سانحہ پارا چنار
پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے سیکیورٹی اداروں، معصوم شہریوں اور املاک پر حملے1987ء سے جاری ہیں
پی ایس ایل فائنل سے چند روز قبل لاہور میں 13 فروری کو اسمبلی بلڈنگ کے قریب خود کش حملے، 16 فروری کو سیہون شریف میں صوفی بزرگ حضرت لعل شہباز قلندرکی درگاہ پر خود کش حملے کے ڈیڑھ مہینے بعد جمعہ 31 مارچ کو افغانستان کی سرحد کے قریب واقع پارا چنار میں نماز جمعہ کے لیے امام بارگاہ جانے والوں پر حملہ ہوا۔ خواتین اور بچوں سمیت بائیس سے زائد افراد شہید ہوئے۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون۔)
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے پاکستانی عوام کا مکمل اور بھرپور تعاون درکار ہے۔ عوام نے پاکستان کی مسلح افواج کو اپنے بھرپور اعتماد اور تعاون سے ہمیشہ نوازا ہے تاہم عوامی اعتماد کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مختلف اسباب کے بار بار اعادہ کیا جاتا رہے اور عوام کو اس خطرے کے مختلف پہلوؤں سے زیادہ سے زیادہ آگاہ رکھا جائے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے سیکیورٹی اداروں، معصوم شہریوں اور املاک پر حملے1987ء سے جاری ہیں۔افغانستان پر سوویت روس کے غاضبانہ قبضے کے بعد سے اس خطے کی صورت حال انتہائی پیچیدہ اور غیر یقینی رہی ہے۔ پاکستان کو اپنے دفاع اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی اختیارکرنا پڑی ہیں۔ ایک وقت کے حریف ، حلیف اور بدلتے وقت میں حریف بنتے رہے ہیں۔ افغانستان میں حکومتوں کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بارے میں افغان پالیسیاں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے ایسے قریبی اتحادی رہے کہ امریکی حکومتیں پاکستان کو اپنا اچھا دوست قرار دیتی رہیں تو کبھی امریکا میں پاکستان کے بارے میں شکوک وشبہات کو حاوی کرکے پاکستان کے ساتھ سرد مہری پر مبنی رویے اختیار کیے گئے۔ سوویت یونین کبھی پاکستان کا سخت مخالف تھا، آج روس اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اوراشتراک کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ تاہم اس خطے میں پاکستان کے بارے میں دو ملکوں کی پالیسیاں غیرمتغیر رہی ہیں۔
۱۔ عوامی جمہوریہ چین کی پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی دوستی اور شاندار تعلقات کو ترقی دینے کی پالیسی۔
۲۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی پر مبنی پالیسی۔
بھارت کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین نکتہ پاکستان کی مخالفت اور پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ بھارت یہ کوشش بھی کرتا رہتا ہے کہ افغان حکومت اپنے پڑوسی اسلامی ملک پاکستان کے خلاف پالیسیاں بنائے، پاکستان میں امن تباہ کرنے والوں کی افغانستان میں پناہ دلوائی جائے اور افغان سرزمین کو پاکستان مخالف عناصر کی تربیت گاہ اور ٹھکانوں کے طور پر استعمال کیا جائے۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں سمیت دو ہزارچار سو تیس کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد بھی پاکستان میں مداخلت کے لیے آسان گزرگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کا پاکستان کے خلاف بھارتی پالیسیوں کی ہم نوائی اور بھارت کے ساتھ تعاون بھی عیاں ہے۔ ان دو ممالک کے علاوہ پاکستان میں بے امنی اور بعض دوسرے مسائل کے دیگر بیرونی اور اندرونی اسباب بھی ہیں۔ سال رواں میں ہونے والے چند دہشت گرد حملے بھی حکومت اور سیکیورٹی کے اداروں کے لیے کھلا چیلنج ہی نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے واضح پیغام بھی ہیں۔
