گڈ گورننس اور حقائق
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک میں گڈ گورننس نہیں ہے
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ملک میں گڈ گورننس نہیں ہے۔ منظور نظر افراد کو نوازنے سے ادارے کمزور ہو رہے ہیں۔ گڈ گورننس اور اداروں کی مضبوطی ہی کسی ملک کو مضبوط بنانے کے لیے پہلی شرط ہے۔ جب تک یہ شرط پوری نہیں ہوگی کوئی ملک ترقی کرنا تو درکنار اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ گڈ گورننس اور اداروں کی مضبوطی نہ ہو تو ملک کی سلامتی کسی بھی وقت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
پاکستان کو ماضی میں اس کا تلخ ترین تجربہ ہو چکا ہے کہ جب پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس امیر ہانی مسلم کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقعہ پر انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی معاشرے کی معاشی، سیاسی، سماجی ترقی کی بنیاد ہے۔ حکومتی اداروں میں استحصال اور منظور نظر افراد کو نوازنے کی مثالیں موجود ہیں جو ملازمین کے بنیادی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہی ہیں۔
ملک میں گڈ گورننس موجود نہ ہونے کی اصل وجہ ملکی اداروں میں منظور نظر افراد کو نوازنا ہے اور یہی عمل ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا قانون کی حکمرانی صرف انفرادی حقوق کے تحفظ اور جھگڑوں کے حل تک محدود نہیں بلکہ اس میں آزاد اور مؤثر عدلیہ، اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا اور قانون کی پابندی کرنے والی حکومت بھی شامل ہے۔چیف جسٹس نے بالکل درست کہا کہ قانون کی حکمرانی ہی کسی معاشرے کی معاشی سیاسی سماجی ترقی کی بنیاد بنتی ہے۔
حقیقت بھی یہی کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں کبھی قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوئی۔ جو بھی حکمران آیا اس نے اپنی مرضی کے قوانین بنائے اور اپنے منظور نظر افراد کو نوازا۔ جب عوام نے دیکھا کہ حکمران قانون کو توڑ رہے ہیں تو حکمرانوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بھی اس کو اپنی عادت بنا لیا۔ انہیں بھی جب موقعہ ملا قانون توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس طرح ہمارے معاشرے میں انتشار پھیل گیا۔ سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ ذاتی مفاد ترجیح اور قومی مفاد نظر انداز ہو گیا۔
قانون توڑنے کی بیماری معاشرے میں اوپر سے نیچے تک سرایت کر گئی ہے۔ اب ہم بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کہ اس بیماری کا خاتمہ کیسے ہو۔ سب کی کوشش اور خواہش یہی ہے کہ دوسرا تو قانون پر ہر صورت عمل کر لے لیکن ان کی اپنی ذات قانون کی پابندی سے مبرا ہوا۔ پاکستان اسی وجہ سے خوفناک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے۔ قانون کی پابندی نہ کرنا اور کرپشن پورے قومی وجود کو کھائے جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا سرطان ہے جو پاکستان کے پورے وجود میں پھیل چکا ہے۔
قانون کی حکمرانی قائم نہ ہونے سے میرٹ متاثر ہوتا ہے اور نااہل سفارشی افراد حکومت کے تمام اداروں میں اوپر آ جاتے ہیں۔ جن کا ایک ہی کام حکمرانوں کی چاپلوسی کرنا ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر غیر قانونی ناجائز کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں میرٹ نظر انداز اور سفارش رشوت کا دور دورہ ہو جاتا ہے اور اہل افراد اپنی قسمت کو کوستے رہ جاتے ہیں۔
صرف یہی نہیں جو اہل افراد حکمرانوں کے غیر قانونی ناجائز کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے انہیں عبرت کا نشان بنا کر سالہا سال تک کھڈے لائن لگا دیا اور دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح بچے کھچے اہل افراد کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ بھی کرپٹ اور نااہل افراد کے نقش قدم پر چلیں۔ اس طرح معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور دیانتداری عنقا ہوئی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور اقربا پروری ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر مضبوط معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف افراد کا ہی نہیں بلکہ حکومت کا بھی قانون کے تابع رہنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومتی اداروں میں منظور نظر افراد کو نوازنے کی مثالیں موجود ہیں جو ملازمین کے بنیادی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہی ہیں۔ حکمرانوں کی میرٹ پر عمل نہ کرنے کی قبیح عادت نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ دل کے امراض اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ ذہنی و نفسیاتی مریض بن کر رہ گئے جس کا اثر ان کی ذاتی و گھریلو زندگی پر بھی پڑا۔
حکمرانوں کی دیکھا دیکھی اداروں کے سربراہوں اور سینئر اسٹاف نے ماتحت عملے کی اے سی آرز کو ان کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ صرف نااہل نکمے افراد کو ترقی دی جاتی ہے، اہل افراد منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں فیڈرل سلیکشن بورڈ کی طرف سے کی گئی بہت سی افسران کی ترقیاں سپریم کورٹ جج صاحب نے یہ کہہ کر منسوخ کر دیں کہ یہ ترقیاں سفارش پر مبنی تھیں۔ انہوں نے سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک اجنبی کا اس اجلاس میں کیا کام۔
سپریم کورٹ نے آؤٹ آف ٹرن پرموشنز کے خلاف فیصلہ پر عمل درآمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے انسپکٹر سے ڈی آئی جی تک 121 افسران کی تنزلی کا حکم دے دیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں فل بنچ نے مختصر حکم سناتے ہوئے کہا کہ یہ افسران بتائیں کے انہیں فیصلہ لینا ہے یا ریٹائرمنٹ۔ جو لوگ چھلانگ لگا کر آئے ہیں انہیں واپس جانا ہو گا جس کی باری ہو گی اسے ہی آگے آنا چاہیے۔ میرٹ اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ ایک طرف حکمرانوں کے گڈ گورننس کے دعوے دیکھیں دوسری طرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریمارکس کہ ملک میں گڈ گورننس نہیں۔
٭... آرمی چیف اپریل تا جولائی اگست اہم فیصلے کریں گے۔
سیل فون:0346-4527997۔
پاکستان کو ماضی میں اس کا تلخ ترین تجربہ ہو چکا ہے کہ جب پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی۔ چیف جسٹس عدالت عظمیٰ کے سبکدوش ہونے والے جج جسٹس امیر ہانی مسلم کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقعہ پر انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی معاشرے کی معاشی، سیاسی، سماجی ترقی کی بنیاد ہے۔ حکومتی اداروں میں استحصال اور منظور نظر افراد کو نوازنے کی مثالیں موجود ہیں جو ملازمین کے بنیادی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہی ہیں۔
ملک میں گڈ گورننس موجود نہ ہونے کی اصل وجہ ملکی اداروں میں منظور نظر افراد کو نوازنا ہے اور یہی عمل ریاستی اداروں کو کمزور کرتا ہے۔ انہوں نے کہا قانون کی حکمرانی صرف انفرادی حقوق کے تحفظ اور جھگڑوں کے حل تک محدود نہیں بلکہ اس میں آزاد اور مؤثر عدلیہ، اختیارات کے غلط استعمال کو روکنا اور قانون کی پابندی کرنے والی حکومت بھی شامل ہے۔چیف جسٹس نے بالکل درست کہا کہ قانون کی حکمرانی ہی کسی معاشرے کی معاشی سیاسی سماجی ترقی کی بنیاد بنتی ہے۔
حقیقت بھی یہی کہ پاکستان کی پوری تاریخ میں کبھی قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوئی۔ جو بھی حکمران آیا اس نے اپنی مرضی کے قوانین بنائے اور اپنے منظور نظر افراد کو نوازا۔ جب عوام نے دیکھا کہ حکمران قانون کو توڑ رہے ہیں تو حکمرانوں کو دیکھتے ہوئے انہوں نے بھی اس کو اپنی عادت بنا لیا۔ انہیں بھی جب موقعہ ملا قانون توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس طرح ہمارے معاشرے میں انتشار پھیل گیا۔ سب کو اپنی اپنی پڑ گئی۔ ذاتی مفاد ترجیح اور قومی مفاد نظر انداز ہو گیا۔
قانون توڑنے کی بیماری معاشرے میں اوپر سے نیچے تک سرایت کر گئی ہے۔ اب ہم بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں کہ اس بیماری کا خاتمہ کیسے ہو۔ سب کی کوشش اور خواہش یہی ہے کہ دوسرا تو قانون پر ہر صورت عمل کر لے لیکن ان کی اپنی ذات قانون کی پابندی سے مبرا ہوا۔ پاکستان اسی وجہ سے خوفناک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہے۔ قانون کی پابندی نہ کرنا اور کرپشن پورے قومی وجود کو کھائے جا رہی ہے۔ یہ ایک ایسا سرطان ہے جو پاکستان کے پورے وجود میں پھیل چکا ہے۔
قانون کی حکمرانی قائم نہ ہونے سے میرٹ متاثر ہوتا ہے اور نااہل سفارشی افراد حکومت کے تمام اداروں میں اوپر آ جاتے ہیں۔ جن کا ایک ہی کام حکمرانوں کی چاپلوسی کرنا ہوتا ہے۔ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر غیر قانونی ناجائز کام کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں میرٹ نظر انداز اور سفارش رشوت کا دور دورہ ہو جاتا ہے اور اہل افراد اپنی قسمت کو کوستے رہ جاتے ہیں۔
صرف یہی نہیں جو اہل افراد حکمرانوں کے غیر قانونی ناجائز کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے انہیں عبرت کا نشان بنا کر سالہا سال تک کھڈے لائن لگا دیا اور دور دراز علاقوں میں ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح بچے کھچے اہل افراد کے پاس ایک ہی راستہ رہ جاتا ہے کہ وہ بھی کرپٹ اور نااہل افراد کے نقش قدم پر چلیں۔ اس طرح معاشرے میں قانون کی حکمرانی اور دیانتداری عنقا ہوئی جاتی ہے۔
چیف جسٹس نے سرکاری محکموں میں رشوت ستانی اور اقربا پروری ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر مضبوط معاشرہ قائم نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف افراد کا ہی نہیں بلکہ حکومت کا بھی قانون کے تابع رہنا ضروری ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومتی اداروں میں منظور نظر افراد کو نوازنے کی مثالیں موجود ہیں جو ملازمین کے بنیادی حقوق کی پامالی کا باعث بن رہی ہیں۔ حکمرانوں کی میرٹ پر عمل نہ کرنے کی قبیح عادت نے بے شمار لوگوں کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ بہت سے لوگ دل کے امراض اور خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو گئے۔ ذہنی و نفسیاتی مریض بن کر رہ گئے جس کا اثر ان کی ذاتی و گھریلو زندگی پر بھی پڑا۔
حکمرانوں کی دیکھا دیکھی اداروں کے سربراہوں اور سینئر اسٹاف نے ماتحت عملے کی اے سی آرز کو ان کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ صرف نااہل نکمے افراد کو ترقی دی جاتی ہے، اہل افراد منہ تکتے رہ جاتے ہیں۔ حال ہی میں فیڈرل سلیکشن بورڈ کی طرف سے کی گئی بہت سی افسران کی ترقیاں سپریم کورٹ جج صاحب نے یہ کہہ کر منسوخ کر دیں کہ یہ ترقیاں سفارش پر مبنی تھیں۔ انہوں نے سلیکشن بورڈ کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ کی شرکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک اجنبی کا اس اجلاس میں کیا کام۔
سپریم کورٹ نے آؤٹ آف ٹرن پرموشنز کے خلاف فیصلہ پر عمل درآمد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے پنجاب پولیس کے انسپکٹر سے ڈی آئی جی تک 121 افسران کی تنزلی کا حکم دے دیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں فل بنچ نے مختصر حکم سناتے ہوئے کہا کہ یہ افسران بتائیں کے انہیں فیصلہ لینا ہے یا ریٹائرمنٹ۔ جو لوگ چھلانگ لگا کر آئے ہیں انہیں واپس جانا ہو گا جس کی باری ہو گی اسے ہی آگے آنا چاہیے۔ میرٹ اور قانون کی حکمرانی نہ ہونا پاکستان کے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ ایک طرف حکمرانوں کے گڈ گورننس کے دعوے دیکھیں دوسری طرف چیف جسٹس سپریم کورٹ کے ریمارکس کہ ملک میں گڈ گورننس نہیں۔
٭... آرمی چیف اپریل تا جولائی اگست اہم فیصلے کریں گے۔
سیل فون:0346-4527997۔