مگر ایدھی کی خواہش

ایدھی 80 سال سے زیادہ عرصہ زندہ رہے، شدید علالت میں بھی کام جاری رکھا اور آخر مر گئے


Saeed Parvez April 03, 2017

ایدھی کو ساری انسانیت جانتی ہے۔ مردوں کی ٹوپیاں پہنتے تھے، مرنے والوں کی چپلیں پہنتے تھے، صرف دو جوڑے کپڑے وہ بھی ملیشیا کے، ایک پہنتے دوسرا دھو لیتے، کپڑے اس وقت تک پہنتے جب تک وہ بوسیدہ نہ ہوجاتے۔

ایدھی 80 سال سے زیادہ عرصہ زندہ رہے، شدید علالت میں بھی کام جاری رکھا اور آخر مر گئے۔ ساری دنیا روئی، آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ انھیں اپنے گھر میں سپرد خاک کردیا گیا۔ وہ گھر جہاں ان کے ہزاروں بچے رہتے تھے۔ جب ایدھی گھر آتے تو ان کے بچے ''ابو آگئے، ابو آگئے'' کہتے ہوئے کمروں سے باہر آجاتے اور پھر ایدھی ان کے ساتھ لاڈ دلار میں لگ جاتے۔

ایدھی کو زندگی ہی میں ''بڑا انسان'' تسلیم کرلیا گیا تھا۔ دنیا بھر کے فلاحی اداروں نے انھیں ایوارڈز سے نوازا۔ بڑے بڑے اعزازات انھیں دیے گئے۔ ان کی وفات کے بعد پاکستان کے ''حکمرانوں'' نے بھی ایدھی کی توقیر و منزلت میں حدیں ''مُکا'' دیں۔ ملک کے بڑے چھوٹے شہروں میں سڑکوں کے نام، پارکوں کے نام، اداروں کی عمارتوں کے نام، دوبارہ یادگاری ٹکٹ (ڈاک) کا اجرا اور آخری خبر کے مطابق ''حکمرانوں'' نے 50روپے مالیت کا یادگاری سکہ ایدھی کے نام پر جاری کردیا ہے۔ میں وضاحت کردوں کہ ''حکمرانوں'' سے مراد کسی مخصوص عہد کے حکمران نہیں ہیں۔ اب تک حکمرانی کرنے والے سبھی حکمران مراد ہیں۔

حکمرانوں نے تو جو کچھ کرنا تھا وہ یہی سب کچھ جو انھوں نے کردیا اور آیندہ بھی کرتے رہیں گے۔ آنے والے ہر دور کے حکمران ضرورتاً ایدھی کو یاد کرتے رہیں گے۔ مگر ایدھی کیا چاہتے تھے، ان کی تمنا ان کی خواہش کیا تھی، وہ ملک کو کیا دیکھنا چاہتے تھے؟ ایدھی کی تمنائیں، ان کی خواہشات، ان کے خواب، یہ سب کچھ ''حکمرانوں'' کے لیے پورا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ بس یہ حکمران (آنے والے بھی) مفلوک الحال انسانوں کو ایسی ہی کھٹی میٹھی گولیاں دیتے رہیں گے۔

اب میں ایدھی کی تمنائیں، خواہشات اور خواب لیے غریبوں کے پاس آجاتا ہوں۔ کیونکہ یہی غریب، ہاری، مزدور، کسان ایدھی کی تمنائیں، خواہشات اور خواب پورے کرسکتے ہیں۔ اگر یہ چاہیں تب۔

کل رات ہی لاہور اور ملتان شریف میں پانچ دن کاٹ کے آیا ہوں۔ ملتان شریف میں وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی آئے ہوئے تھے، ملتان شریف کی سڑکیں، پل، انڈرپاس، لاہور جیسے بن گئے ہیں، وزیر اعلیٰ نے لودھراں بھی جانا تھا۔ اخبارات میں پورے پورے صفحے کے عالی شان استقبالی اپیل کے اشتہارات شایع ہوئے۔

لودھراں کے سب سے بڑے جاگیردار خاندان ''کانجو'' کے موجودہ ''بڑے'' وزیر اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف کے شاہانہ استقبال کے لیے بے چین و بے قرار نظر آرہے تھے۔ ''میاں صاحب'' نے لودھراں سے خاصی لمبی سڑک کی تعمیر کا افتتاحی پتھر لگانا تھا۔ جاگیرداروں کی رعایا نے تالیاں پیٹنی تھیں ۔ میں ملتان شریف ہی میں تھا کہ اخبار میں اندر کے صفحے پر ایک چھوٹی سی خبر اور رنگین تصویر تھی، کچھ غریب لوگ اپنے شاعر حبیب جالب کی سالگرہ کا کیک کاٹ رہے تھے۔ ایک طرف پورے صفحے کے عالی شان اشتہار، دوسری تصویر جالب کی یاد میں چند لوگوں کا جمع ہونا۔

اتنا فرق ہے، اتنا طویل سفر ابھی باقی ہے۔ پھر کہیں ایدھی کے خوابوں کی تعبیر دیکھنے کو ملے گی۔ یہ ایدھی آخر چاہتے کیا تھے، یہی کہ

اور کیا اس کے سوا چاہتے ہیں
نوع انساں کا بھلا چاہتے ہیں

2009 میں جب ایدھی ''حبیب جالب امن ایوارڈ'' لینے پریس کلب کراچی آئے تو پریس کلب کے باہر غریب سندھی عورتوں، مردوں کو بیٹھے دیکھ کر ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ وہ غریب بے چارے اپنے علاقے کے وڈیرے کے ظلم و ستم کی داستانیں ایدھی کو سنانے لگے۔ میں بھی قریب بیٹھا تھا ایدھی ان غریب ہاریوں، مزدوروں سے کہہ رہے تھے ''اپنے ظالم وڈیرے کے خلاف کھڑے ہوجاؤ۔''

اس روز انھوں نے ایوارڈ وصول کرنے کے بعد اپنی تقریر میں کہا ''میں خونی انقلاب دیکھ رہا ہوں، کیونکہ ظالموں سے نجات کا یہی ایک راستہ رہ گیا ہے۔'' اور میں بھی ایدھی کے قافلے کا ایک ساتھی، اس آس پر سفر جاری رکھے ہوئے ہوں۔ بلا سے ہم نہیں دیکھیں، مگر اس انقلاب کو لازمی آنا ہی آنا ہے۔ اور لوگ دیکھیں گے، جو اس انقلاب کے لانے والے ہوں گے۔

ایدھی یہی تو چاہتے تھے۔ جو جالب بھی چاہتا تھا۔ 2009 کا ''حبیب جالب امن ایوارڈ'' لیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا ''مجھے دنیا بھر سے بڑے بڑے ایوارڈ ملے، مگر مجھے یہ والا ایوارڈ ضرور لینا تھا، کیونکہ حبیب جالب بھی میرے جیسا ''پھکیر'' (فقیر) آدمی تھا۔'' آج ایدھی سینٹر کھارادر میں ایدھی کے کمرے میں ایک ہی تصویر لگی ہوئی ہے، اپنے جیسے پھکیر (فقیر) حبیب جالب کی۔

حکمرانو! موجودہ کیا، آنے والو، سن لو... چند سڑکیں یا چند مقامات نہیں پورا ملک پاکستان، اس کا چپہ چپہ ایدھی کے نام ہے۔ فراق گورکھپوری کا شعر ہے:

بھولیں اگر تجھے تو کدھر جائیں! کیا کریں!

ہر رہ گزر پہ تیرے گزرنے کا حسن ہے

ایدھی کروڑوں انسانوں کے ہیں، ہر دل میں ایدھی ہے، ہر سینے میں ایدھی دھڑک رہا ہے۔ بالآخر''اندھیرے چھٹ جائیں گے، یہ راستے کٹ جائیں گے۔''

آج بھی اپنا ہے
اور کل بھی ہمارا ہوگا

بات ختم کرتا ہوں، جالب کے دو مصرعے پڑھ لیں:

یہ اہل حشم' یہ دارا و جم' سب نقش بر آب ہیں اے ہمدم
مٹ جائینگے سب پروردۂ شب' اے اہلِ وفا رہ جائیں گے ہم

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں