کڑی سے کڑی
اب جو صورتحال چائنا کوریڈور کی وجہ سے نظر آرہی ہے، اس میں چند ممالک اس کو اپنی معیشت کا دھچکا محسوس کررہے ہیں
ISLAMABAD:
پاکستان کو سرحدی و داخلی طور پر غیر محفوظ بنانے میں وسطی اور جنوبی ایشیا میں برپا رہنے والے آپس کے سیاسی تناؤ کا بھی کردار ہے، جن میں اول الذکر ہندوستان، افغانستان، دوئم سعودی عرب، شام، ایران اور یمن سبھی کا نام لیا جاسکتا ہے، تجزیوں سے ہٹ کر حقیقت بھی آشکار نظر آتی ہے، کیونکہ ان عوامل کا پس منظر دیکھنا ضروری ہے۔
عرب دنیا اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات کے عالمی مضمرات و پیچیدگیاں کیا رنگ لاتی رہی ہیں اور آیندہ مستقبل قریب میں کیا ہوسکتا ہے؟ مثال کے طور پر ہندوستان ہو یا افغانستان اپنے اندر کے معاملات کو بگڑتا دیکھ کر قوم کو یکجا کرنے کے لیے پاکستان سے جڑی سرحد پر تناؤ پیدا کرنے کو ہی بہتر حل سمجھتے ہیں۔ گو کہ یہ سودا نہ صرف ان کو خود بھی مہنگا پڑتا بلکہ پاکستان کو بھی اپنے تحفظ کے لیے اس ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنا پڑتی رہی ہے۔ خفیہ کاری (پراکسی) کے کھیل میں مفادات کے لیے زمین اداروں، افراد، مذہب، اور فرقوں کو کس طرح ماضی میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کام آج بھی جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہنے کے امکانات معدوم ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
افغانستان دراندازی کرنے والوں کی پرورش اور پناہ گاہوں کو اپنا تحفظ گردانتا ہے۔ اس کے 75 فیصد حصے پر جنگجوؤں کا قبضہ ہے اور وہاں کی حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے صرف نظر کرکے پاکستان مخالف قوتوں کو تقویت دینے میں دہشت گردوں کی معاونت فراہم کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب ایک اسلامی ملک امریکا کی سپرپاور بننے کی روش کو اپناتے اور نقش پا پر چلتے ہوئے گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمان ملکوں کا سربراہ بننے کے کئی طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ ان میں اول اپنے ملک کا کاروبار زندگی چلانے کے لیے کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے افرادی قوت کا حصول لیکن دیگر ممالک سے ہٹ کر پاکستان کے ساتھ ایک جداگانہ تعلق یہ بھی قائم کیا کہ ایک دوسری اسلامی مملکت سے اختلافات ہوئے جب کہ اسلام کا کوئی مخصوص لباس نہیں، لیکن فیشن کے طور پر ایسے ملبوسات کے نام نہاد پہناوے پہنے جانے لگے، جن کا پاکستان کی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور خصوصی طور پر عبائیوں کی مقبولیت۔ جب کہ ہماری آنکھ کی حیا اور دوپٹے کا آنچل پردے کے لیے کافی ہے۔
ان ہی چیزوں کے جواب میں دوسری اسلامی مملکت نے بھی بڑی بڑی چادروں کو اپنی پہچان بنانے کے لیے رواج دینا شروع کیا اور اس داغ بیل نے ہماری سرزمین پر خاموش جنگ کو چھیڑ دیا، جس میں وہ خود تو آمنے سامنے نہیں تھے، نہ ان کی زمین استعمال ہورہی تھی، البتہ پاکستان میں بسے مختلف فکر رکھنے والے لوگوں نے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنایا اور یوں قومی اور ملی ہم آہنگی کے بجائے نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوگئیں، جس کی وجہ سے آپس میں مضبوط کڑیوں میں بندھے رشتے بکھرنا شروع ہوگئے، جس کے نتیجے میں مسجدیں، امام بارگاہیں اور دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہ رہیں۔
1977 کے ایک ڈکٹیٹر نے اپنے دور حکومت میں غیر ضروری طور پر ایسی کمزوریاں پیدا کردیں کہ قوم فقوں کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر رہ گئی، جس کا خمیازہ عوام نے بھگتا اور اس سے نکلنے کے لیے عسکری توانائیوں کا سہارا لینا پڑا، جن کے ذمے اب سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرونی معاملات کو بھی سنبھالنا ہے اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ جب ایک ملک نے یمن کا ساتھ دیا اور دوسرے نے شام کا تو وہاں بھی جو لوگ یمن کی جانب سے ہراول دستہ بنے، ان کا جذباتی لگاؤ تو اسلام سے تھا لیکن قوت بازو کسی اور کا بنے، اور اسی طرح شام کی جانب سے لڑنے والے بھی اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ایک بڑی اور اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ دونوں طرف سے لڑنے والے یہ لوگ پاکستانی ہیں، جو روٹی روزی کی تلاش میں سرگرداں تھے اور وطن عزیز میں بہتر روزگار نہ ملنے کے باعث پریشان، بھوک اور جذبہ دونوں لیے سر پہ کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوئے، توانائیاں کس کی گئیں؟ کیا ایسی جنگیں اسلام کے لیے ہیں؟ کیا ایسے اقدامات انسانیت کی بقا کے لیے ہیں؟
اگر ان میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تو قوم کو کھلا راستہ کیوں دیا گیا؟ جو محب وطن پاکستانی ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی فرقے اور طبقے سے ہو، ستر سال میں بھی یہ بنیادی حقوق سے محروم انسان کب تک ان کھیلوں کا حصہ بنتا رہے گا؟ اس کو اپنے گھر جیسا سکون کب ملے گا؟ کئی نسلیں ختم ہوگئیں اور اب جب کہ پھر آیندہ آنے والے کچھ مہینوں میں جو صورتحال بنتی دکھائی دے رہی ہے وہ غور طلب ہے۔ کچھ ممالک سی پیک کے منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے اور ہمارے سمندری راستوں میں رکاوٹ کے لیے کوشاں ہیں۔
ملک کی بحری، بری اور فضائی طاقت کو یقیناً ایسے میں پوری توجہ اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم ہم آہنگی قوم کی یکجہتی سے نکلتی ہے، بکھری ہوئی توجہ اور شورش زدہ ماحول، غیر محفوظ انسان اس کے مانع نظر آتا ہے۔ فرد اور معاشرہ غدار نہ بھی ہو، لیکن وہ طاقت نہیں بن سکتا، جو ایک مضبوط و مستحکم قوم کی اکائی ہے۔ ایک تو ملک میں بسی مختلف قومیتوں اور فرقوں میں یگانگت ختم ہونے سے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا، دوسری جانب معیشت کی تباہ کاری نے بھی تہی دست لوگوں کو چوری سے آگے کے راستے دکھائے، حتیٰ کہ چھپ کر چوری کرنے والے اب ناپید ہوچکے، بلکہ دھڑلے سے منہ سے مانگنا، زبردستی ہتھیانا تو حق سمجھ لیا ہے، جرم چھوٹا ہو یا بڑا، تمام کڑیاں ایک دوسرے سے جاکر ملتی ہیں، جہاں معاشرے میں تحفظ کا فقدان نظر آتا ہے۔
پوری قوم حالات کے غیر متوازن افکار میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ ایک طرف ایٹمی طاقت کے سبب سرحدوں کو محفوظ بننے پر فخر، تو دوسری طرف خوف کا یہ عالم کہ موٹے موٹے لوہے کے کھڑکیاں دروازے اور ساتھ ہی چھت سے زمین تک لگی ہوئی لوہے کی جالیوں اور گِرلوں نے گھروں کو پنجروں میں تبدیل کردیا ہے۔ گو پاکستان چائنا کوریڈور کے ذریعے معیشت کی بہتری چاہتا ہے، پر اس کی بہتری امن سے مشروط ہے، اور ان افراد کے رویوں سے امن قائم ہوتا ہے۔
اب جو صورتحال چائنا کوریڈور کی وجہ سے نظر آرہی ہے، اس میں چند ممالک اس کو اپنی معیشت کا دھچکا محسوس کررہے ہیں، جب کہ ایسا ہرگز نہیں۔ ان حالات میں ان ممالک کو دوسری قوتوں کے ساتھ منصوبے بنانے کے بجائے پاکستان سے ہاتھ ملانا چاہیے، ایسے میں حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینا ضروری ہے، جس میں ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے کہ دشمن کم اور دوست زیادہ ہوں اور ہماری زمین اتنی نرم نہ ہو جس پر کوئی بیج ڈال کر اپنی مرضی کے پھول کھلانا چاہے۔
اس کے لیے ہمیں ایک مضبوط قوم بننا ضروری ہے اور ہر فرد کی بھی علیحدہ علیحدہ ذمے داری ہے کہ پاکستان کی اپنی زبان اردو پر فخر اور ثقافتوں خواہ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پختون، بلوچی ہوں یا ہجرت کرکے آنے والے مہاجر، سب ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں تاکہ کوئی بیرونی دشمن ہمارے درمیان راستہ نہ بناسکے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ اس معاشی حل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اس کے سائیڈ ایفیکٹس کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس میں کسی قوم کی کوئی حق تلفی تو نہیں ہورہی، جس کے باعث توانائی میں کمی آنے کا اندیشہ ہو۔ معاشرے کی ہر اکائی اور کڑی ہماری توانائی سے جڑی ہوتی ہے۔
پاکستان کو سرحدی و داخلی طور پر غیر محفوظ بنانے میں وسطی اور جنوبی ایشیا میں برپا رہنے والے آپس کے سیاسی تناؤ کا بھی کردار ہے، جن میں اول الذکر ہندوستان، افغانستان، دوئم سعودی عرب، شام، ایران اور یمن سبھی کا نام لیا جاسکتا ہے، تجزیوں سے ہٹ کر حقیقت بھی آشکار نظر آتی ہے، کیونکہ ان عوامل کا پس منظر دیکھنا ضروری ہے۔
عرب دنیا اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات کے عالمی مضمرات و پیچیدگیاں کیا رنگ لاتی رہی ہیں اور آیندہ مستقبل قریب میں کیا ہوسکتا ہے؟ مثال کے طور پر ہندوستان ہو یا افغانستان اپنے اندر کے معاملات کو بگڑتا دیکھ کر قوم کو یکجا کرنے کے لیے پاکستان سے جڑی سرحد پر تناؤ پیدا کرنے کو ہی بہتر حل سمجھتے ہیں۔ گو کہ یہ سودا نہ صرف ان کو خود بھی مہنگا پڑتا بلکہ پاکستان کو بھی اپنے تحفظ کے لیے اس ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنا پڑتی رہی ہے۔ خفیہ کاری (پراکسی) کے کھیل میں مفادات کے لیے زمین اداروں، افراد، مذہب، اور فرقوں کو کس طرح ماضی میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کام آج بھی جاری ہے اور آیندہ بھی جاری رہنے کے امکانات معدوم ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
افغانستان دراندازی کرنے والوں کی پرورش اور پناہ گاہوں کو اپنا تحفظ گردانتا ہے۔ اس کے 75 فیصد حصے پر جنگجوؤں کا قبضہ ہے اور وہاں کی حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے صرف نظر کرکے پاکستان مخالف قوتوں کو تقویت دینے میں دہشت گردوں کی معاونت فراہم کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
