اس عُمر میں اچھی سڑک ہی بچا سکتی ہے
ملکی تعمیر و ترقی اور نقل وحمل میں سڑکیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں
ملکی تعمیر و ترقی اور نقل وحمل میں سڑکیں بنیادی اہمیت رکھتی ہیں لیکن ہمارے ہاں خاص طور پر صوبہ پنجاب میں ان کی صورتحال کا اندازہ مجھے گزشتہ دنوں گاؤں جانے کے بعد زیادہ شدت سے ہوا کیو نکہ اس عمر میں اگر سفر کے لیے آرام دہ گاڑی اور پختہ سڑک نہ ہو تو جسم کا رواں رواں ہل کر رہ جاتا ہے۔
میری پرانی مرسیڈیز کا جو کہ اب اپنے مالک کی طرح عمر رسیدہ ہونے کے باعث لمبے سفر کے لیے موزوں نہیں رہی اور میرا اب گزارا جاپانی گاڑیوں پر ہو رہا جو کہ مرسیڈیز کی طرح آرام دہ تو نہیں لیکن لمبے سفر کے لیے قابل بھروسہ ضرور ہیں۔
میرے قارئین جو اکثر میرے آبائی علاقہ وادی سون کے متعلق میری معروضات پڑھتے اور برداشت کرتے رہتے ہیں ان کو میں آج ایک بار پھر یہ پڑھانا چاہتا ہوں کہ میرے آبائی ضلع خوشاب میں اور خاص طور پر وادی سون میں سڑکوں کا جو جال آج سے تقریباً تین دہائیوں قبل سندھ کی نمایندگی کرنے والے مرحوم وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے دور میں بچھایا گیا تھا وہ اپنی مدت کئی سال پہلے ہی پوری کر کے اپنے انجام کو تو پہنچ ہی گیا تھا۔
مرحوم جونیجو صاحب کا دور حکومت جس کا میں بھی قریبی گواہ ہوں چونکہ وہ خود اندرون سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور انکو عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ تھا انھوں نے ملکی ترقی کے لیے کئی انقلابی اقدامات کیے تھے جن میں دور دراز علاقوں سڑکوں کے علاوہ اقراء تعلیمی پراجیکٹ کے نام سے گاؤں کی سطح پر بنیادی پرائمری تعلیم کا آغاز بھی کیا گیا کیونکہ شاید وہ یہ سمجھتے تھے کہ تعلیم ہی وہ سستا ترین ذریعہ ہے جس سے ملکی حالات کو بدلا جا سکتا ہے اس لیے انھوں نے گاؤں گاؤں بنیادی تعلیم فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس پراجیکٹ پر خاطر خواہ توجہ نہ دی اور پہلے تو اس کا معیار گر گیا اور پھر آہستہ آہستہ یہ پراجیکٹ ختم ہو گیا اور اس کی عمارتیں بھی ہماری انتظامیہ کی روائتی سستی کے باعث زمانے کے حوادث کا شکار ہو گئیں ان کے کھنڈرات دور دراز علاقوں میں اب موجود ہیں اور اپنے حالات کی بے بسی کا رونا رو رہے ہیں اور آثار قدیمہ کی یاد دلاتے ہیں۔
اسی طرح انھوں نے سڑکوں کا ایسا جال بچھا دیا تھا جو کہ ملک بھر کے کاشتکاروں کے لیے اپنی اجناس کو منڈیوں تک پہنچانے کا آسان ذریعہ ثابت ہوا لیکن برُا ہو اس حکمرانی کا اور حکمران طبقے کا جنہوں نے یہاں پر بھی اسی غفلت کا مظاہرہ کیا اور اب یہ سڑکیں اپنے مسافروں کے لیے آرام دہ سفر کے بجائے اچھلتے کودتے سفر کا سبب بن گئی ہیں۔
ان کا ایک اور بڑا کام ان علاقوں میں بجلی کی فراہمی تھی جن کا ان علاقوں کے رہنے والوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا، ان کی وجہ سے گاؤں گاؤں اور ایسے دشوار گزار علاقوں میں بھی بجلی کا بلب روشن ہوا جہاں پر سر شام مٹی کے تیل سے لالٹین جلانے کی تیاری شروع کر دی جاتی تھی اور میں اس کا خود عینی شاہد بھی ہوں کیونکہ میرے گاؤں والے گھر میں بھی شام سے پہلے ایک بڑا کام لالٹین کے شیشے کو راکھ سے صاف کرنا ہوتا تھا تاکہ اس کی روشنی سے اندھیروں میں کمی کی جاسکے اور اگر کسی گھر میںایک سے زیادہ لالٹین جلائی جاتی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ اس گھر کا کوئی بچہ رات گئے تک اس کی روشنی میں پڑھ کر اپنی دنیا کو منور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ایک اور بات بھی یاد آ رہی ہے کہ جونیجو صاحب نے ملک بھر کے بابوؤں سے