ڈارک ہارس
اصل معاملہ تو اس بھوت کا ہےجس کی نحوست حکومت اور پارلیمنٹ پرپڑرہی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب ہی کہیں موجود ہے
بلوچستان میں قتل و غارت اور لاقانونیت کا جو بھوت ناچ رہا تھا' وہ وزیر اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور ان کی حکومت کی بھینٹ لے کر چین سے بیٹھ گیا۔ حکومت احتجاجی دھرنا چار روز سے زائد برداشت نہ کر سکی اور صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے پر مجبور ہو گئی۔ اب ایک بھوت اسلام آباد میں ناچ رہا ہے' یہ بھوت وفاقی حکومت کی قربانی مانگ رہا ہے۔
راجہ صاحب کی گردن تو شکنجے میں آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے، پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا حکمنامہ جاری ہوا ہو۔ اب راجہ صاحب جانیں اور عدالت جانے' میرے جیسے عامی کو اس پنگے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے' اصل معاملہ تو اس بھوت کا ہے' جس کی نحوست حکومت اور پارلیمنٹ پر پڑ رہی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب ہی کہیں موجود ہے۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی طاہر القادری حکومت کے لییڈارک ہارس بن کر نازل ہو گا۔
جن لوگوں کو گھوڑ دوڑ کا شوق ہے اور وہ شرط بھی لگاتے ہیں' انھیں ڈارک ہارس کی اصطلاح کا بخوبی پتہ ہو گا۔ یہ ایسا گھوڑا ہوتا ہے' جس کا جوئے میں ریٹ نہیں ہوتا۔ ریس دیکھنے اور شرط لگانے والوں کو اس کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا' وہ اپنے اپنے فیورٹس پر شرطیں لگاتے رہتے ہیں، ریس شروع ہوتی ہے، فیورٹس آگے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں، پھر غیر متوقع طور پر عقب سے ایک گھوڑا برآمد ہوتا ہے اور فیورٹس کو پچھاڑتے ہوئے فنش پوائنٹ پر پہنچ جاتا ہے۔
طاہر القادری بھی سیاست کا ڈارک ہارس ثابت ہوئے ہیں' کچھ حلقے عمران خان کو بھی ڈارک ہارس سمجھتے تھے لیکن دوڑ شروع ہوئی تو موصوف اسلام آباد کے بجائے جنوبی وزیرستان کی طرف دوڑ پڑے' اب جنوبی وزیرستان میں اسلام آباد ہے نہ واشنگٹن کہ کسی کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا یا دوڑ جیتنے پر کوئی انعام مل جاتا۔ یوں یہ ڈارک ہارس وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی دھول میں گم ہو گیا۔ اب خان صاحب اور ان کے نورتن طاہر القادری کے پیروکار بن کر اپنے سات نکات پیش کر رہے ہیں۔ انھوں نے بھی کم و بیش وہی مطالبات پیش کیے ہیں جو شیخ الاسلام کر رہے ہیں، فرق یہ ہے کہ خان صاحب لاہور میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں جب کہ قادری صاحب پارلیمنٹ کے سامنے ہزاروں لوگوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے موجود ہیں۔
لانگ مارچ کی قیادت کرنے والا ڈارک ہارس برسوں بیرون ملک مقیم رہا۔ پھر ایک دن دل میں وطن عزیز کے مظلوموں کی محبت جاگی اور وہ وطن واپس آ گیا اور پھر چند ہی دنوں میں اتنا طاقتور ہو گیا کہ ہزاروں افراد کے جلوس کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ 9 گھنٹے میں حکومت کا خاتمہ اور اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں۔ اس الٹی میٹم پر عمل درآمد نہ ہوا تو اسے قدرے مایوسی ہوئی، پھر ہجوم سے مخاطب ہوا اور رندھی ہوئی آواز میں لوگوں سے کہا، کوئی رات کے اندھیرے میں جانا چاہتا ہے تو چلا جائے، میں نہیں جاؤں گا، یہ تقریر جاری تھی کہ وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم جاری ہو گیا۔ اس کے کان میں جیسے ہی یہ اطلاع پہنچائی جاتی ہے، اسے نئی جان مل جاتی ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے حق میں نعرے لگواتا ہے اور اعلان کرتا ہے اس نے اپنے ''انقلاب'' کا 50 فیصد حاصل کر لیا۔ باقی 50 فیصد اس کے بقول آج حاصل ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو سمجھیں آج ''انقلاب'' آجائے گا۔
