بلوچستان میں گورنر راج کا نفاذ

گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ایڈمنسٹریٹربھی ہیں۔

صدر زرداری نے وزیر اعلیٰ بلوچستان کو برطرف کرکے گورنر ذوالفقار مگسی کو چیف ایگزیکٹو کے اختیارات سونپ دیئے ہیں۔ فوٹو : فائل

بلوچستان میں گورنر راج نافذ کردیاگیا ہے، آئین کے آرٹیکل 234کے تحت نواب اسلم رئیسانی کی مخلوط حکومت کو برطرف اورا سمبلی کو معطل کردیاگیا ہے۔

جبکہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقارعلی مگسی کو صوبے کا چیف ایگزیکٹومقرر کیاگیا ہے ۔ 1970ء میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ دیاگیاتھا اور پہلی مرتبہ 15فروری 1973ء میں سردار عطاء اﷲ مینگل کی نیب کی مخلوط حکومت کو برطرف کرتے ہوئے گورنر راج نافذ کیاگیاتھا اور نواب اکبر خان بگٹی گورنر نامزد ہوئے تھے، اس وقت بھی مرکز میں پی پی پی کی حکومت تھی اور دوسری مرتبہ اب جب بلوچستان میں گورنر راج نافذ کیاگیا ہے تو مرکز میں پی پی پی کی حکومت ہے ۔

بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کی ضرورت صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں یکے بعد دیگرے پیش آنے والے سانحات جن میں مجموعی طورپر116افرادجاں بحق اور145کے قریب لوگ زخمی ہوئے تھے جاں بحق ہونے والے افراد کی 87میتوں کے ساتھ تقریباً 3دن تک متواتر سخت سردی اور بارش میں احتجاجاً دھرنا دینے والی ہزارہ کمیونٹی کی وجہ سے ہوا ۔جن کا مطالبہ تھا کہ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت کوبرطرف کرکے گورنر راج نافذ کیاجائے اور کوئٹہ شہر کو فوج کے حوالے کیاجائے۔


میتوں کے ساتھ احتجاجی دھرنا دینے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ملک کے دیگر شہروں میں بھی دھرنے دیئے گئے، کوئٹہ میں اس دھرنے کا اختتام اس وقت ہوا جب وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے کوئٹہ میں بیٹھ کر صلاح ومشورے کے بعد مظاہرین کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کیا ، وزیراعظم نے یہ اعلان دھرنے میں پہنچ کرکیا اس سے قبل دھرنے کے شرکاء سے ہونے والے دیگر مذاکرات ناکام ہوئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف جوکہ کئی گھنٹے تک گورنر ہائوس کوئٹہ میں مختلف لوگوں سیاسی رہنمائوں اور حکومتی حکام سے ملاقاتیں کرتے رہے اورصدرپاکستان سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے رابطے میں رہے اس حوالے سے انہوںنے قانونی ماہرین سے بھی صلاح ومشورہ کیا اور آخر کار انہوںنے اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی،مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف، ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین، جمعیت علماء اسلام(ف)کے امیر مولانافضل الرحمان اور ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین سے مشاورت کے بعد آئین کے آرٹیکل 234کے تحت بلوچستان میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کیا ۔ وزیراعظم کی یقین دہانی کے بعد دھرنے کے شرکاء نے احتجاج ختم کرتے ہوئے اپنی میتیں اٹھالیں اوران کی تدفین کردی گئی۔

بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں بی این پی (عوامی) جے یو آئی (ف) اے این پی اور پی پی پی نے وزیراعظم سے ملاقات کے دوران یہ پیشکش کی کہ وہ نواب اسلم رئیسانی کی جگہ پران ہائوس تبدیلی کیلئے تیار ہیں لیکن وہ صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کی حمایت نہیں کرتیں اور اسے غیر جمہوری اقدام قرار دیتے ہوئے اس کی بھرپور مخالفت کرتی ہیں، اس سلسلے میںان جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں نے مشترکہ پریس کانفرنس کرکے بھی اپنا موقف دیا لیکن وفاقی حکومت فیصلہ کرچکی تھی اس لئے ان کی ایک بھی نہ سنی گئی اور بالآخر ان کی حکومت کو برطرف اور اسمبلی کو معطل کردیاگیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی جوکہ 7جنوری کوعلاج کی غرض سے بیرون ملک گئے ہوئے تھے اپنی حکومت کی برطرفی کے حوالے سے کہنا ہے کہ ان کی حکومت پر شب خون ماراگیا ہے، دہشت گردی دیگر صوبوں میں بھی ہے وہاں کیوں نہیں حکومتیں ختم کی گئیں ان کا انتظار کیا جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیاگیا۔

سانحہ علمدار روڈ کے احتجاجی دھرنے کے شرکاء سے اظہار یکجہتی کیلئے جہاں دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماء آئے وہاں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان خصوصی طورپر کوئٹہ آئے۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں گورنر راج نافذ کردیاگیا ہے اور ایف سی کو پولیس کے مکمل اختیارات دیئے گئے ہیں تاہم دیکھنا یہ ہے کہ بلوچستان کی امن وامان کی جو خراب صورتحال ہے اس میں اس کے بعد کیا بہتری لائی جاتی ہے۔ ان حلقوں کے مطابق گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی جوکہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو بن گئے ہیں ، منجھے ہوئے سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے ایڈمنسٹریٹربھی ہیں۔

اب وہ صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے کیا اقدامات کرتے ہیں اور ان کی کیا حکمت عملی ہوتی ہے، ان حلقوں کے مطابق اس سے قبل گورنر مگسی یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں، امن وامان کی صورتحال کو بہتر بناناصوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے، اس حوالے سے وہ بارہا صوبائی حکومت پر تنقید بھی کرچکے تھے۔ ان حلقوں کے مطابق گورنر اج کے نفاذ کے بعد اب تمام اختیارات انہیں تفویض ہوئے ہیں اور وزیراعظم نے انہیں اس بات کی بھی اجازت دی ہے کہ اگر وہ محسوس کرتے ہیں کہ امن وامان کو بہتر بنانے کیلئے پاک افواج کی خدمات درکار ہیں تو وہ پاک افواج کو بلانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان سانحات کے خلاف جمعیت علماء اسلام، پشتونخواملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ ن اور انجمن تاجران کی اپیل پر شٹرڈائون ہڑتال بھی کی گئی جس کے دوران تمام کاروباری مراکز بند رہے۔
Load Next Story