چینی کے بغیر چینی چائے کا لُطف

چائے سے منسلک کچھ روایات، کچھ لوازمات، اور لوگوں کی پسندیدگی کے مختلف معیارات چینی چائے کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں۔


شاہد افراز April 05, 2017
کچھ لوگ چائے کو پیاس بجھانے اور پانی کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کچھ کے نزدیک چائے پینے سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں۔ فوٹو: فائل

چینی ثقافت میں چائے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہےاگرچہ پاکستان میں پی جانے والی چائے سے چینی چائے قدرے مختلف ہے۔ چائے سے منسلک کچھ روایات، چائے سے جڑے کچھ لوازمات، اور لوگوں کی پسندیدگی کے مختلف معیارات چینی چائے کو ایک خاص رنگ دیتے ہیں۔ چینی معاشرے میں اگر چائے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمیں پانچ ہزار سال پیچھے جانا پڑے گا۔

بتایا جاتا ہے کہ ایک چینی بادشاہ شین نوننگ نے اپنے دورِ حکومت میں جہاں دیگر فرمان جاری کئے، ان میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ صحت مند اور توانا رہنے کے لئے پینے کے پانی کو استعمال سے قبل ضرور اُبالا جائے۔ گرمیوں کی ایک دوپہر اپنی سلطنت کے ایک دور دراز علاقے کے دورے کے دوران بادشاہ اور ان کے درباری ایک مقام پر سستانے کی غرض سے رُکے اور بادشاہ سلامت کے لئے پانی اُبالا جارہا تھا کہ اسی دوران نزدیکی جھاڑی سے کچھ پتیاں، اُبلتے پانی میں آگریں اور پانی کا رنگ فوری تبدیل ہوگیا۔



اب بادشاہ کے دل میں پانی کے اِس نئے ذائقے کو چکھنے کی خواہش نے جنم لیا۔ جب انہوں نے پتیوں ملا رنگ دار پانی پیا تو ذائقے دار بھی لگا، سو یہیں سے چائے کا آغاز ہوتا ہے اور یہ دور تھا، 2337ء قبل مسیح۔ اِس وقت سے لیکر آج تک چین میں چائے کو مختلف تقاریب میں نمایاں اہمیت حاصل ہے بلکہ یوں کہا جائے کا چائے کا راج ہے تو بےجا نہ ہوگا۔



اگر چینی معاشرے میں چائے کے استعمال کی بات کی جائے تو اِس میں بھی آپ کو مختلف رنگ ملیں گے۔ کچھ لوگ چائے کو پیاس بجھانے اور پانی کے نعم البدل کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو کچھ کے نزدیک چائے پینے سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں۔ بعض افراد تو فطری ماحول سے محبت، موسیقی میں دلچسپی اور باہمی روابط استوار کرنے میں بھی چائے کے معترف نظر آ تے ہیں۔ مزید دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ، چین میں معیاری چائے کے بھی پیمانے وضع کئے گئے ہیں۔

ہمارے ملک میں عام مشاہدہ ہے کہ بس چائے ہونی چاہیئے چاہے کسی ٹرک ہوٹل کی ہو یا کسی فائیو اسٹار ہوٹل کی، یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت ٹرک ہوٹل کی چائے کو کسی بھی بڑے ہوٹل کی چائے سے بہتر قرار دیتی ہے۔ پیمانوں کی بات ہو رہی تھی تو چین میں چائے کو جن خصوصیات کی بناء پر پرکھا جاتا ہے، اِس میں پہلی خاصیت چائے کی رنگت، دوسری چائے کی خوشبو، تیسری خاصیت چائے کا ذائقہ ہے لیکن جناب بات یہیں ختم نہیں ہوتی، مزید دو چیزیں اور بھی شامل ہیں جو پاکستان سمیت دیگر دنیا سے قدرے مختلف ہیں۔



پہلی چیز پانی کا معیار، مطلب یہ کہ پانی کون سا استعمال کیا گیا ہے، اور آخری چیز چائے سیٹ، مطلب چائے پیش کرنے کے لئے کس قسم کے برتن استعمال کئے گئے ہیں۔ مختصراً یہی کہ برتن جتنا معیاری اور اچھا ہوگا، اتنی ہی چائے کے لئے پسندیدگی بڑھے گی، ویسے معیاری کو آپ مہنگے برتن سے بھی تعبیر کریں تو کوئی حرج نہیں۔



