شہر کچرا فری کب ہوگا
ہمارے یہاں استعمال شدہ ٹائر صرف ہڑتالوں میں جلائے جاتے ہیں جب کہ امریکا میں یہ بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔
کراچی تقریباً سات سو مربع میل رقبے پر محیط شہر ہے جس میں ایسے علاقے اور محلے بہت کم ہیں جہاں کچرے اور گندگی کے ڈھیر نہ نظر آتے ہوں۔ خصوصاً کچی بستیوں، پرانے علاقوں، خالی پلاٹوں اور میدانوں میں کچرے اور کوڑا کرکٹ کے انبار نظر آتے ہیں، گندگی کے یہ ڈھیر نہ صرف مکھی، مچھروں اور وائرس کی افزائش گاہ بن جاتے ہیں جن سے پورے محلے کی صحت کو خطرہ لاحق ہوتا ہے بلکہ کبھی ایسی اشیاء بھی ان میں شامل ہوتی ہیں جن سے زہریلی گیس خارج ہوتی ہے۔ ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کراچی کو دنیا کا غلیظ ترین شہر قرار دیا گیا تھا، آج بھی کراچی کا شمار غلیظ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔
ماہرین کی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں ہر روز چھ سات ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، فی کس کچرے کی پیدائش کا اندازہ تقریباً40 کلوگرام ہے۔ ان میں گھریلو کچرا، مارکیٹوں اور تجارتی علاقوں میں پیدا ہونے والا کچرا، تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہونے والا ردی کا کچرا، سڑکوں اور گلیوں میں صفائی سے پیدا ہونے والی گرد، صنعتی علاقوں کا کچرا اور اسپتالوں، شفاخانوں کی استعمال شدہ بوتلیں اور دوسری اشیاء شامل ہیں۔ صرف کراچی کی سبزی منڈی اور بڑی مارکیٹوں سے یومیہ سیکڑوں ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے جب کہ کچرا اٹھانے کی سہولتیں ضرورت سے بہت کم ہیں۔ صرف 60 فیصد کچرا اٹھایا جاتا ہے بقیہ سڑکوں اور گلیوں میں اسی طرح پڑا رہتا ہے۔ خصوصاً گنجان آباد علاقوں میں ان سے پیدا ہونے والا تعفن مکینوں کے لیے سخت پریشانی کا باعث بنتا ہے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی بھی جگہ جہاں کوڑا پھینکا جا رہا ہو وہاں اسے مناسب سائنسی طریقوں سے ٹھکانے لگانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اس بنیادی مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی ادارہ صحت نے ماہرین کی طویل تحقیق اور جستجو کے نتیجے میں کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے سائنسی طریقے ایجاد کیے تا کہ انسانی صحت کو محفوظ بھی رکھا جا سکے اور کوڑا کرکٹ کے مضر اثرات بھی مرتب نہ ہوں۔
مختلف ایشیائی اور ترقی پذیر ممالک کا سروے کرنے کے بعد 1985 میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارۂ صحت W.H.O نے ان کو صاف ستھرا بنانے کے لیے مختلف پروگرام مرتب کیے۔ ایشیائی ممالک میں اس مقصد کے لیے ورلڈ بینک کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کو فنڈز فراہم کرے تا کہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، برما، ملائیشیا، سنگاپور، ہانگ کانگ اور فلپائن میں صحت و صفائی کے معیار کو بہتر بنایا جا سکے لہٰذا ان تمام ممالک میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ قائم کیے گئے جن کا کام کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کے روایتی طریقوں کے بجائے جدید سائنسی طریقوں کو استعمال کرنا تھا۔ جن ایشیائی ممالک میں عالمی ادارہ صحت نے یہ پروگرام روشناس کرائے وہاں عام طور پر تقریباً تمام شہروں میں کھلے عام کوڑا پھینکنے کا رواج تھا۔ چنانچہ اس ادارے نے تمام ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو ''سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پروگرام'' کے تحت تکنیکی معلومات اور فنڈز فراہم کیے۔