اقتدار کا کھیل قواعد و ضوابط کے مطابق چل رہا تھا۔کسی کو کسی سے ایسی شکایت نہیں تھی کہ کھیل ختم کر کے گتھم گتھا ہوجاتے۔ فخرو بھائی کو خوش اسلوبی سے چیف الیکشن کمشنر تعینات کر دیا گیا تھا۔ سننے میں آیا ہے کہ ان کا نام بھی ن لیگ نے ہی پیش کیا تھا، اس وقت جسٹس شاکر اﷲ جان قائم مقام چیف جسٹس تھے، پیپلز پارٹی نے ان سے جان چھڑانے کے لیے فخرو بھائی کو قبول کر لیا۔ حالانکہ وہ ان کی چوائس نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن میں تقرریاں بھی ہو گئیں' حال میں الیکشن کمیشن کے کچھ لوگوں کو ادھر ادھر کیا گیا، یہیں سے معاملات زیادہ بگڑے۔
چوہدری برادران ان تقرریوں سے خوش نہیں تھے، ق لیگ نے باقاعدہ پارٹی اجلاس میں الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، معنی خیز بات یہ ہے کہ بعد میں یہی مطالبہ طاہر القادری نے کیا، اور اب عمران خان نے بھی اسے ہی دہرایا ہے۔ ادھر ایم کیو ایم کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے ایشو پر ناراض ہے۔ نگران سیٹ اپ پر بھی اتحادیوں کو فکر مندی تھی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خوشگوار موڈ میں گپ شپ جاری تھی۔کچھ لوگ یہ تک کہتے تھے کہ بات چیت کا ماحول اتنا خوشگوار ہوتا تھا کہ قریبی عزیزوں کو نگران وزیر اعظم بنانے کی بات بھی ہوتی رہی ہے' ظاہر ہے، یہ راز و نیاز چھپے نہیں رہ سکتے تھے۔
وہ طبقے یا قوتیں جو میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے گھبراتے یا ڈرتے ہیں' انھیں یہ کسی طور پر قبول نہیں کہ آیندہ الیکشن کے نتیجے میں دوبارہ ایسا ہی جمہوری سیٹ اپ قائم ہو جائے جیسا اب چل رہا ہے' فرق صرف اتنا ہو کہ اب وزارت عظمیٰ پیپلز پارٹی کے پاس ہے تو اگلے وزیر اعظم میاں نواز شریف ہوں۔
ایسے حالات میں وہ قوتیں کیسے اپنا کھیل نہ کھیلتیں جو میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں' پاکستان کی سیاست میں صرف دو قوتیں نہیں ہیں۔ ایسا بھی شاید پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کے اتحادی اپنی ہی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے والے کی حمایت کر رہے ہوں۔ اصل جھگڑا نگران سیٹ اپ کے ایشو پر ہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنی مرضی کا سیٹ اپ چاہتی ہیں لیکن پاکستانی سیاست کے پریشر گروپ اگلے سیٹ اپ میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔
پاکستان میں اب تک جتنے مارشل لاء لگے' ان میں سیاسی پریشر گروپوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کھیل انھی کو آگے کر کے کھیلا ہے۔ مذہب' زبان' قوم پرستی اور ذات برادری کے نام پر سیاست کرنے والے یہ بااثر پریشر گروپ اکٹھے ہو کر ایسا شور اور ہنگامہ برپا کرتے ہیں کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہو جاتا ہے' طاہر القادری 2002 کے الیکشن میں لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے' پھر انھوں نے سیاست سے کنارا کشی اختیار کر لی' برسوں کی تنہائی کے بعد اب وہ ڈارک ہارس بن کر سیاسی میدان میں اترے اور لاہور سے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر بڑی آسانی اور سکون کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئے' راستے میں انھیں کسی نے نہیں روکا' پنجاب حکومت بھی خاموش رہی اور اب وفاقی حکومت بھی چپ سادھے ہوئے ہے' بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی چپقلش یا ضد نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا' اب بھی وہ اگر سیاسی پریشر گروپوں کو کنٹرول میں رکھتیں، اور تو گیند اسٹیبلشمنٹ کے کورٹ میں نہ جاتی' اب اسلام آباد میں ناچنے والا بھوت کوئی نہ کوئی بھینٹ لے کر ہی ٹلے گا۔
راجہ صاحب کی گردن تو شکنجے میں آ گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے رینٹل پاور کیس میں ان کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے، پاکستان میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کا حکمنامہ جاری ہوا ہو۔ اب راجہ صاحب جانیں اور عدالت جانے' میرے جیسے عامی کو اس پنگے میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے' اصل معاملہ تو اس بھوت کا ہے' جس کی نحوست حکومت اور پارلیمنٹ پر پڑ رہی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کی عمارت کے قریب ہی کہیں موجود ہے۔ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی طاہر القادری حکومت کے لییڈارک ہارس بن کر نازل ہو گا۔
جن لوگوں کو گھوڑ دوڑ کا شوق ہے اور وہ شرط بھی لگاتے ہیں' انھیں ڈارک ہارس کی اصطلاح کا بخوبی پتہ ہو گا۔ یہ ایسا گھوڑا ہوتا ہے' جس کا جوئے میں ریٹ نہیں ہوتا۔ ریس دیکھنے اور شرط لگانے والوں کو اس کے بارے میں پتہ نہیں ہوتا' وہ اپنے اپنے فیورٹس پر شرطیں لگاتے رہتے ہیں، ریس شروع ہوتی ہے، فیورٹس آگے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں، پھر غیر متوقع طور پر عقب سے ایک گھوڑا برآمد ہوتا ہے اور فیورٹس کو پچھاڑتے ہوئے فنش پوائنٹ پر پہنچ جاتا ہے۔
طاہر القادری بھی سیاست کا ڈارک ہارس ثابت ہوئے ہیں' کچھ حلقے عمران خان کو بھی ڈارک ہارس سمجھتے تھے لیکن دوڑ شروع ہوئی تو موصوف اسلام آباد کے بجائے جنوبی وزیرستان کی طرف دوڑ پڑے' اب جنوبی وزیرستان میں اسلام آباد ہے نہ واشنگٹن کہ کسی کو کوئی خطرہ محسوس ہوتا یا دوڑ جیتنے پر کوئی انعام مل جاتا۔ یوں یہ ڈارک ہارس وزیرستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی دھول میں گم ہو گیا۔ اب خان صاحب اور ان کے نورتن طاہر القادری کے پیروکار بن کر اپنے سات نکات پیش کر رہے ہیں۔ انھوں نے بھی کم و بیش وہی مطالبات پیش کیے ہیں جو شیخ الاسلام کر رہے ہیں، فرق یہ ہے کہ خان صاحب لاہور میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں جب کہ قادری صاحب پارلیمنٹ کے سامنے ہزاروں لوگوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے موجود ہیں۔
لانگ مارچ کی قیادت کرنے والا ڈارک ہارس برسوں بیرون ملک مقیم رہا۔ پھر ایک دن دل میں وطن عزیز کے مظلوموں کی محبت جاگی اور وہ وطن واپس آ گیا اور پھر چند ہی دنوں میں اتنا طاقتور ہو گیا کہ ہزاروں افراد کے جلوس کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ 9 گھنٹے میں حکومت کا خاتمہ اور اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں۔ اس الٹی میٹم پر عمل درآمد نہ ہوا تو اسے قدرے مایوسی ہوئی، پھر ہجوم سے مخاطب ہوا اور رندھی ہوئی آواز میں لوگوں سے کہا، کوئی رات کے اندھیرے میں جانا چاہتا ہے تو چلا جائے، میں نہیں جاؤں گا، یہ تقریر جاری تھی کہ وزیر اعظم کی گرفتاری کا حکم جاری ہو گیا۔ اس کے کان میں جیسے ہی یہ اطلاع پہنچائی جاتی ہے، اسے نئی جان مل جاتی ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے حق میں نعرے لگواتا ہے اور اعلان کرتا ہے اس نے اپنے ''انقلاب'' کا 50 فیصد حاصل کر لیا۔ باقی 50 فیصد اس کے بقول آج حاصل ہو جائے گا۔ اگر ایسا ہی ہوتا ہے تو سمجھیں آج ''انقلاب'' آجائے گا۔
اقتدار کا کھیل قواعد و ضوابط کے مطابق چل رہا تھا۔کسی کو کسی سے ایسی شکایت نہیں تھی کہ کھیل ختم کر کے گتھم گتھا ہوجاتے۔ فخرو بھائی کو خوش اسلوبی سے چیف الیکشن کمشنر تعینات کر دیا گیا تھا۔ سننے میں آیا ہے کہ ان کا نام بھی ن لیگ نے ہی پیش کیا تھا، اس وقت جسٹس شاکر اﷲ جان قائم مقام چیف جسٹس تھے، پیپلز پارٹی نے ان سے جان چھڑانے کے لیے فخرو بھائی کو قبول کر لیا۔ حالانکہ وہ ان کی چوائس نہیں تھے۔ الیکشن کمیشن میں تقرریاں بھی ہو گئیں' حال میں الیکشن کمیشن کے کچھ لوگوں کو ادھر ادھر کیا گیا، یہیں سے معاملات زیادہ بگڑے۔
چوہدری برادران ان تقرریوں سے خوش نہیں تھے، ق لیگ نے باقاعدہ پارٹی اجلاس میں الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کیا، معنی خیز بات یہ ہے کہ بعد میں یہی مطالبہ طاہر القادری نے کیا، اور اب عمران خان نے بھی اسے ہی دہرایا ہے۔ ادھر ایم کیو ایم کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے ایشو پر ناراض ہے۔ نگران سیٹ اپ پر بھی اتحادیوں کو فکر مندی تھی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان خوشگوار موڈ میں گپ شپ جاری تھی۔کچھ لوگ یہ تک کہتے تھے کہ بات چیت کا ماحول اتنا خوشگوار ہوتا تھا کہ قریبی عزیزوں کو نگران وزیر اعظم بنانے کی بات بھی ہوتی رہی ہے' ظاہر ہے، یہ راز و نیاز چھپے نہیں رہ سکتے تھے۔
وہ طبقے یا قوتیں جو میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے گھبراتے یا ڈرتے ہیں' انھیں یہ کسی طور پر قبول نہیں کہ آیندہ الیکشن کے نتیجے میں دوبارہ ایسا ہی جمہوری سیٹ اپ قائم ہو جائے جیسا اب چل رہا ہے' فرق صرف اتنا ہو کہ اب وزارت عظمیٰ پیپلز پارٹی کے پاس ہے تو اگلے وزیر اعظم میاں نواز شریف ہوں۔
ایسے حالات میں وہ قوتیں کیسے اپنا کھیل نہ کھیلتیں جو میاں نواز شریف اور آصف زرداری سے چھٹکارا پانا چاہتی تھیں' پاکستان کی سیاست میں صرف دو قوتیں نہیں ہیں۔ ایسا بھی شاید پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کے اتحادی اپنی ہی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے والے کی حمایت کر رہے ہوں۔ اصل جھگڑا نگران سیٹ اپ کے ایشو پر ہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپنی مرضی کا سیٹ اپ چاہتی ہیں لیکن پاکستانی سیاست کے پریشر گروپ اگلے سیٹ اپ میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔
پاکستان میں اب تک جتنے مارشل لاء لگے' ان میں سیاسی پریشر گروپوں کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کھیل انھی کو آگے کر کے کھیلا ہے۔ مذہب' زبان' قوم پرستی اور ذات برادری کے نام پر سیاست کرنے والے یہ بااثر پریشر گروپ اکٹھے ہو کر ایسا شور اور ہنگامہ برپا کرتے ہیں کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہو جاتا ہے' طاہر القادری 2002 کے الیکشن میں لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے' پھر انھوں نے سیاست سے کنارا کشی اختیار کر لی' برسوں کی تنہائی کے بعد اب وہ ڈارک ہارس بن کر سیاسی میدان میں اترے اور لاہور سے بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر بڑی آسانی اور سکون کے ساتھ اسلام آباد پہنچ گئے' راستے میں انھیں کسی نے نہیں روکا' پنجاب حکومت بھی خاموش رہی اور اب وفاقی حکومت بھی چپ سادھے ہوئے ہے' بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں بھی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی چپقلش یا ضد نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا' اب بھی وہ اگر سیاسی پریشر گروپوں کو کنٹرول میں رکھتیں، اور تو گیند اسٹیبلشمنٹ کے کورٹ میں نہ جاتی' اب اسلام آباد میں ناچنے والا بھوت کوئی نہ کوئی بھینٹ لے کر ہی ٹلے گا۔