ہم بادشاہ ہیں
ملک کے اصل مالک اور بادشاہ عوام ہیں اور صرف اور صرف ان کو اور ان کے نمایندوں کو ہی حق حکمرانی حاصل ہے
ساڈک کی سلطنت کے لوگوں نے اپنے بادشاہ کا محل گھیرے میں لے رکھا تھا وہ بغاوت پر آمادہ تھے اور اپنے بادشاہ کے خلاف چیخ چیخ کر نعرے لگا رہے تھے۔ بادشاہ محل کی سیڑھیوں پر رونما ہوا۔ اس کے ایک ہاتھ میں تاج تھا اور دوسرے ہاتھ میں اپنی مقدس مذہبی کتاب تھی، بادشاہ کے شاہی دبدبے کی وجہ سے مجمع پر سکوت طاری ہو گیا بادشاہ مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میرے دوستو تم اب میری رعایا نہیں رہے ہو میں اپنا تاج اور مقدس مذہبی کتاب آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔
میں اب آپ میں سے ایک شخص ہوں اب میں بھی تمہارے ساتھ محنت مشقت کروں گا تا کہ ہمارے مقدر سنور سکیں اب کسی بادشاہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، لہذا آئو ہم کھیتوں کا رخ کریں انگوروں کے باغات کا رخ کریں اور اپنے ہاتھوں سے محنت مزدوری کریں آپ مجھے بتائیں کہ مجھے محنت مزدوری کرنے کے لیے کس کھیت یا انگور کے کس باغ کا رخ کرنا ہو گا اب آپ تمام لوگ بادشاہ ہیں تمام لوگ حیران ہو گئے اور ان پر سکوت طاری ہو گیا وہ بادشاہ جسے وہ اپنی بے اطمینانی اور ناخوشی کا باعث سمجھتے تھے۔
وہی بادشاہ اپنا تاج ان کے حوالے کر رہا تھا اور ان کی طرح ایک معمولی انسان کا روپ دھار رہا تھا تب ہر ایک شخص نے اپنی راہ لی اور بادشاہ نے بھی ایک شخص کے ہمراہ کھیت کی جانب بڑھنا شروع کر دیا لیکن ساڈک کی سلطنت کسی بادشاہ کے بغیر کسی حکمران کے بغیر کسی قسم کے اطمینان اور خوشی سے دوچار نہ ہو سکی بلکہ بے اطمینانی اور ناخوشی کی دھند بدستور چھائی رہی۔ لوگ منڈیوں میں دہائی دے رہے تھے کہ ان کو حکمران چاہیے اور ان کو حکمرانی کے امور سر انجام دینے کے لیے ایک بادشاہ کی ضرورت ہے ساڈک کے بزرگ اور نوجوان بیک آواز کہنے لگے کہ ہم اپنے بادشاہ کو ضرور واپس لائیں گے اور وہ بادشاہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے بادشاہ ان کو کھیت میں کام کرتا نظر آیا۔
انھوں نے بادشاہ کو دوبارہ اس کے تخت پر بٹھایا اور کہا کہ اب پوری قوت مگر انصاف کے ساتھ ہم پر حکمرانی کرو اور بادشاہ نے جواب دیا کہ میں پوری قوت کے ساتھ حکمرانی کروں گا اور انصاف کے ساتھ کروں گا تب کچھ مرد اور عورتیں بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئیں اور شکایت کرنے لگے کہ ان کے نواب نے ان کے ساتھ نارو ا سلوک کیا تھا بادشاہ نے اس نواب کو اپنے دربار میں بلایا اور کہا کہ خدا کی نظر میں ہر ایک انسان کی وقعت ایک جیسی ہے چونکہ تم اس امر سے واقف نہیں ہو کہ ان لوگوں کی قدر کیسے سرانجام دینی ہے جو تمہارے کھیتوں اور تمہارے باغات میں کام کرتے ہیں، لہذا تمہیں جلا وطن کیا جاتا ہے اور تمہیں ہمیشہ کے لیے اس سلطنت کو خیر باد کہنا ہو گا۔
