ہوش مندی کی ضرورت

لانگ مارچ کے دوران وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم کو مبصرین خاصا معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔


Editorial January 15, 2013
طاہر القادری دھرنے کو عوامی انقلاب کی افتتاحی تقریب قراردے رہے ہیں۔ فوٹو مریا اقبال

تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہر القادری کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ گیا ہے۔ اب یہ لانگ مارچ دھرنے کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ طاہر القادری نے لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے پر اعلان کیا کہ منگل کی صبح11 بجے تک حکومتیں اور اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں' اگر ایسا نہ ہوا تو عوام خود فیصلہ کریں گے۔ اگلے روز گیارہ بجے تک حکومت اور اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوئیں۔ طاہر القادری نے منگل کو دھرنے کے شرکاء سے خطاب کیا' اس خطاب کا لب لباب یہ ہے کہ وہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک دھرنا جاری رکھیں گے۔ ادھر طاہر القادری کی تقریر کے دوران ہی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی رینٹل پاور کیس میں گرفتاری کا حکم دے دیا ' یوں صورتحال نے نیا رخ لے لیا۔

رینٹل پاور کیس خاصے عرصے سے چل رہا تھا تاہم اس موقعے پر وزیراعظم کی گرفتاری کے حکم کو مبصرین خاصا معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم کی گرفتاری کے حکم سے حکومت ایک نئے بحران سے دو چار ہو گئی ہے' اب حکومت کیا آپشن اختیار کرتی ہے' اس کے بارے میں تب تک کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک سرکاری رد عمل سامنے نہیں آ جاتا۔ اب شاید وزیر اعظم سپریم کورٹ میں ضمانت کی درخواست دائر کریں گے' سپریم کورٹ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرے گی' اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بہر حال اسلام آباد میں دھرنے سے خطاب کے دوران طاہر القادری نے اس فیصلے پر سپریم کورٹ آف پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوائے' اس وقت صورتحال اتنی پیچیدہ اور تہہ در تہہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی۔

البتہ یہ امر ضرور قابل توجہ ہے کہ طاہر القادری کا دھرنا کس کروٹ بیٹھے گا' طاہر القادری نے تو واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پورے ہونے تک دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ ان کے مطالبات اب واضح ہو چکے ہیں' ادھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومتی حلقوں میں خاصی تشویش پیدا ہوئی ہے۔ پارلیمنٹ ہائوس کے باہر غیر معمولی مجمع موجود ہے' طاہر القادری دھرنے کو عوامی انقلاب کی افتتاحی تقریب قراردے رہے ہیں۔ادھر عمران خان نے منگل کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے سات نکات پر مشتمل مطالبات پیش کردیے۔انھوں نے اسمبلیاں اور حکومت تحلیل کرکے نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا، انھوں نے صدر سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

ڈاکٹر طاہر القادری کا لانگ مارچ درست ہے یا غلط' اس بحث میں پڑے بغیر اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک کی اس وقت جو صورت حال ہے اس میں لاکھوں یا ہزاروں کے اجتماع میں کوئی شرارت یا دہشت گردی ہو جانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ سیاستدانوں اور مذہبی اکابرین کا فرض ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں۔ پاکستان چاروں طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ کنٹرول لائن کی صورت حال سب کے سامنے ہے۔ افغانستان ہمارے لیے مستقل خطرہ بن چکا ہے۔ اندرون ملک دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیمیں اور جرائم پیشہ گروہ قتل و غارت میں مصروف ہیں۔ ایسی صورت حال میں سیاست برائے سیاست کرنا ملک و قوم کے ساتھ زیادتی ہے۔ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے۔اگلا مرحلہ نگران سیٹ اپ کے قیام کا ہے۔

ملک میں سیاسی جماعتوں کو اپنی تمام تر توجہ عام انتخابات کے انعقاد پر مرکوز کرنی چاہیے۔ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو اپنے ایجنڈے میں دہشت گردی اور اس سے منسلک پہلوؤں کو شامل کرنا چاہیے۔ ان حالات میں کوئی سیاسی ایڈونچر ملک کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ جہاں تک طاہر القادری اور عمران خان کے مطالبات کا تعلق ہے توان کے بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہر معاملے میں آئین کو مقدم رکھا جائے۔ الیکشن کمیشن پر ساری جماعتوں نے اعتماد کا اظہار کر رکھا ہے، کسی سیاسی جماعت نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری پر بھی کھل کر اعتراض نہیں کیا۔عمران خان نے بھی چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں کہا کہ وہ ایماندار ہیں ، البتہ نیچے سیاسی تقرریاں ہوئی ہیں، سپریم کورٹ نے بھی منگل کو ہی الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوںگے اس لیے وہ ان کے انعقاد کی تیاری کرے۔ نگران حکومت کی تشکیل کے بارے میں آئین واضح ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک تمام معاملات آئین اور قانون کے مطابق ہو رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کا فرض یہ ہے کہ وہ الیکشن کے عمل میں شریک ہوں اور عوام سے حق حکمرانی حاصل کرنے کا مینڈیٹ لیں۔ اس موقعے پر کوئی ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس سے ملک میں انتشار پھیلے کیونکہ اس طرح کے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ملک میں دو یا تین سال کی مدت پر محیط نگران سیٹ اپ کے قیام کی کوششیں ہو رہی ہیں۔اس بارے میں بھی آئین پاکستان سے ہی رہنمائی لی جانی چاہیے۔ ملک میں بے یقینی کی کیفیت پہلے سے برقرار ہے اور اس میں لانگ مارچ جیسے اقدامات سے انارکی اور انتشار کا خطرہ ہے۔ منگل کو ملک میں اتنی غیر یقینی تھی کہ اسٹاک مارکیٹ بھی کریش ہو گئی۔ ہمارے خیال میں ان سارے مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ تمام فریق ہوشمندی کا مظاہرہ کریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس کے نتیجے میں سسٹم کا بوریا بستر گول ہو جائے۔ ملک کو سارے بحران سے نکالنے کا حل آئین میں موجود ہے۔ اب جب کہ موجودہ حکومت اپنی آئینی مدت تقریباً پوری کر چکی ہے' اگلا مرحلہ نگران حکومت کے قیام کا ہے اور اس کے بعد الیکشن ہونے کا۔ اس موقعے پر کسی قسم کا بھی کوئی ایڈونچر ملک کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں