ہمارے حکمران… وہ دن ہوا ہوئے
عوام کل تک جن لیڈروں کے اعزاز میں زندہ باد کے نعرے بلند کرتے تھے، آج وہ مردہ باد ہو گئے ہیں
ٹُہر اور پھوں پھاں کے شوقین حکمرانوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ سرکاری حفاظتی انتظامات کے ذریعے اپنی جان بچا لیں گے یا پھر کسی راستے سے گزرتے وقت ان کی سواری کے گزر جانے کے انتظار میں اس کے دونوں سمت کھڑ ے لوگوں کے ہجوم پر ان کا اتنا رعب پڑ گیا ہو گا کہ ہمارے اندر کتنی طاقت ہے اور ہمارا کتنا بڑا اختیار ہے کہ لوگ ہمارے احترام اور ادب میں راستوں کے دو رویہ کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہماری سواری گزر جائے تو ان کے با ادب قدموں میں حرکت پیدا ہو اور وہ کہیں آ جا سکیں۔
میں نے جب بھی یہ دکھ بھرا منظر دیکھا تو اسے خطرے کی ایک علامت سمجھا اور سوچا کہ سخت گرمی یا سردی میں تنگ آ کر یا اپنے کسی ضروری کام میں تاخیر کی وجہ سے ناراض ہو کر اگر سڑکوں پر کھڑا یہ ہجوم آگے بڑھ کر سڑک پر آ جائے اور ادھر صاحب کی سواری باد بہاری سامنے آ جائے یا سواری کو آتا دیکھ کر یہ سڑک پر آجائیں اور سواری کو روک دیں تو پھر کیا ہو گا ؟کیا بڑی ہی قیمتی گاڑی پر سوار بڑا آدمی ان مشتعل اور ناراض لوگوں سے بچ جائے گا؟ کیا ادب اور جبر کی حدیں توڑنے والے اتنے مہذب ہوں گے کہ وہ گاڑی میں سوار صاحب کو سلام کر کے گزر جائیں گے یا پھر گاڑی سمیت صاحب کے ساتھ کیا سلوک کریں گے، اس کی پھو پھاں اور ٹہر کا کیا حال کریں گے اور اسے کس حلیے میں دفتر یا گھر جانے کی اجازت دیں گے۔
اس کے علاوہ بھی کچھ ممکن ہو سکتا ہے، ایسے اندیشوں کو ذہن میں رکھ کر میں نے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ لکھا بھی کہ کچھ اپنا خیال کریں اور حالات کو بگڑنے نہ دیں کیونکہ ناراض ہجوم آگے بڑھ کر کچھ اور بھی کر سکتا ہے۔ ہم نے بجلی یا گیس وغیرہ کی لوڈ شیڈنگ سے ناراض عوام کو جی بھر کر توڑ پھوڑ کرتے بھی دیکھا ہے اور سرکاری اہلکاروں کو ان سے چھپتے بھی دیکھا ہے، آج پھر یہ باتیں مجھے لاہور اور کراچی میں بیک وقت لیڈروں کے خلاف عوامی برہمی کی خبریں پڑھ کر یاد آتی ہیں۔
ایسی خبریں جن کو پڑھ کر میں سخت گھبرا گیا ہوں لیکن سب سے پہلے ان خبروں کی ایک جھلک ایک خبر لاہور کی ہے اور وہ بھی لاہور کے گورنر ہائوس کے سامنے کی۔ لاہور کے گورنر ہائوس کے سامنے شہداء کوئٹہ سے اظہار یک جہتی کے لیے مجلس عمل وحدت المسلمین کے زیر اہتمام دھرنے کے شرکاء نے مسلم لیگ ن کے وفد پر دھاوا بول دیا لیکن وفد کے ارکان نے بھاگ کر جانیں بچائیں اور اپنی گاڑیوں میں گھس گئے۔ دھرنے کے شرکاء نے ان کے خلاف مردہ باد کے نعرے لگائے، ان لیڈروں کے نام ملاحظہ فرمائیں جو نیک نیتی کے ساتھ آئے تھے، ہمدردی کے جذبات لے کر۔
واقعات کے مطابق گورنر ہائوس کے باہر دو روز سے جاری مجلس وحدت المسلمین کا دھرنا جاری تھا اور وہ سانحہ کوئٹہ کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے تھے۔ اتوار کی شام امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کے مظاہرین سے خطاب کے بعد نماز فجر اور عشاء ایک ساتھ با جماعت ادا کی گئی، اس اثناء میں مسلم لیگ ن کا وفد وزیراعلیٰ کے سینئر مشیر ذوالفقار علی خان کھوسہ کی قیادت میں خواجہ سعد رفیق' زعیم قادری اور خواجہ عمران نذیر پر مشتمل وفد دھرنا میں داخل ہوا اور اظہار یکجہتی کا اعلان کیا ہی تھا کہ پنڈال سے مسلم لیگ ن مردہ باد کے نعرے فضا میں بلند ہونا شروع ہو گئے، اسی دوران جوشیلے نوجوانوں نے مسلم لیگ ن کے وفد پر دھاوا بول دیا، ہر طرف سے خواجہ سعد رفیق اور زعیم قادری پر تھپڑوں کی بارش شروع ہو گئی۔