سالڈ ویسٹ مینجمنٹ نظام کے تحت کسی بھی قسم کے کوڑا کرکٹ کو تیز رفتار طریقے سے فوری اور محفوظ ذرایع نقل و حمل کے ذریعے کسی بھی مناسب جگہ پر ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے، اس طریقہ کار کو چار مختلف مراحل میں تقسیم کیا گیا تھا نمبر ایک کوڑا کہاں اور کیوں پیدا ہوتا ہے، اس مرحلے کو تکنیکی زبان میں گاربیج جنریشن کہا جاتا ہے۔ نمبر دو گاربیج کُلکشن، یعنی کوڑا ایک جگہ کس طرح جمع کیا جائے۔ نمبر تین گاربیج ٹرانسپورٹیشن یعنی کوڑے کو کس طرح محفوظ طریقے سے ٹرانسفر اسٹیشن اور پھر وہاں سے لینڈ فل سائٹ (Land Fill) تک پہنچایا جائے۔ نمبر چار گاربیج ڈسپوزل، لینڈ فل سائٹ پر کوڑا مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ ایک ایسا ہی نظام ہے، جس پر عمل کر کے کوڑا کرکٹ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے۔
کوڑا کرکٹ عام طور پر گھروں، صنعتی یونٹوں اور مختلف قسم کی فیکٹریوں سے نکلتا ہے، اس کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ گیلا کوڑا اور خشک کوڑا۔ گھروں سے نکلنے والے کچرے میں صفائی کے دوران عام طور پر خشک، جب کہ باورچی خانے میں گیلا کوڑا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس صنعتی اداروں سے نکلنے والے کچرے کی نوعیت فیکٹری یا کارخانوں میں استعمال ہونے والے خام مال پر منحصر ہوتی ہے مثلاً فولاد اور دھات کی اشیاء کے کارخانوں میں خشک اور چمڑے، کھاد، صابن سازی اور اسی قسم کے دوسرے کارخانوں میں گیلا فاضل مادہ نکلتا ہے۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے فاضل مادوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے صنعتی قوانین بھی موجود ہیں۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ عام طور پر روایتی طریقے سے کچرا کنڈی تک پہنچتا ہے۔
اس میں سوکھا اور گیلا دونوں طرح کا کوڑا کرکٹ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ ہر قسم کے کوڑا کرکٹ میں بعض اشیاء ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں دوبارہ قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے تحت شہریوں سے یہ سفارش کی جاتی ہے کہ وہ گھروں میں گیلا اور خشک کوڑا کرکٹ الگ الگ رکھیں۔ گیلا کوڑا کرکٹ روایتی طریقے سے کچرا کنڈی میں پہنچا دیا جائے جب کہ خشک کوڑا بیچ دیا جائے کباڑیوں کے ہاتھوں، جو اسے مختلف اقسام کی اشیاء علیحدہ علیحدہ کر کے ری سائیکلنگ پلانٹ پر پہنچا دیتے ہیں، یوں وہ کچھ رقم بھی کمالیتے ہیں بلکہ اب تو کئی لوگوں کا کام ہی یہی ہے یعنی یہی ان کا روزگار ہے۔
جن ممالک میں کامیابی سے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پروگرام پر عملدرآمد ہو رہا ہے وہاں صفائی ستھرائی کی حالت کافی بہتر ہے۔ کراچی میں بھی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پروگرام شروع ہوا تھا مگر تا حال کوئی عملی قدم اٹھتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کچرا کوئی بے کار شے نہیں ہوتا اس میں بہت سی کار آمد اشیاء بھی شامل ہوتی ہیں، جنھیں مختلف صنعتیں ہاتھوں ہاتھ خرید لیتی ہیں۔ اس کی باقیات سے کھاد سازی کی جا سکتی ہے اور اسے بھرائی کے کام میں بھی لایا جا سکتا ہے۔ اگرچہ کراچی میں اس کاروبار سے متعلق کوئی تفصیلی رپورٹ موجود نہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق سیکڑوں افراد اس کاروبار سے منسلک ہیں جو سوکھا کچرا خریدتے ہیں اور مختلف صنعتوں میں بیچ کر منافع حاصل کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ممبئی شہر میں ایک بڑے کچرا فروخت کی اوسطاً آمدنی 60 ہزار روپے ماہانہ تک ہوتی ہے وہاں کچرا فروشی ایک اہم بزنس کی شکل اختیار کر گئی ہے۔
