی، نجم سیٹھی نے مستقبل میں فکسنگ جیسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کیلیے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے مزید سیکیورٹی اہلکاروں کی خدمات لینے کی اجازت ملنے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ فرنچائزز کو بھی مزید سخت اقدامات کرنے کو کہا جائیگا۔
پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ابتدائی ملزمان شرجیل خان اور خالد لطیف کو پہلے میچ کے بعد معطل کرکے دبئی سے وطن واپس روانہ کردیا گیا، محمد عرفان، شاہ زیب حسن اور ذوالفقار بابر بھی شکوک کی زد میں آئے لیکن انھیں ایونٹ میں شرکت سے نہیں روکا گیا، شرجیل خان اور خالد لطیف کو پی ایس ایل کے دوران جبکہ محمد عرفان اور شاہ زیب حسن کو بعد میں چارج شیٹ جاری کی گئی۔ سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے ملزم ناصر جمشید انگلینڈ میں گرفتار ہونے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے، ان کا پاسپورٹ مقامی حکام کی تحویل میں ہے، محمد عرفان نے بکیز کے رابطوں پر اطلاع نہ کرنے کی غلطی تسلیم کرلی، اس لیے ٹریبیونل میں جانے کی ضرورت نہیں پڑی، وہ اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر ایک سال کیلیے معطل ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق طویل قامت پیسر کا بیان دیگر کرکٹرز کیخلاف بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے۔ دریں اثنا الزامات سے انکار کرنے والے شرجیل خان 24مارچ کو ہی جسٹس (ر) اصغرحیدرکی سربراہی میں قائم ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوگئے تھے،کیس کو کسی نتیجے تک پہنچانے کیلیے طویل طریقہ کار طے کیا گیا، جس کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر باقاعدہ سماعت کا سلسلہ بھی 15مئی سے شروع ہوگا، اسی روز خالد لطیف کو بھی آنا تھا لیکن بیماری کی وجہ سے مہلت دیدی گئی، انھوں نے جمعے کو ٹریبیونل کے سامنے پیش ہوکر الزامات سنے، معطل اوپنر کیلیے بھی کارروائی کا طویل طریقہ کار طے کیا ہے، بورڈ الزامات کی تفصیل اور شواہد 14اپریل کو جمع کرائے گا، خالدلطیف 5مئی کواپنا موقف دیں گے، روزانہ کی بنیاد پر باقاعدہ سماعت 19مئی سے شروع ہوگی۔
ذرائع کے مطابق ٹریبیونل میں جانے والے کرکٹرز کو زیادہ وقت دینے کی وجہ بھی ناصر جمشید سے تحقیقات کیلیے مواقع پیدا کرنا ہے، پی سی بی انگلینڈ میں موجود اوپنر سے پوچھ گچھ پر انحصار کر رہا ہے، ملوث کھلاڑیوں کے خلاف ثبوت بھی ناصر جمشید سے تحقیقات پر منحصر ہیں،انھوں نے ابھی تک بورڈ کیساتھ کوئی تعاون نہیں کیا، پاسپورٹ ضبط ہونے کی وجہ سے وہ پاکستان نہیں آسکتے، جس کی وجہ سے کیس کمزور پڑنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے، ناصرجمشید سے باز پرس کیلیے انگلینڈ میں پاکستانی سفارتخانے سے بھی مدد لی جا رہی ہے، اگر ممکن ہوا تو ان سے ہائی کمیشن کے دفتر میں ملاقات کی جائے گی، پی سی بی اینٹی کرپشن یونٹ کے سربراہ کرنل(ر)اعظم خان اور جی ایم لیگل سلمان نصیر اگلے ہفتے انگلینڈ جائیں گے۔
دوسری جانب چیئرمین پی ایس ایل نجم سیٹھی کی باتوں سے بھی اسپاٹ فکسنگ کیس کی کمزور کڑیوں کی نشاندہی ہوتی ہے، ایک انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیاکہ کرپشن کو روکنے کیلیے برطانوی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، اس کا کام باریک بینی سے میچز کا جائزہ لیتے ہوئے غیرمعمولی نوبال یا اس نوعیت کی سمیت کسی بھی مشکوک واقعے کی رپورٹ کرنا ہے،مگر وہ میچزکے دوران کسی بھی قسم کی کرپشن سرگرمی کا سراغ لگانے میں ناکام رہی، گوکہ برطانوی کمپنی کی حتمی رپورٹ ابھی آنا ہے تاہم انھوں نے چند میچز پر رپورٹ بنائی ہے، البتہ اس سے کسی غلط کام کی نشاندہی نہیں ہوئی، نجم سیٹھی نے مستقبل میں فکسنگ جیسے ناخوشگوار واقعات کی روک تھام کیلیے بورڈ آف گورنرز کی جانب سے مزید سیکیورٹی اہلکاروں کی خدمات لینے کی اجازت ملنے کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہاکہ فرنچائزز کو بھی مزید سخت اقدامات کرنے کو کہا جائیگا۔