موقع پر موجود پولیس اہلکاروں نے بڑی مشکل سے آگے بڑھ کر پر تشدد نوجوانوں کے چنگل سے رہنمائوں کو نجات دلائی اور مشکل سے ان کی گاڑیوں تک واپس لے آئے اور انھیں گاڑیوں میں بٹھا کر ان کی منزل کی طرف روانہ کر دیا، بعض نوجوان ان کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتے رہے۔ لاہور کے تاجروں نے آج شہداء کوئٹہ کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کے لیے صوبائی دارالحکومت میں مارکیٹیں بند رکھنے کا لاہور کی مختلف تاجر تنظیموں نے اعلان کیا ہے، لاہور کی تمام مارکیٹیں بند رکھی جائیں گی، مال روڈ' جیل روڈ' شاہ عالم مارکیٹ' اعظم کلاتھ مارکیٹ' گنپت روڈ کی مارکیٹیں بند رکھی جائیں گی۔
سانحہ کوئٹہ کے خلاف بلاول ہائوس کے باہر دھرنے پر بیٹھے شرکاء نے مذاکرات کے لیے آنے والے سندھ حکومت کے صوبائی وزیر تعلیم پیر مظہر الحق اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن کو تشدد کا نشانہ بنایا' پیر مظہر الحق اور شرجیل میمن دھرنے پر بیٹھے شرکاء سے بات چیت کرنے آئے تھے' شرکاء نے بات چیت سے انکار کر دیا' مظاہرین نے ان کی گاڑیوں پر پتھرائو بھی کیا' پیر مظہر الحق اور شرجیل میمن کو گارڈ بچا کر لے گئے' اس سے پہلے شہلا رضا و دیگر ارکان سندھ اسمبلی بھی شرکاء سے مذاکرات کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔
کراچی اور لاہور میں ملک کی دو بڑی جماعتوں کے رہنمائوں کے ساتھ دھرنے والوں نے جو سلوک کیا، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کا صبر اب ختم ہو چکا ہے اور وہ کل تک جن لیڈروں کے اعزاز میں زندہ باد کے نعرے بلند کرتے تھے، آج وہ مردہ باد ہو گئے ہیں۔کل عمران خان اور آج طاہر القادری کا مظاہرہ اور مارچ یہ سب عوام کے ان حکومت مخالفانہ جذبات کا ایک اظہار ہے اور ان مظاہروں میں شریک لوگ اب خاصے جارحانہ ہو چکے ہیں۔
عمران خان کا جلسہ ایک سیاسی جلسہ تھا جو ایک سیاسی تقریر کے بعد ختم ہو گیا لیکن قادری صاحب جو منڈیٹ لے کر آئے ہیں وہ بہت خطر ناک ہے اور ملکی سلامتی کے لیے اس میں بڑے خطرے پوشیدہ ہیں۔ میں نے مارچ میں خواتین کی جو تقریریں سنی ان میں روز مرہ کے مسائل کا ذکر تھا اور وہ تنگ آ کر باہر نکلی ہیں، تقاریر میں ان وجوہات کا ذکر تھا۔ایک خاتون نے بچہ اٹھایا ہوا تھا اور وہ کہہ رہی تھی کہ گرمی یا سردی کی پروا نہیں، میں بچوں کے مستقبل کے لیے باہر نکلی ہوں۔ میری یہ سب باتیں آپ کو مجھ سے زیادہ معلوم ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اور اہل فکر و نظر عوام کے اس موڈ سے آشنا رہیں۔ ہم سب کو کچھ کرنا ہو گا، اگرچہ لیڈروں اور حکمرانوں کے لیے خوشی اور عیاشی کے دن ہوا ہو چکے ہیں لیکن اس ملک کو زندہ رہنا ہے اور اس ملک کے عوام کا کہنا ہے کہ اس حکومت میں وہ محفوظ نہیں ہیں۔