ہمارے یہاں استعمال شدہ ٹائر صرف ہڑتالوں میں جلائے جاتے ہیں جب کہ کیلی فورنیا کے شہر ''وسٹلے'' کے پاور پلانٹ میں یہ ٹائر بطور ایندھن استعمال ہوتے ہیں، دراصل جن چیزوں کو بے کار سمجھ کر کچرا کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے ان ہی چیزوں کو دوسرے کاموں میں استعمال کر کے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ امریکا جیسے ملک سمیت دوسرے کئی ممالک میں ان استعمال شدہ اشیاء سے بہت سی دوسری چیزیں تیار کی جاتی ہیں۔ متحدہ ریاست ہائے امریکا میں ری سائیکلنگ کو ایک بڑا کارآمد فن تصور کیا جاتا ہے اور امریکی عوام کی ایک بڑی تعداد اس فن کے ذریعے بڑے کاروبار اور فیکٹریاں چلا رہی ہے۔
لاس اینجلس کے ایک کارخانے میں استعمال شدہ نائیلون کے کپڑوں سے فوم تیار کر کے ٹینس کی گیند بنائی جاتی ہے۔ پورٹ لینڈ اوریگن کے ڈیجا شوز جو نہایت آرام دہ اور دلکش ہوتے ہیں پھٹے کپڑوں، سودا سلف کے بیگ، استعمال شدہ ربر کی آمیزش سے تیار ہونے والے میٹریل سے بنائے جاتے ہیں۔ اسی طرح المونیم کین، ٹوٹے شیشوں کا استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلوں، اخباری ردّی، کاربورڈ کے ٹکڑوں وغیرہ سے دوسری بہت سی کار آمد اور خوبصورت اشیاء تیار کی جاتی ہیں جو ماحولیاتی اعتبار سے غیر ضرر رساں ہوتی ہیں۔ بیکار اشیاء سے کار آمد اشیاء کی تیاری ماحول اور معیشت کے مابین ہم آہنگی قائم رکھتی ہے۔
یورپ اور امریکا میں بہت سی جگہ ایسے ری سائیکلنگ کے مراکز قائم ہیں جو ان اشیاء کو اکٹھا کرتے ہیں اور انھیں الگ الگ کرنے کے بعد متعلقہ کارخانوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ یہ بڑی دلچسپ حقیقت ہے کہ امریکا میں ایسی کرسیاں بھی ہیں جو جہازوں کے ملبے سے تیار کی گئی ہیں، کمروں کے ایسے فرش بھی ہیں جو بجلی کے ٹوٹے ہوئے بلبوں کو پیس کر اور اس میں دوسرے اجزاء ملا کر بنایا گیا ہے۔ ایسے ٹشو پیپرز بھی لوگ استعمال کرتے ہیں جو کاغذی ردی کو شکل نو دے کر تیار ہوئے ہیں۔ اسی طرح دیگر طریقوں سے بیکار اشیاء کو کام میں لایا جاتا ہے۔
کوڑے کے ناقابل تجدید اجزاء زمین کے گڑھوں کی بھرائی کے کام آتے ہیں البتہ ایسے مقامات جہاں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو اس طرح کی بھرائی سے زیر زمین پانی کے آلودہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سی جگہ اس سلسلے میں قوانین موجود ہیں لیکن ایسی جگہیں جہاں صورت حال بالکل مختلف ہو وہاں گڑھوں کی بھرائی میں کچرے کے استعمال کو پیش نظر رکھنا از حد ضروری ہے لیکن کچرے کو کسی جگہ اکٹھا کر کے جلا دینا ایک قابل اعتراض عمل ہے اس سے نہ صرف فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ندیوں کی وادی میں ان کے ڈھیر لگانے سے پورے علاقے کا ماحولیاتی توازن درہم برہم ہو سکتا ہے۔ بہت سے ممالک میں کوڑا جلایا بھی جاتا ہے اور بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ شنگھائی میں یہ کچرا شہر کے قریب ایک کھائی میں گوبر اور دوسرے حیوانی فضلے کے ساتھ جمع کیا جاتا ہے۔ یہاں بننے والی میتھین گیس گرد و نواح کی آبادی کی ایندھن کی ضروریات کو پوری کرتی ہے۔ یورپ کے اور امریکا کے علاوہ دوسرے ممالک مثلاً ہالینڈ، جرمنی، سوئیڈن اور سوئٹزر لینڈ میں کوڑا جلانے اور بھاپ کی سپلائی کی بھٹیاں موجود ہیں ہر جگہ اپنے حساب سے اس کو کام میں لایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی اس طرح کا کام کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ یہاں ری سائیکلنگ کے مراکز قائم کیے جائیں اور اس صنعت کو فروغ دیا جائے تا کہ ماحولیاتی آلودگی کا بھی خاتمہ ہو۔