فرنٹیئر ریجنز میں سکیورٹی کے ناقص اقدامات
اہلکاروں کے اغوا کے بعد ایف آر پشاور میں لیوی اور ایف سی کی بھی تعیناتی نہیں کی گئی۔
کوئٹہ میں بم دھماکوں کے بعد ہزارہ برادری کی جانب سے دیئے جانے والے دھرنے ، احتجاج اور ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کے اثرات پشاور تک بھی پہنچے ۔
کیونکہ ایک جانب اہل تشیع نے کوئٹہ میں اپنے مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کا ساتھ دیتے ہوئے پشاور میں بھی گورنر ہائوس کے سامنے دھرنا دیا۔ کوئٹہ جاکر مسائل کا حل نہ ڈھونڈتے تو ممکنہ طور پر پشاور میں بھی گورنر ہائوس کے سامنے دیئے جانے والا دھرنا جاری رہتا جو اس اعتبار سے خطرناک بھی ہوسکتا تھا کہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورت حال ٹھیک نہ ہونے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا تھا تاہم جب مرکز کی جانب سے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے معاملات کو کنٹرول کیا گیا تو پشاور میں بھی دھرنا ختم کردیا گیا ، جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے اعلان کردہ دھرنے میں شرکت کے لیے تحریک منہاج القران کے ورکر پشاور سے بھی شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔
تاہم بس مالکان کی جانب سے بکنگ منسوخ کرنے اور اسلام آباد میں جلوس کی شکل میں داخلے کے حوالے سے مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹولیوں کی شکل میں پشاور سے کارکن روانہ ہوئے جس کے باعث پشاور سے لانگ مارچ میں شریک ہونے والے وہ رنگ نہ جما سکے جس کی توقع کی جارہی تھی، تاہم پھر بھی پشاور سمیت خیبرپختونخوا کی جانب سے دھرنے میں نمائندگی ضرور کی گئی ۔
ان سطور کی اشاعت تک کوئٹہ کے معاملات قدرے ٹھنڈے پڑچکے ہوں گے تاہم پشاور کے حوالے سے ایک اہم معاملہ پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، پشاور سے باہر ایف آر کے علاقہ میں گزشتہ دنوں جس طریقہ سے لیوی اہلکاروں کو اغواء کیا گیا اور پھر انھیں قتل کرتے ہوئے دہشت پھیلائی گئی۔
اس کے بعد ایف آر پشاور کی صورت حال یہ ہے کہ لیوی چیک پوسٹیں خالی پڑی ہیں جبکہ ایف سی کی بھی تعیناتی وہاں پر نہیں کی گئی حالانکہ 22 لیوی اہلکاروںکے اغواء اور قتل کے بعد پیش آنے والی صورت حال میں فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے فوج کو مذکورہ علاقہ میں تعینات کیاجاتا، تاہم اس حوالے سے اس انداز میں ایکشن نہیں لیا گیا جو ضروری تھا حالانکہ ایف آر پشاور کا علاقہ نیم قبائلی علاقہ ہونے کی وجہ سے پشاور کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور پشاور جسے خیبرایجنسی کی جانب سے بھی خطرات لاحق رہتے ہیں اس کا ایف آر پشاور کی جانب سے تحفظ ضروری تھا لیکن اس سلسلے میں وہ اقدامات نہیں کیے گئے جن کی توقع تھی حالانکہ صوبہ میں امن وامان کی جو صورت حال ہے ان کے تناظر میں نہ صرف ایف آر پشاور بلکہ صوبہ کے دیگر پانچ فرنٹیئر ریجن علاقوں میں بھی سیکورٹی کے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں جاری جنگ جو اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور اس جنگ کے اثرات ڈیورنڈ لائن سے اس پار منتقلی کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیاجارہا ہے ان کے تناظر میں صرف قبائلی علاقوں ہی نہیں بلکہ ان سے متصل بندوبستی اضلاع اور ایف آر علاقے جو فاٹا اور بندوبستی علاقوں کے درمیان بفر زونز کے طور پرموجود ہیں میں نہ صرف سیکورٹی کے خاطرخواہ انتظامات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس سلسلے میں پوری پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ خطرات کو کم کیا جاسکے۔
خیبرپختونخوا میں انور سیف اللہ کے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد پی پی پی نے جو دوڑ لگانی شروع کی تھی وہ اب بھی جاری ہے اور شمولیتوں اور تقاریب کے انعقاد کا سلسلہ رواں دواں ہے، تاہم جہاں پیپلز پارٹی کی قیادت دوڑ لگارہی ہے وہیں پر پیپلز پارٹی کے شعبہ خواتین کے حوالے سے کئی افواہیں بھی زوروں پر ہیں اور یہ افواہیں اس وقت ہی سے شروع ہوگئی تھیں جب مسلم لیگ(ن)سے مستعفی ہوکر شازیہ اورنگزیب نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی،گو کہ معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر فور ی طور پر خیبرپختونخوا میں شعبہ خواتین کی صدر عاصمہ عالمگیر کو پارٹی کے صدر نے پارٹی کابینہ کے اجلاسوں اور دیگر تقاریب میں شریک کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا تاہم عاصمہ عالمگیر کے پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صدارت کے حوالے سے جاری افواہوں میں کمی ہونے کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس بات کا امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ انور سیف اللہ شعبہ خواتین کے حوالے سے اہم فیصلہ کرنے والے ہیں۔