دوسری جانب ایک اسلامی ملک امریکا کی سپرپاور بننے کی روش کو اپناتے اور نقش پا پر چلتے ہوئے گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلمان ملکوں کا سربراہ بننے کے کئی طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ ان میں اول اپنے ملک کا کاروبار زندگی چلانے کے لیے کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک سے افرادی قوت کا حصول لیکن دیگر ممالک سے ہٹ کر پاکستان کے ساتھ ایک جداگانہ تعلق یہ بھی قائم کیا کہ ایک دوسری اسلامی مملکت سے اختلافات ہوئے جب کہ اسلام کا کوئی مخصوص لباس نہیں، لیکن فیشن کے طور پر ایسے ملبوسات کے نام نہاد پہناوے پہنے جانے لگے، جن کا پاکستان کی ثقافت سے کوئی تعلق نہیں تھا، اور خصوصی طور پر عبائیوں کی مقبولیت۔ جب کہ ہماری آنکھ کی حیا اور دوپٹے کا آنچل پردے کے لیے کافی ہے۔
ان ہی چیزوں کے جواب میں دوسری اسلامی مملکت نے بھی بڑی بڑی چادروں کو اپنی پہچان بنانے کے لیے رواج دینا شروع کیا اور اس داغ بیل نے ہماری سرزمین پر خاموش جنگ کو چھیڑ دیا، جس میں وہ خود تو آمنے سامنے نہیں تھے، نہ ان کی زمین استعمال ہورہی تھی، البتہ پاکستان میں بسے مختلف فکر رکھنے والے لوگوں نے ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنایا اور یوں قومی اور ملی ہم آہنگی کے بجائے نفرتوں کی دیواریں کھڑی ہوگئیں، جس کی وجہ سے آپس میں مضبوط کڑیوں میں بندھے رشتے بکھرنا شروع ہوگئے، جس کے نتیجے میں مسجدیں، امام بارگاہیں اور دیگر اقلیتوں کی عبادت گاہیں بھی محفوظ نہ رہیں۔
1977 کے ایک ڈکٹیٹر نے اپنے دور حکومت میں غیر ضروری طور پر ایسی کمزوریاں پیدا کردیں کہ قوم فقوں کے نام پر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر رہ گئی، جس کا خمیازہ عوام نے بھگتا اور اس سے نکلنے کے لیے عسکری توانائیوں کا سہارا لینا پڑا، جن کے ذمے اب سرحدوں کے ساتھ ساتھ اندرونی معاملات کو بھی سنبھالنا ہے اور بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ جب ایک ملک نے یمن کا ساتھ دیا اور دوسرے نے شام کا تو وہاں بھی جو لوگ یمن کی جانب سے ہراول دستہ بنے، ان کا جذباتی لگاؤ تو اسلام سے تھا لیکن قوت بازو کسی اور کا بنے، اور اسی طرح شام کی جانب سے لڑنے والے بھی اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ لیکن ایک بڑی اور اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ دونوں طرف سے لڑنے والے یہ لوگ پاکستانی ہیں، جو روٹی روزی کی تلاش میں سرگرداں تھے اور وطن عزیز میں بہتر روزگار نہ ملنے کے باعث پریشان، بھوک اور جذبہ دونوں لیے سر پہ کفن باندھ کر نکل کھڑے ہوئے، توانائیاں کس کی گئیں؟ کیا ایسی جنگیں اسلام کے لیے ہیں؟ کیا ایسے اقدامات انسانیت کی بقا کے لیے ہیں؟