بھارتی اور افغان حکومتوں کے علاوہ ہمارے ارد گرد بعض دیگر قوتیں بھی پاکستانی معاشرے کے بنیادی خدوخال کو تبدیل اور سماجی تانے بانے کو ڈسٹرب کرنا چاہتی ہیں۔ ان قوتوں کے آلۂ کار بن جانے والوں کو بھی مختلف کیٹگریز میں رکھا جاسکتا ہے۔ آلۂ کار بننے والے کچھ لوگ جانتے ہیں کہ رقم، مراعات یا مفادات حاصل کرکے وہ کس کے مفاد میں اورکس کے خلاف کام کررہے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے نظریات ، اپنے ایجنڈے کے لیے کسی بیرونی طاقت سے سہارے یا مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ان میں مذہبی، سیاسی، سماجی، روایت پرست یا جدت پرست ہر طرح کے فعال افراد Activist شامل ہیں۔
کچھ لوگ بعض مسلکی عقائد یا سیاسی و سماجی نظریات کو اپنالیتے ہیں اور اپنے ان مقاصد یا نظریات کی پروموشن سمجھتے ہوئے انجانے میں کسی کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے عقائد کو معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب ایک کثیر تعداد ان کی ہم خیال بن جاتی ہے تو کسی بیرونی طاقت کو انھیں مالی مدد فراہم کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
پاکستان خطے کے چند ممالک کی پراکسی وارکا میدان بھی رہا ہے۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکا کے ساتھ پاکستان کے مغرب میں واقع اسلامی ممالک کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ سے بھی پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ خطے کی بعض قوتیں پاکستان کی سلامتی کے لیے ہی خطرہ نہیں بلکہ کئی عناصر اہلِ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو بھی کمزور کر دینا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں از شمال تا جنوب اور از مشرق تا مغرب بسنے والے نوے فیصد سے زائد افراد کی سوچ دینِ اسلام کے آفاقی پیغام اور اس خطے میں دینِ اسلام کے سب سے نمایاں مبلغین اولیاء اللہ کی طرزِ فکر سے تشکیل پائی ہے۔ اس خطے کے مسلمانوں میں (اورکئی غیر مسلموں میں بھی) انسانیت سے محبت، رواداری، اخلاص اور بھائی چارے کے جذبات اولیاء اللہ کی تبلیغی، تعلیمی اور اصلاحی کاوشوں کا حاصل ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی عوام میں کئی اچھائیوں اور خیر کے جذبات پر مبنی مائنڈ سیٹ دراصل اولیاء اللہ سے محبت، عقیدت اور ان کی صوفیانہ تعلیمات کا نتیجہ ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے ذریعے پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کامیابیوں پر پوری قوم اپنی مسلح افواج کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے محفوظ اور فسادیوں سے پاک کرنے کے لیے مسلح افواج نے اب آپریشن رد الفساد شروع کیا ہے۔ پاکستان کی حفاظت کے لیے فوج، ایف سی، پولیس، رینجرز اور سیکیورٹی کے دیگر اداروں کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب، اس سے قبل آپریشن راہ راست اور افواج کی جانب سے دیگر کئی آپریشنز کی کامیابیوں کے پیش نظر قوم کو یقین ہے کہ آپریشن رد الفساد کے مقاصد بھی جلد حاصل کرلیے جائیں گے۔ تاہم دہشت گردی، بے امنی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایک پرامن، محفوظ، مضبوط اور خوش حال ملک بنانے اور پاکستانی سماج کی حقیقی تصویر کی بحالی کے لیے ان فوجی آپریشنز کے علاوہ معاشی اور کئی سماجی شعبوں میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اور سماج کی صورت گری میں حصہ لینے والے اہم اداروں خصوصاً شعبہ تعلیم، میڈیا، ادب، اسپورٹس، فن و ثقافت سے وابستہ افراد کو پاکستانی سماج کی حقیقی تصویر کو سامنے لانے کے لیے اپنا اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ ڈپلومیسی کی نزاکتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی قوم کو واضح طور پر بتانا چاہیے کہ پاکستان کو درپیش اصل چیلنجز کیا ہیں؟ کوئی خود کش حملہ ہو یا بم دھماکا ہو، مذہبی شدت پسندوں اور لبرل انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستانی عوام میں خوف اور شکوک پھیلانے کی کوششیں ہوں، یہ جاننا چاہیے کہ ان کے پس پردہ کون سی قوتیں ہیں؟