اب چائے تو پیش کردی گئی، اگلا مرحلہ پینے کا ہے، تو جناب چین میں چائے پینے کے بھی کچھ اُصول ہیں، مثلاً چائے آپ نے گرم گرم ہی ختم کرنی ہے، ایسا نہیں کہ ساتھ ساتھ دفتر کا کام جاری ہے اور چائے ٹھنڈی ہی ہوجائے۔ اِس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ چائے میں موجود مفید اجزاء سے لُطف اندوز صرف گرم چائے سے ہی ہوا جاسکتا ہے۔ ایک اصول یہ بھی ہے کہ زیادہ کڑک چائے نہیں پینی ہے بقول، چینی افراد کہ زیادہ کڑک چائے انسانی معدے کے لئے نقصان دہ ہے۔

اِس کا معیار یہ طے کیا گیا ہے کہ پورے دن میں آپ 12 سے 15 گرام کے درمیان چائے کی پتیاں استعمال کریں گے۔ چائے پینے کے لئے بہترین اوقات کا تعین بھی کیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ جب جی چاہا چائے پی لی، چینی افراد کھانے سے کچھ دیر قبل یا فوری بعد چائے نہیں پیتے۔ کہتے ہیں کہ اگر کھانے سے پہلے چائے پی لی تو بھوک ختم ہوجائے گی اور اگر فوری بعد پی تو بدہضمی کا شکار ہوسکتے ہیں۔



ایک اور اہم بات جس کا چینی افراد بہت خیال رکھتے ہیں کہ چائے کے ساتھ کسی بھی قسم کی ادویات کا استعمال نہیں کریں گے۔ ایسا نہیں کہ پاکستان میں ہم بخار یا سردرد کی گولی بھی اکثر چائے کے ساتھ ہی لیتے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے ایک اور بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ دفاتر، گھر اور ہوٹل میں پی جانے والی چائے میں بھی فرق ہوگا۔ مثلاً دفاتر میں زیادہ گرین ٹی یا سبز چائے استعمال کی جائے گی، اِس کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ سبز چائے میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو کمپیوٹر سے نکلنے والی شعاعوں سے انسانی جسم کو بچانے میں مفید ثابت ہوتے ہیں اور اِس کے علاوہ انسانی جسم میں سبز چائے نمی کی مقدار کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔

اگر چین میں چائے کی مختلف اقسام کے حوالے سے دیکھیں تو ان کو گرین ٹی، بلیک ٹی، ڈارک ٹی، اولانگ ٹی، اور وائٹ ٹی میں تقسیم کیا گیا ہے۔ چائے کی ہر قسم کے ساتھ کچھ کہاوتیں یا کچھ روایات منسوب ہیں۔ مثلاً گرین ٹی کو سادگی سے منسوب کیا جاتا ہے، اور عام طور پر جنوبی چین میں رہنے والے باشندوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے، وہ اِس کو زیادہ استعمال کرتے ہیں، بلیک ٹی کو ایسے افراد سے منسوب کیا جاتا ہے جو نرم دل اور شرمیلے ہوتے ہیں، اولانگ ٹی کو ملنسار اور عام طور پر فلسفیانہ مزاج رکھنے والے افراد کی پسند قرار دیا جاتا ہے، اسی طرح ڈارک ٹی کو بزرگ، دانا افراد کی پسند میں شمار کیا جاتا ہے۔ ایک اور بات نہایت اہم ہے کہ پورے چین میں چینی کے بغیر چائے پینے کا رواج ہے، کیونکہ چین کے لوگ چینی کے زیادہ استعمال کو صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہیں اور موٹاپے کی بڑی وجہ بھی چینی کے زیادہ استعمال کو قرار دیتے ہیں۔



اگر معاشی اعتبار سے دیکھیں تو چین میں چائے کی صنعت ملک کی معاشی ترقی میں بھی ایک کلیدی کردار ادا کررہی ہے، اور چین کا شمار دنیا کے ان بڑے ممالک میں ہوتا ہے جو دنیا کے دیگر ممالک کو چائے کی برآمد میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ چین کی حکومت بھی اِس صنعت کی ترقی کے حوالے سے اقدامات کرتی رہتی ہے اور یہ کوشش کی جاتی ہے، جہاں ملکی ضروریات کو پورا کیا جاسکے، وہاں بیرونی ممالک میں بھی معیاری چائے برآمد کی جاسکے۔

اسی اہمیت کے پیشِ نظر ملک کے مختلف حصوں میں چائے کی صنعت کی ترقی اور ملک میں ٹی کلچر کے فروغ کے لئے بھی مختلف سیمینارز، کانفرنسز اور دیگر تقاریب کا انعقاد کیا جاتا ہے، سو جب بھی چین جائیں چینی چائے سے ضرور لطف اُٹھائیں لیکن وہ بھی بغیر چینی کے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔




اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