بڑی سرکاری گاڑیوں کو واپس لے کر ان کو پاکستانی ساختہ چھوٹی گاڑیوں میں سفر پر مجبور کر دیا تھا اور بڑی بڑی لگژری گاڑیوں کو نیلام کر کے رقم قومی خزانے میں جمع کرا دی گئی تھی، ہماری اشرافیہ اور انتظامیہ جو کہ اس طرح کے انقلابی اقدامات کی عادی نہیں تھی کیونکہ انھوں نے اس ملک کے وسائل کو مسلسل جس بے دردی کے ساتھ استعمال کیا ان کو مرحوم جونیجو کا طرز حکمرانی پسند نہیں آیا تھا کیونکہ وہ سرکاری وسائل سے جن آسائشوں کے عادی ہو چکے تھے ان کو ترک کرنا شائد اب مشکل ہو گیا تھا انھوں نے ان کی کامیابی کے لیے اقدامات کرنے کے بجائے ان کی حکومت کا ہی بوریا بستر گول کر دیا اور اس کے بعد کی لمبی داستان ہے کہ محمد خان جونیجو جو کہ مسلم لیگ کے صدر بھی تھے اور مرحوم اقبال احمد خان ان کے جنرل سیکریٹری جنہوں نے جونیجو صاحب کی وفات کے بعد ائر پورٹ پر ہی ان کی جانشینی کے خواہشمندوں کو ان کی تدفین تک صبر کرنے کا کہا۔
میں بات کر رہا تھا ملکی سڑکوں کی بد حالی کی لیکن درمیان میں جونیجو صاحب اپنے انقلابی اقدامات کی وجہ سے یاد آگئے کیونکہ میرے علاقے میں زیادہ تر ترقیاتی کام ان کی حکومت کے دوران ہی ہوئے تھے اس کے لیے ہم ان کے ہمیشہ ممنون رہتے ہیں ۔ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے کامیاب سیاست سے ان کی جانشینی تو حاصل کر لی لیکن ان کی پیروی شاید اس طرح نہ کرسکے جس کا بیج بویا گیا تھا۔
شیر شاہ سوری کے نعرے تو خوب زور شور سے لگائے گئے اور لگائے جا رہے ہیں لیکن صرف شاید لاہور کی حد تک کیونکہ میں جب گاؤں کے لیے عازم سفر ہوا تو مجھے خبردار کیا گیا کہ اگر جان کی امان چاہتا ہوں تو روائتی راستے خوشاب سے براہ راست وادی سون میں اپنے گاؤں آنے کی غلطی نہ کروں کیونکہ یہ سڑک پچھلے کئی سالوں سے ارباب اختیار کی توجہ سے محروم ہے اور دوسرا لمبا راستہ اختیار کروں کیونکہ اسی صورت میں صحیح سلامت اپنے پرانے دوستوں اور رشتہ داروں کا دیدار کر سکوں گا۔
اپنے گاؤں کے کاشتکاروں کی سہولت کے لیے ایک سڑک میں نے بھی اس وقت کے وزیر اعلیٰ میاں نواز شریف سے منظور کرائی تھی جس کا سرکاری نام بھی نواز شریف روڈ ہے اور یہ چھ کلومیٹر لمبی سڑک بھی تیس سال کے بعد اپنی بربادی کا ایک نمونہ ہے اور میرے گاؤں کھوڑہ کے رہنے والے جیسے تیسے اس کو استعمال کر رہے ہیں اور مجھے اس کی تعمیر کی بار بار یاد دہانی بھی کراتے رہتے ہیں کیونکہ وہ سادہ لوح لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایک صحافی سب کچھ کرا سکتا ہے لیکن باوجود کوشش کے میں اس کی دوبارہ تعمیر سے قاصر رہا ہوں۔
ہم گاؤں کے رہنے والے لوگ اپنی روایات سے جنون کی حد تک پیار بھی کرتے ہیں اور ان کو نبھاتے بھی ہیں اس لیے بار بار اپنے آبائی گاؤں جانے میں جو لطف آتا ہے اور جو پیار ملتا ہے اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا، جیسے تیسے سفر توگزر گیا اور میں صحیح سلامت واپس لاہور بھی پہنچ گیا لیکن جو چیز مجھے ہضم نہیں ہو رہی کہ ہر وقت متحرک رہنے والے پچھلے نو سال سے خادم اعلیٰ پنجاب کو لاہور سے باہر کے اضلاع کی تعمیر و ترقی پر توجہ دینی چاہیے تھی لیکن جن حالات کا میں نے مشاہدہ کیا ہے اس سے تو لاہور میں رہنا جرم محسوس ہوتا ہے اور ضمیر پر ایک بوجھ بن گیا ہے کہ میں اپنے قلم کے ذریعے اپنے آبائی علاقے کی خدمت سے قاصر رہا ہوں جو کہ بہت پہلے مجھے کر دینی چاہیے تھی کیونکہ ہم اخبار نویسوں کا کام تو صاحب اقتدار تک عوام کی بات کو پہنچا دینا ہوتا ہے آگے ان کی مرضی کہ وہ ہماری معروضات کو قابل توجہ سمجھیں اور عوامی مسائل کے حل کے لیے اقدامات کریں جس سے سب کا بھلا ہو نہ کہ چند مخصوص علاقوں کا۔