قاتل بھی میں مقتول بھی میں
ہم یہ کیسے یقین کر لیں کہ مساجد میں سر بسجود ہونے والوں کو اﷲ کے سامنے سر جھکانے والوں نے ہی قتل کیا ہے۔
خون کی ندیوں کو پار کرنا اب آسان ہو گیا ہے کہ لمحہ لمحہ انسان کسی بوسیدہ عمارت کی طرح زمین بوس ہوتا جا رہا ہے، یہ زمین، میرے اور آپ کے خوابوں کی سر زمین کتنے چہروں، کتنے جسموں کو یونہی نگلتی رہے گی؟ بچپن کے تمام کھیل تماشے اب خواب و خیال ہوئے جہاں بچے آنکھ مچولی، برف پانی، پکڑم پکڑائی، اندھا بھنیا، کوڑا جمال شاہی اور رنگا رنگا روزز کھیلا کرتے تھے، اب ان کے نوخیز ہاتھوں میں پلاسٹک اور لوہے کی پستولیں ہوتی ہیں جن سے نکلے ہوئے چھرے غبارے نہیں پھوڑتے بلکہ نشانہ بازی کی ہوا میں پریکٹس کرتے ہیں۔
کیا قیامت ہے کہ کوئٹہ میں ایک آن میں پچاسی لوگ شہید ہو گئے اور حکومت بلوچستان خاموش تماشائی بنی رہی، ان کے وزیر اعلیٰ، گورنر، وزراء، ایم این ایز، ایم پی ایز اپنی بڑی بڑی لینڈ کروزر اور پجیرو سے نکل کر اس خوں بستہ، خونچکاں جگہ نہ پہنچ سکے جہاں بکھرے ہوئے انسانی اعضا اپنے قصور کا سوال کر رہے تھے۔
یہ کیسا ملک ہے، کیسا قانون ہے؟ شاید جنگل سے بھی بدتر، جہاں شیر، شیر کو، ہاتھی، ہاتھی کو نہیں کھاتا، مگر یہاں مسلمان ہی مسلمان کے لہو کا پیاسا ہے پھر بھی اس کی تشنگی کم نہیں ہوتی بلکہ وہ بڑی جرأتمندی اور سنگدلی سے اقرار کرتا ہے کہ فلاں حملے کی ذمے داری لشکر جھنگوی نے، فلاں کی کالعدم تحریک طالبان نے اور فلاں فلاں ''اسلامی'' تنظیم نے قبول کر لی ہے۔
کراچی لہولہان ہے اور اب اسمبلیوں میں ''بل'' پاس ہو رہے ہیں، ترقیاتی کام رک چکے ہیں اور سرکار کی تشہیری مہم میڈیا پر چل رہی ہے۔ واحد حکومت ہے جہاں دہشت گرد ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے ''قاتل'' ہم نے
جنھیں پکڑنے سے حکومت قاصر ہے اور کس منہ سے ان کی پکڑ دھکڑ کرے کہ ہم ہی قتل ہو رہے ہیں، ہم ہی قتل کر رہے ہیں۔ مسئلہ ان دو نوجوانوں کا ہو جنھیں سیالکوٹ میں سر عام مار مار کر ہلاک کیا گیا یا نوجوان شاہ زیب کا جس کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کو دیکھ کر بقول عینی شاہدین سراج جتوئی اور شاہ رخ نے کہا کہ ''یہ ابھی زندہ ہے اور گولیاں مارو'' اور جب شاہ زیب کا دل جسم ٹھنڈا ہو گیا تو وہ وڈیروں کے بیٹے، ہوا میں کلاشنکوف یا پستول لہراتے ہوئے اپنی چمکتی دمکتی گاڑی میں یوں روانہ ہوئے جیسے انھوں نے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو۔
اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک چیف جسٹس اس المناک اور اندوہناک واقعے کا فوری نوٹس لے کر آئی جی کے خلاف ایکشن نہ لیتے یا اعلیٰ پولیس افسران کی معطلی کے احکامات نہ جاری کرتے تو اس کیس میں اتنی بھی پیش رفت نہ ہوتی۔ کوئی نہیں جانتا اور کسی کو نہیں پتہ کہ سکندر جتوئی کا بیٹا شاہ رخ راتوں رات کراچی ایئرپورٹ سے کس طرح فرار ہوا کہ بعد میں سارے قانون نافذ کرنے والے ادارے لکیر پیٹتے رہ گئے۔ اب اسی شاہ رخ کی دبئی سے واپسی کی اطلاع آئی، اس نے اپنے آپ کو پاکستانی قونصلیٹ کے سپرد کیا اور اس سطروں کی اشاعت تک وہ پاکستان لائے جا چکے ہوں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ عوام کی تمام تر نظریں چیف جسٹس آف پاکستان محترم افتخار محمد چوہدری کی جانب لگی ہوئی ہیں، جن کے جرأت مندانہ فیصلے پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے یہ اور بات کہ حکومت کے بعض اعلیٰ عہدیداران نے ٹی وی کے مختلف ٹاک شو میں آ کر چیف جسٹس کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے جس میں سے چند ایک نے اس کی تردید کی اور کسی نے معذرت۔
آج جب کہ ہم وقت کے پگھلتے ہوئے لاوے پر برہنہ پا چل رہے ہیں۔ کوئی بتائے کہ ہمارا لیڈر کون ہے؟ وہ جسے صحیح معنوں میں لیڈر کہا جاتا ہے جو ملک کی تقدیر اپنی حکمت عملی حب الوطنی، دانشمندی اور درد مندی سے بدل دیتا ہے۔
ہم کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں
کہ اب تو ہاتھ بھی دستانے سمیت غائب ہو چکے ہیں۔ کبھی ایک فون پر، کبھی ایک وزٹ پر، وفاداریاں بدل جاتی ہیں۔ سب کو اپنا مفاد عزیز ہے سب کو اپنی کرسی، جو کام گولہ بارود اور خودکش جیکٹ نہیں کر سکتی وہ نوٹوں سے بھرا ہوا ایک سوٹ کیس کر دیتا ہے۔
''لوٹا کریسی'' تو ایک بہت معمولی سی چھوٹی سی اصطلاح ہے جو اب عوام کے لیے باعث حیرت نہیں رہی، حیرت تو اس بات پر ہونی چاہیے کہ فلاں رہنما ابھی تک خریدا کیوں نہ جا سکا؟
قارئین! اخبارات کے صفحات سیاہ ہوتے رہیں گے، قلم کی روشنائی خون کے قطروں میں تبدیل ہو جائے گی، دلائل اور جواز فضا میں گردش کرتے رہیں گے مگر:
یہ دنیا یونہی رہے گی اور سارے جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ قتل ہونے والے بھی مسلمان ہیں اور قتل کرنے والے بھی مسلمان، مگر کیا ملک کی موجودہ فضا اور حالات حاضرہ کو دیکھ کر ہم یہ کیسے یقین کر لیں کہ مساجد میں سر بسجود ہونے والوں کو اﷲ کے سامنے سر جھکانے والوں نے ہی قتل کیا ہے۔
سچ جانیے کہ اگر اب بھی اس خوبصورت سر زمین کو نہ سنبھالا گیا تو خونخوار بھیڑیوں کے وہ غول (دہشت گرد) میرے محبوب وطن کو نگلنے میں دیر نہ کریں گے۔
کیا قیامت ہے کہ کوئٹہ میں ایک آن میں پچاسی لوگ شہید ہو گئے اور حکومت بلوچستان خاموش تماشائی بنی رہی، ان کے وزیر اعلیٰ، گورنر، وزراء، ایم این ایز، ایم پی ایز اپنی بڑی بڑی لینڈ کروزر اور پجیرو سے نکل کر اس خوں بستہ، خونچکاں جگہ نہ پہنچ سکے جہاں بکھرے ہوئے انسانی اعضا اپنے قصور کا سوال کر رہے تھے۔
یہ کیسا ملک ہے، کیسا قانون ہے؟ شاید جنگل سے بھی بدتر، جہاں شیر، شیر کو، ہاتھی، ہاتھی کو نہیں کھاتا، مگر یہاں مسلمان ہی مسلمان کے لہو کا پیاسا ہے پھر بھی اس کی تشنگی کم نہیں ہوتی بلکہ وہ بڑی جرأتمندی اور سنگدلی سے اقرار کرتا ہے کہ فلاں حملے کی ذمے داری لشکر جھنگوی نے، فلاں کی کالعدم تحریک طالبان نے اور فلاں فلاں ''اسلامی'' تنظیم نے قبول کر لی ہے۔
کراچی لہولہان ہے اور اب اسمبلیوں میں ''بل'' پاس ہو رہے ہیں، ترقیاتی کام رک چکے ہیں اور سرکار کی تشہیری مہم میڈیا پر چل رہی ہے۔ واحد حکومت ہے جہاں دہشت گرد ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ
دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دیے ''قاتل'' ہم نے