اس کے بعد کچھ اور لوگ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ پادری نے انھیں گرجا گھر کی تعمیر و توسیع کے لیے پتھر لانے کی مزدوری پر مامور کیا لیکن انھیں مزدوری ادا نہیں کی حالانکہ وہ جانتے تھے کہ پادری کا صندوق سونے اور چاندی کے سِکوں سے بھرا پڑا تھا جب کہ ان کی نہ صرف جیب خالی تھی بلکہ ان کے پیٹ بھی خالی تھے اور وہ بھوک سے بدحال تھے اس بادشاہ نے اس پادری کو بھی اپنے دربار میں طلب کر لیا جب پادری دربار میں حاضر ہوا تو بادشاہ نے اسے کہا کہ یہ صلیب جو تم نے اپنے سینے پر سجا رکھی ہے اس کا مطلب ہے زندگی کو زندگی سے نوازنا جب کہ تم نے زندگی سے زندگی چھین لی ہے اور تم نے کسی کو کچھ نہیں دیا لہذا تم بھی اس سلطنت سے فوراً نکل جائو اور کبھی اس سلطنت کا رخ نہ کرنا۔
روزانہ ہی لوگ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوتے رہے اور اپنے اس بوجھ کی شکایت کرتے رہے جو ظالموں نے ان پر لاد رکھا تھا اس ظلم کی شکایت کرتے جو ان کے ساتھ روا رکھا گیا تھا اس زیادتی کی شکایت کرتے جس کو زبردستی ان کا مقدر بنایا گیا تھا اور روزانہ ظالم ملک بدر کیے جاتے رہے ساڈک کے لوگ بہت خوش تھے ایک روز سلطنت کے بزرگ اور نوجوان بادشاہ کے محل کے دروازے پر آن پہنچے اور بادشاہ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور بادشاہ ایک ہاتھ میں اپنا تاج اور دوسرے ہاتھ میں مقدس مذہبی کتاب پکڑے ان کے پاس آن پہنچا بادشاہ نے ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ لوگ مجھ سے کیا چاہتے ہو اگر تم چاہتے ہو تو میں دوبارہ تم لوگوں میں شامل ہو جاتا ہوں اور حکومت کو خیر باد کہہ دیتا ہوں۔
بادشاہ کی بات سنتے ہی لوگ چلا اٹھے نہیں نہیں تم ہمارے جائز اور حقیقی بادشاہ ہو تم نے اس سر زمین کو زہریلے سانپوں سے پاک کر دیا ہے خبیث لوگوں سے پاک کر دیا ہے دغا باز اور ظالم لوگوں سے پا ک کر دیا ہے تم نے ان ظالم بھیڑیوں کو سبق سکھا دیا ہے اور ہم تمہارا شکریہ ادا کرنے کے لیے آئے ہیں تمہیں خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آئے ہیں یہ تاج بھی تمہیں مبارک ہو اور یہ مقدس مذہبی کتاب بھی تمہاری شان و شوکت اور وقار میں اضافے کا باعث ثابت ہو تب بادشاہ کہنے لگا کہ نہیں میں نہیں بلکہ تم بادشاہ ہو جب تم نے مجھے کمزور اور نااہل حکمران پایا اس وقت تم بھی کمزور اور نااہل تھے۔