کیونکہ ایک جانب اہل تشیع نے کوئٹہ میں اپنے مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کا ساتھ دیتے ہوئے پشاور میں بھی گورنر ہائوس کے سامنے دھرنا دیا۔ کوئٹہ جاکر مسائل کا حل نہ ڈھونڈتے تو ممکنہ طور پر پشاور میں بھی گورنر ہائوس کے سامنے دیئے جانے والا دھرنا جاری رہتا جو اس اعتبار سے خطرناک بھی ہوسکتا تھا کہ پشاور سمیت خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورت حال ٹھیک نہ ہونے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا تھا تاہم جب مرکز کی جانب سے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کرتے ہوئے معاملات کو کنٹرول کیا گیا تو پشاور میں بھی دھرنا ختم کردیا گیا ، جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے اعلان کردہ دھرنے میں شرکت کے لیے تحریک منہاج القران کے ورکر پشاور سے بھی شرکت کے لیے روانہ ہوئے۔
تاہم بس مالکان کی جانب سے بکنگ منسوخ کرنے اور اسلام آباد میں جلوس کی شکل میں داخلے کے حوالے سے مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ٹولیوں کی شکل میں پشاور سے کارکن روانہ ہوئے جس کے باعث پشاور سے لانگ مارچ میں شریک ہونے والے وہ رنگ نہ جما سکے جس کی توقع کی جارہی تھی، تاہم پھر بھی پشاور سمیت خیبرپختونخوا کی جانب سے دھرنے میں نمائندگی ضرور کی گئی ۔
ان سطور کی اشاعت تک کوئٹہ کے معاملات قدرے ٹھنڈے پڑچکے ہوں گے تاہم پشاور کے حوالے سے ایک اہم معاملہ پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ، پشاور سے باہر ایف آر کے علاقہ میں گزشتہ دنوں جس طریقہ سے لیوی اہلکاروں کو اغواء کیا گیا اور پھر انھیں قتل کرتے ہوئے دہشت پھیلائی گئی۔
اس کے بعد ایف آر پشاور کی صورت حال یہ ہے کہ لیوی چیک پوسٹیں خالی پڑی ہیں جبکہ ایف سی کی بھی تعیناتی وہاں پر نہیں کی گئی حالانکہ 22 لیوی اہلکاروںکے اغواء اور قتل کے بعد پیش آنے والی صورت حال میں فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے فوج کو مذکورہ علاقہ میں تعینات کیاجاتا، تاہم اس حوالے سے اس انداز میں ایکشن نہیں لیا گیا جو ضروری تھا حالانکہ ایف آر پشاور کا علاقہ نیم قبائلی علاقہ ہونے کی وجہ سے پشاور کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے اور پشاور جسے خیبرایجنسی کی جانب سے بھی خطرات لاحق رہتے ہیں اس کا ایف آر پشاور کی جانب سے تحفظ ضروری تھا لیکن اس سلسلے میں وہ اقدامات نہیں کیے گئے جن کی توقع تھی حالانکہ صوبہ میں امن وامان کی جو صورت حال ہے ان کے تناظر میں نہ صرف ایف آر پشاور بلکہ صوبہ کے دیگر پانچ فرنٹیئر ریجن علاقوں میں بھی سیکورٹی کے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان میں جاری جنگ جو اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے اور اس جنگ کے اثرات ڈیورنڈ لائن سے اس پار منتقلی کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیاجارہا ہے ان کے تناظر میں صرف قبائلی علاقوں ہی نہیں بلکہ ان سے متصل بندوبستی اضلاع اور ایف آر علاقے جو فاٹا اور بندوبستی علاقوں کے درمیان بفر زونز کے طور پرموجود ہیں میں نہ صرف سیکورٹی کے خاطرخواہ انتظامات کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس سلسلے میں پوری پالیسی بنانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ خطرات کو کم کیا جاسکے۔
خیبرپختونخوا میں انور سیف اللہ کے پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد پی پی پی نے جو دوڑ لگانی شروع کی تھی وہ اب بھی جاری ہے اور شمولیتوں اور تقاریب کے انعقاد کا سلسلہ رواں دواں ہے، تاہم جہاں پیپلز پارٹی کی قیادت دوڑ لگارہی ہے وہیں پر پیپلز پارٹی کے شعبہ خواتین کے حوالے سے کئی افواہیں بھی زوروں پر ہیں اور یہ افواہیں اس وقت ہی سے شروع ہوگئی تھیں جب مسلم لیگ(ن)سے مستعفی ہوکر شازیہ اورنگزیب نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی،گو کہ معاملہ کی حساسیت کے پیش نظر فور ی طور پر خیبرپختونخوا میں شعبہ خواتین کی صدر عاصمہ عالمگیر کو پارٹی کے صدر نے پارٹی کابینہ کے اجلاسوں اور دیگر تقاریب میں شریک کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تھا تاہم عاصمہ عالمگیر کے پیپلز پارٹی شعبہ خواتین کی صدارت کے حوالے سے جاری افواہوں میں کمی ہونے کی بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور اس بات کا امکان ظاہر کیاجارہا ہے کہ انور سیف اللہ شعبہ خواتین کے حوالے سے اہم فیصلہ کرنے والے ہیں۔