جنھیں پکڑنے سے حکومت قاصر ہے اور کس منہ سے ان کی پکڑ دھکڑ کرے کہ ہم ہی قتل ہو رہے ہیں، ہم ہی قتل کر رہے ہیں۔ مسئلہ ان دو نوجوانوں کا ہو جنھیں سیالکوٹ میں سر عام مار مار کر ہلاک کیا گیا یا نوجوان شاہ زیب کا جس کی اکھڑتی ہوئی سانسوں کو دیکھ کر بقول عینی شاہدین سراج جتوئی اور شاہ رخ نے کہا کہ ''یہ ابھی زندہ ہے اور گولیاں مارو'' اور جب شاہ زیب کا دل جسم ٹھنڈا ہو گیا تو وہ وڈیروں کے بیٹے، ہوا میں کلاشنکوف یا پستول لہراتے ہوئے اپنی چمکتی دمکتی گاڑی میں یوں روانہ ہوئے جیسے انھوں نے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو۔
اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ ایک چیف جسٹس اس المناک اور اندوہناک واقعے کا فوری نوٹس لے کر آئی جی کے خلاف ایکشن نہ لیتے یا اعلیٰ پولیس افسران کی معطلی کے احکامات نہ جاری کرتے تو اس کیس میں اتنی بھی پیش رفت نہ ہوتی۔ کوئی نہیں جانتا اور کسی کو نہیں پتہ کہ سکندر جتوئی کا بیٹا شاہ رخ راتوں رات کراچی ایئرپورٹ سے کس طرح فرار ہوا کہ بعد میں سارے قانون نافذ کرنے والے ادارے لکیر پیٹتے رہ گئے۔ اب اسی شاہ رخ کی دبئی سے واپسی کی اطلاع آئی، اس نے اپنے آپ کو پاکستانی قونصلیٹ کے سپرد کیا اور اس سطروں کی اشاعت تک وہ پاکستان لائے جا چکے ہوں گے۔
سچ تو یہ ہے کہ عوام کی تمام تر نظریں چیف جسٹس آف پاکستان محترم افتخار محمد چوہدری کی جانب لگی ہوئی ہیں، جن کے جرأت مندانہ فیصلے پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے یہ اور بات کہ حکومت کے بعض اعلیٰ عہدیداران نے ٹی وی کے مختلف ٹاک شو میں آ کر چیف جسٹس کی شان میں بھی نازیبا الفاظ استعمال کیے جس میں سے چند ایک نے اس کی تردید کی اور کسی نے معذرت۔
آج جب کہ ہم وقت کے پگھلتے ہوئے لاوے پر برہنہ پا چل رہے ہیں۔ کوئی بتائے کہ ہمارا لیڈر کون ہے؟ وہ جسے صحیح معنوں میں لیڈر کہا جاتا ہے جو ملک کی تقدیر اپنی حکمت عملی حب الوطنی، دانشمندی اور درد مندی سے بدل دیتا ہے۔
ہم کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں
کہ اب تو ہاتھ بھی دستانے سمیت غائب ہو چکے ہیں۔ کبھی ایک فون پر، کبھی ایک وزٹ پر، وفاداریاں بدل جاتی ہیں۔ سب کو اپنا مفاد عزیز ہے سب کو اپنی کرسی، جو کام گولہ بارود اور خودکش جیکٹ نہیں کر سکتی وہ نوٹوں سے بھرا ہوا ایک سوٹ کیس کر دیتا ہے۔
''لوٹا کریسی'' تو ایک بہت معمولی سی چھوٹی سی اصطلاح ہے جو اب عوام کے لیے باعث حیرت نہیں رہی، حیرت تو اس بات پر ہونی چاہیے کہ فلاں رہنما ابھی تک خریدا کیوں نہ جا سکا؟
قارئین! اخبارات کے صفحات سیاہ ہوتے رہیں گے، قلم کی روشنائی خون کے قطروں میں تبدیل ہو جائے گی، دلائل اور جواز فضا میں گردش کرتے رہیں گے مگر:
یہ دنیا یونہی رہے گی اور سارے جانور
اپنی اپنی بولیاں سب بول کر اڑ جائیں گے
اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ قتل ہونے والے بھی مسلمان ہیں اور قتل کرنے والے بھی مسلمان، مگر کیا ملک کی موجودہ فضا اور حالات حاضرہ کو دیکھ کر ہم یہ کیسے یقین کر لیں کہ مساجد میں سر بسجود ہونے والوں کو اﷲ کے سامنے سر جھکانے والوں نے ہی قتل کیا ہے۔
سچ جانیے کہ اگر اب بھی اس خوبصورت سر زمین کو نہ سنبھالا گیا تو خونخوار بھیڑیوں کے وہ غول (دہشت گرد) میرے محبوب وطن کو نگلنے میں دیر نہ کریں گے۔