لانگ مارچ کے لیے استقبالیہ کلمات
لوگ فوج کو بلا رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ بظاہر فوج کو بلانے کے احکامات جاری نہیں کرے گی
ISLAMABAD:
میں یہ کالم ایک روز کی تاخیر سے لکھ رہاہوں۔ ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔ اور بعض معاملات انسانی بس سے باہر ہوتے ہیں، آخر ایک انسان بھی ہوں، محض قلم کار نہیں، انسانی رشتوں کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے، سمجھ لیجیے، کہ ایسا ہی کوئی رشتہ نبھانے میں سارا دن گزر گیا حالانکہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ کالم میں اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھنا، جو کچھ چودہ جنوری کے اخبارات میں شایع ہوا ہے، ان سے اقتباسات پیش کروں اور اس سے نتیجہ اخذ کرنے کا اختیار قارئین اور آنے والے مؤرخ پر چھوڑ دوں۔
میرے قارئین گواہ ہیں کہ میں دوسروں کے حوالے دینے میں بہت ہی بخیل واقع ہوا ہوں مگر اسے بخل نہیں سمجھتا۔ میری عادت ہے کہ اگر ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تو دوسروں کے الفاظ یا اشعار کی بیساکھی کا سہارا نہیں لوں گا۔ مگر آج اپنی یہ عادت ترک کر رہا ہوں کیونکہ تازہ ترین صورت حال پر جو کچھ کرم فرمائوں نے لکھ دیا ہے، اس پر میں ایک شوشے کا اضافہ بھی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ تو آئیے دیکھتے ہیں کہ تیرہ جنوری کو لانگ مارچ شروع ہونے پر کالم نویسوں اور تجزیہ کاروں نے کیا تبصرے کیے۔
چودہ جنوری کو صبح چار بجے کے بعد میری آنکھ کھل گئی تھی، اس سے طبیعت کے اضطراب کا اظہار ہوتا ہے، آہستہ آہستہ انٹرنیٹ پر اخبارات اپ لوڈ ہونے لگے، سب سے پہلے میں نے برادرم خوشنود علی خان کے کالم پر نظر ڈالی، یہ دارالحکومت سے نظر آنے والے مشاہدات پر مبنی کالم ہوتا ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: اسلام آباد نے کبھی اتنے لوگ نہیں دیکھے، جتنے کل دن اور رات میں دیکھے ہیں، یہ لوگ آمادہ بر فساد نہیں، پر امن ہیں لیکن یہ اتنی تعداد میں ہیں کہ جو کہیں گے، وہ سننا پڑے گا، اس پر دھیان دینا پڑے گا۔ دھرنے پر جتنے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، ان سب سے میری ملاقات اور بات ہوئی ہے، وہ سب تبدیلی چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے، اب تبدیلی ضرور ہو گی اور آہستہ آہستہ پورے ملک سے آواز آئے گی کہ ملک فوج کے حوالے کرو۔
شاہین صہبائی لکھتے ہیں: لانگ مارچ شروع ہو چکا، اور جب بھی لانگ مارچ شروع ہوا کامیاب رہا ہے، چاہے اپنے وقت پر منزل پر پہنچا یا راستے ہی میں روک لیا گیا مگر مقصد حاصل ہو گیا۔ بابر اعوان آنکھوں دیکھا حال لکھتے ہیں: میرے چیمبر کے عین سامنے ایک تماشا ہو رہا ہے۔ قیامت خیز بیانات، ہلاکت خیز پیش گوئیاں، وحشت انگیز پیش بندیاں، کنٹینرز، خاردار تار، باوردی کھمبے، تیز طرار سائرن، بھاگتے، سہمے ہوئے پیادے، سب پریشانی خوف اور چل چلائو کی علامتیں ہیں۔
عطاء الحق قاسمی کی نوک قلم پر کوئٹہ کے سانحے کا احوال ہے: میں نے پاکستان کی پینسٹھ سالہ تاریخ میں بہت درد ناک واقعات اور بہت موثر احتجاج دیکھے ہیںلیکن کوئٹہ میں ہونے والے بیسیوں بے گناہ افراد کی شہادت پر ان کے لواحقین اور دوسرے درد مند افراد کے احتجاج نے میرے دل میں درد کی آگ بھر دی ہے، اور مجھے اپنے دل کے علاوہ اپنا قلم بھی پگھلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، چنانچہ جو میں لکھنا چاہ رہا ہوں، وہ مجھ سے لکھا نہیں جا رہا۔ برادرم سجاد میر نے بھی بات کوئٹہ سے شروع کی ہے اور لانگ مارچ کے ذکر پر ختم کی ہے۔ لکھتے ہیں: یہ مارچ چل پڑا۔ اب یہ بحث نہیں رہی کہ حضرت علامہ کو کس نے بھیجا ہے یا بلوایا ہے، اب اصل قصہ یہ ہے کہ وہ چل پڑے ہیں۔ اس وقت فکر اگر ہے تو یہ کہ اس کہانی کا انجام کیا ہو گا۔ اس طرح کی مارچیں تو ہوتی رہتی ہیں، ڈر تو کوئیک مارچ سے لگتا ہے۔
یا کسی اور انہونی سے۔ نوجوان وصی شاہ کو میں ایک نئے لہجے کے شاعر کے طور پر جانتا ہوں۔ ان کے کالم سے خون ٹپک رہا ہے: ہمیشہ اپنے بزرگوں سے سنا کہ جیسا خون آشام دور انھوں نے دیکھا، ایسا شاید ہی کسی اور نسل نے دیکھا ہو۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ جیسا پر آشوب دور میری نسل پر گزرا ہے، ویسا شاید تقسیم کے وقت ہمارے بزرگوں پر بھی نہیں گزرا ہو گا۔ اتنی خونریزی، اتنی قتل و غارت گری، اتنا کشت و خون، عوام کی ایسی بے بسی کہ لاشیں اٹھاتے اٹھاتے بازو شل ہو گئے۔ ہمارے ساتھی مقتدا منصور نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے طریق کار سے اختلاف کے باوجود اس ملک کا کوئی بھی باشعور شہری موجودہ سیاسی ڈھانچے اور انتخابی نظام پر ان کے الزامات کی صحت سے انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے دانستہ تنائو کی فضا کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کیونکہ نہ حکومت مذاکرات کے ذریعے انھیں اپنے انتہائی اقدام سے باز رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کر رہی ہے اور نہ دیگر سیاسی جماعتیں انھیں کسی قابل عمل ایجنڈے پر آمادہ کرنے کے لیے متحرک ہو سکی ہیں۔ اس صورت حال کا لامحالہ نتیجہ ٹکرائو کی شکل میں ظاہر ہو گا، جس کا نقصان پورے ملک کو اٹھانا پڑے گا۔ ہمارے ایک نوجوان ساتھی اصغر عبداللہ، اصغر خان کیس پر فیصلے کا تجزیہ یوں کرتے ہیں کہ اس مرحلے پر طاہر القادری کا یہ مطالبہ کہ نگران سیٹ اپ مکمل طور پر غیر جانبدار ہو، اور آئین کی دفعہ باسٹھ تریسٹھ پر عمل درا ٓمد کرانے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہو، معنی خیز ہے۔
کیونکہ نگران حکومت اگر عدالتی احکامات اور عوامی مطالبے پر اصغر خان کیس کو ٹیک اپ کر لیتی ہے تو سیاست کا سارا منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ زمرد نقوی صاحب کی پیش گوئی ہے کہ اٹھارہ فروری سے اٹھارہ مارچ کے درمیان کا عرصہ پاکستان میں موجودہ نظام کا فیصلہ کرے گا۔ جس کا آغاز سولہ جنوری سے ہو جائے گا۔ ان سے مزید تفصیل پوچھنی ہو تو ان کے سیل فون نمبر 0346-452997 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اوریا مقبول جان کا تجزیہ کچھ یوں ہے: نفرت کے سیلاب کو نکالتا کوئی اور ہے۔
چلاتا کوئی اور ہے، اس کی قیادت غصے سے شروع ہوتی ہے، قتل و غارت میں پروان چڑھتی ہے، اور وقت اس کی طنابیں کسی اور کے ہاتھ میں دے دیتا ہے۔ خورشید ندیم نے لانگ مارچ کے آخری لمحات کا نقشہ یوں کھینچا ہے: طاہر القادری صاحب دعا کے ساتھ اپنے سفر پر نکل چکے، مذہبی علم کلام کے سہارے انھوں نے جمہوریت مارچ شروع کر دیا ہے۔ وہ اپنے قافلے کو حسینی قافلہ کہہ رہے ہیں جو یزیدی سلطنت کے خاتمے کے لیے روانہ ہو رہا ہے۔ رحمٰن ملک صاحب کو یقین ہے کہ دہشت گردی ہو گی۔
قادری صاحب بھی تیقن سے کہہ رہے ہیں کہ حکومت تخریب کاری کا ارادہ رکھتی ہے۔ اہل پاکستان کا جان و مال اتنا ارزاں کر دیا گیا ہے کہ اب صرف دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ ایسی لا حاصل مشقوں سے اہل اسلام کو بارہا سابقہ پڑ چکا افسوس کہ تاریخ سے سبق سیکھنے کا رواج ہمارے ہاں نہیں ہے۔ اور آخر میں نہ چاہتے ہوئے اپنے عزیز دوست عرفان صدیقی کے خواب کا تذکرہ کروں گا۔ لکھتے ہیں کہ میں رات بھر چین سے سو نہ سکا۔ ذرا آنکھ لگی، تو بجھی راکھ، جلے خیموں، ٹوٹی طنابوں، اور اجڑی لشکر گا ہ کا روح فرسا منظر دور تک پھیلا ہوا تھا۔ یہ منظر کھینچا ہے انھوں نے جدید دور کے قافلہ حسین کا۔
مجھے اور کچھ نہیں کہنا۔ میں نے کلام شاعر بزبان شاعر پیش کر دیا۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کتنے لوگ جمع ہیں۔ مگر نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ اہمیت تعداد کی نہیں، بلکہ ان مطالبات کی ہے جن کے جواز کو کوئی بھی چیلنج نہیں کر سکا، مجھے ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی ناکامی یا کامیابی کا تجزیہ کرنے سے بھی کوئی غرض نہیں، ڈاکٹر صاحب کے علاوہ بھی اس ملک میں کئی قوتیں موجود ہیں۔ ان میں سے کئی آئینی ادارے ہیں۔ سپریم کورٹ بھی موجود ہے جس کے احکامات جاری ہو رہے ہیں، ان کی ٹائمنگ پر بھی میں کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا۔
اسی سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ لوگ فوج کو بلا رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ بظاہر فوج کو بلانے کے احکامات جاری نہیں کرے گی۔ مگر اس کے ریمارکس معنی خیز ضرور ہیں۔ ڈاکٹر قادری نے بھی ہمارے نظام کی خرابیوں کی طرف توجہ دلانے کے لیے لانگ مارچ کیا ہے، مگر پوری قوم نے ان کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے ان کی تضحیک اور تذلیل پر اپنی استعداد خرچ کر دی۔ یہ انداز فکر اور انداز استدلال باشعور قوم کو زیب نہیں دیتا۔ اس لیے ہمیں لانگ مارچ کے منطقی نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ طنابیں کس کی ٹوٹتی ہیں اور بجھی راکھ اور جلے خیموں کا منظر کس طرف دیکھنے میں آتا ہے۔ دعا یہ ہے کہ خدا پاکستان کی سلامتی کا نگہبان ہو۔