اگر ان میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تو قوم کو کھلا راستہ کیوں دیا گیا؟ جو محب وطن پاکستانی ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی فرقے اور طبقے سے ہو، ستر سال میں بھی یہ بنیادی حقوق سے محروم انسان کب تک ان کھیلوں کا حصہ بنتا رہے گا؟ اس کو اپنے گھر جیسا سکون کب ملے گا؟ کئی نسلیں ختم ہوگئیں اور اب جب کہ پھر آیندہ آنے والے کچھ مہینوں میں جو صورتحال بنتی دکھائی دے رہی ہے وہ غور طلب ہے۔ کچھ ممالک سی پیک کے منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنے اور ہمارے سمندری راستوں میں رکاوٹ کے لیے کوشاں ہیں۔
ملک کی بحری، بری اور فضائی طاقت کو یقیناً ایسے میں پوری توجہ اور توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، تاہم ہم آہنگی قوم کی یکجہتی سے نکلتی ہے، بکھری ہوئی توجہ اور شورش زدہ ماحول، غیر محفوظ انسان اس کے مانع نظر آتا ہے۔ فرد اور معاشرہ غدار نہ بھی ہو، لیکن وہ طاقت نہیں بن سکتا، جو ایک مضبوط و مستحکم قوم کی اکائی ہے۔ ایک تو ملک میں بسی مختلف قومیتوں اور فرقوں میں یگانگت ختم ہونے سے عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا، دوسری جانب معیشت کی تباہ کاری نے بھی تہی دست لوگوں کو چوری سے آگے کے راستے دکھائے، حتیٰ کہ چھپ کر چوری کرنے والے اب ناپید ہوچکے، بلکہ دھڑلے سے منہ سے مانگنا، زبردستی ہتھیانا تو حق سمجھ لیا ہے، جرم چھوٹا ہو یا بڑا، تمام کڑیاں ایک دوسرے سے جاکر ملتی ہیں، جہاں معاشرے میں تحفظ کا فقدان نظر آتا ہے۔
پوری قوم حالات کے غیر متوازن افکار میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ ایک طرف ایٹمی طاقت کے سبب سرحدوں کو محفوظ بننے پر فخر، تو دوسری طرف خوف کا یہ عالم کہ موٹے موٹے لوہے کے کھڑکیاں دروازے اور ساتھ ہی چھت سے زمین تک لگی ہوئی لوہے کی جالیوں اور گِرلوں نے گھروں کو پنجروں میں تبدیل کردیا ہے۔ گو پاکستان چائنا کوریڈور کے ذریعے معیشت کی بہتری چاہتا ہے، پر اس کی بہتری امن سے مشروط ہے، اور ان افراد کے رویوں سے امن قائم ہوتا ہے۔
اب جو صورتحال چائنا کوریڈور کی وجہ سے نظر آرہی ہے، اس میں چند ممالک اس کو اپنی معیشت کا دھچکا محسوس کررہے ہیں، جب کہ ایسا ہرگز نہیں۔ ان حالات میں ان ممالک کو دوسری قوتوں کے ساتھ منصوبے بنانے کے بجائے پاکستان سے ہاتھ ملانا چاہیے، ایسے میں حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینا ضروری ہے، جس میں ایسی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے کہ دشمن کم اور دوست زیادہ ہوں اور ہماری زمین اتنی نرم نہ ہو جس پر کوئی بیج ڈال کر اپنی مرضی کے پھول کھلانا چاہے۔
اس کے لیے ہمیں ایک مضبوط قوم بننا ضروری ہے اور ہر فرد کی بھی علیحدہ علیحدہ ذمے داری ہے کہ پاکستان کی اپنی زبان اردو پر فخر اور ثقافتوں خواہ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پختون، بلوچی ہوں یا ہجرت کرکے آنے والے مہاجر، سب ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں تاکہ کوئی بیرونی دشمن ہمارے درمیان راستہ نہ بناسکے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ اس معاشی حل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اس کے سائیڈ ایفیکٹس کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس میں کسی قوم کی کوئی حق تلفی تو نہیں ہورہی، جس کے باعث توانائی میں کمی آنے کا اندیشہ ہو۔ معاشرے کی ہر اکائی اور کڑی ہماری توانائی سے جڑی ہوتی ہے۔