اب چونکہ تم لوگوں نے اپنی اصلاح کر لی ہے۔ لہذا ملکی نظام بہتر طرز پر چل رہا ہے میرا وجود تمہارے اعمال میں پنہاں ہے میری جھلک تمہارے اعمال میں نظر آتی ہے میں بذات خود کچھ بھی نہیں ہوں کوئی بھی شخص بذات خود حکمران نہیں ہوتا صرف رعایا ہی وہ ہستی ہوتی ہے جو اپنا نظام چلاتی ہے اس کے بعد بادشاہ اپنے تاج اور مقدس مذہبی کتاب کے ہمراہ دوبارہ اپنے محل میں واپس چلا گیا اور سلطنت کے بزرگ نوجوان بھی اپنی اپنی راہ چل دیے اور وہ ازحد مطمئن تھے اور ان میں سے ہر ایک شخص یہ ہی سوچ رہا تھا کہ وہ بذات خود بادشاہ ہے۔
جس کے ایک ہاتھ میں تاج اور دوسرے ہاتھ میں مقدس کتا ب ہے ۔ پاکستان کے ہر شخص کو اس بات پر یقین اور خود اعتمادی ہونی چاہیے کہ وہ بذات خود پاکستان کا بادشاہ ہے اس کا حکمران ہے اور اس پر حکمرانی کا حق صرف اور صرف اسی کو ہی حاصل ہے کیونکہ یہ ملک عوام نے بنایا ہے اور یہ ملک عوام کے لیے بنا ہے بس اسی بات پر ہمیں اعتماد اور یقین ہونا چاہیے اپنے اوپر اعتماد رکھنا جہاد کا درجہ رکھتا ہے اگر یقین محکم ہو تو پہاڑ بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایا جا سکتا ہے اگر ہم اپنے آپ پر اعتماد کرنا سیکھ لیں گے تو ہم اپنے آپ میں وہ طاقت پائیں گے جو ہم دوسروں میں دیکھتے ہیں اور اپنے آپ میں نہیں پاتے۔ میدان جنگ میں مورچے پر ڈٹے ایک بہادر سپاہی کا یہ قول ہمارے لیے بہت اہم ہے کہ جنگ میں بندوق نہیں لڑتی بلکہ اسے تھامنے والے فوجی کا دل لڑتا ہے اور دل بھی نہیں بلکہ اس دل میں موجود اس کا اعتماد لڑتا ہے امریکی صدر لنکن کا محبوب مقولہ تھا کہ دوسروں کا محاسبہ نہ کرو ورنہ تمھارا بھی محاسبہ کیا جائے گا۔
لنکن کی کامیابی کا یہ ہی راز تھا لیکن ہم اپنی ناکامیوں سے کوئی بھی سبق سیکھ نہیں پائے ہیں اور نہ ہی کوئی سبق سیکھنا چاہتے ہیں ہمارے ملک کے تمام فریق ایک دوسرے سے خوفزدہ اور ڈرے ہوئے ہیں ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہو گی تمام فریقوں کو بیٹھ کر ایک فیصلہ کرنا ہو گا ایک نظام حکومت پر متفق ہونا ہو گا جمہوریت پر اعتماد کرنا ہو گا بڑی حد تک اس بات پر اتفاق بھی ہے اور مختلف قوموں کی ترقی کا راز بھی یہی ہے۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا ایک دوسرے سے عداوت نہیں بلکہ محبت پیدا کرنی ہو گی ابھی کچھ نہیں بگڑا ابھی بھی بہت کچھ ہے جو ہم بچا سکتے ہیں ہم بھی کامیاب ہو سکتے ہیں ہمیں صرف منفی سوچ کے بجائے مثبت سوچ پیدا کرنا ہو گی اور یہ ہی سوچ ہماری تخلیقی سوچ کو آزاد کر دے گی اور ہمیں اس قدر مصروف ہونے میں مدد دے گی کہ ماضی کے حالات اور واقعات پر ماتم کرنے کے لیے نہ تو ہمارے پاس وقت ہو گا اور نہ ہی ہمارا اس طرف دھیان جائے گا اور نہ ہی ایک دوسرے پر الزام تراشی ہو گی نہ ہی تنقید اور نہ ہی ایک دوسرے کو کمزور کریں گے اور سب سے اہم بات یہ کہ اس بات پر سب کو یقین اور اتفاق ہونا چاہیے کہ ملک کے اصل مالک اور بادشاہ عوام ہیں اور صرف اور صرف ان کو اور ان کے نمایندوں کو ہی حق حکمرانی حاصل ہے اور عوام کو بھی اسی بات پر ایمان ہونا چاہیے۔