یہ حقیقت اب اکثر لوگوں کے علم میں ہے کہ صرف لبرل انتہا پسند اور مغرب کے کسی پاکستان مخالف ایجنڈے کی تکمیل میں معروف بعض این جی اوز ہی نہیں بلکہ کئی مذہبی تنظیمیں بھی پاکستان میں اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے غیر ملکی فنڈنگ اور غیر ملکی ہدایات لیتی رہی ہیں۔
پاکستانی قوم نا صرف اس خطے میں بلکہ ایشیاء اور افریقا کے سب اسلامی ممالک میں ایک منفرد اور ممتاز قوم ہے۔ پاکستان کے دشمن پاکستان کی راہیں روکنا چاہتے ہیں تو پاکستان کے کچھ دوست بھی پاکستان میں موجود پوٹینشل کو اپنے کاروباری مفادات کے لیے چیلنج سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنے دشمن ملک کی پالیسیوں اور چالوں سے باخبر رہنے کے ساتھ حال یا مستقبل میں اپنے کاروباری حریف چند دوستوں کی حکمت عملیوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے پاکستانی عوام کا مکمل اور بھرپور تعاون درکار ہے۔ عوام نے پاکستان کی مسلح افواج کو اپنے بھرپور اعتماد اور تعاون سے ہمیشہ نوازا ہے تاہم عوامی اعتماد کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے مختلف اسباب کے بار بار اعادہ کیا جاتا رہے اور عوام کو اس خطرے کے مختلف پہلوؤں سے زیادہ سے زیادہ آگاہ رکھا جائے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے سیکیورٹی اداروں، معصوم شہریوں اور املاک پر حملے1987ء سے جاری ہیں۔افغانستان پر سوویت روس کے غاضبانہ قبضے کے بعد سے اس خطے کی صورت حال انتہائی پیچیدہ اور غیر یقینی رہی ہے۔ پاکستان کو اپنے دفاع اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے وقت کے تقاضوں کے مطابق حکمت عملی اختیارکرنا پڑی ہیں۔ ایک وقت کے حریف ، حلیف اور بدلتے وقت میں حریف بنتے رہے ہیں۔ افغانستان میں حکومتوں کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بارے میں افغان پالیسیاں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔
امریکا اور پاکستان ایک دوسرے کے ایسے قریبی اتحادی رہے کہ امریکی حکومتیں پاکستان کو اپنا اچھا دوست قرار دیتی رہیں تو کبھی امریکا میں پاکستان کے بارے میں شکوک وشبہات کو حاوی کرکے پاکستان کے ساتھ سرد مہری پر مبنی رویے اختیار کیے گئے۔ سوویت یونین کبھی پاکستان کا سخت مخالف تھا، آج روس اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اوراشتراک کی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ تاہم اس خطے میں پاکستان کے بارے میں دو ملکوں کی پالیسیاں غیرمتغیر رہی ہیں۔
۱۔ عوامی جمہوریہ چین کی پاکستان کے ساتھ انتہائی قریبی دوستی اور شاندار تعلقات کو ترقی دینے کی پالیسی۔
۲۔ بھارت کی پاکستان کے ساتھ دشمنی پر مبنی پالیسی۔
بھارت کی خارجہ پالیسی کا اہم ترین نکتہ پاکستان کی مخالفت اور پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا ہے۔ بھارت یہ کوشش بھی کرتا رہتا ہے کہ افغان حکومت اپنے پڑوسی اسلامی ملک پاکستان کے خلاف پالیسیاں بنائے، پاکستان میں امن تباہ کرنے والوں کی افغانستان میں پناہ دلوائی جائے اور افغان سرزمین کو پاکستان مخالف عناصر کی تربیت گاہ اور ٹھکانوں کے طور پر استعمال کیا جائے۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں سمیت دو ہزارچار سو تیس کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد بھی پاکستان میں مداخلت کے لیے آسان گزرگاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی را کی جانب سے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کے لیے مختلف طریقوں کا استعمال کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کا پاکستان کے خلاف بھارتی پالیسیوں کی ہم نوائی اور بھارت کے ساتھ تعاون بھی عیاں ہے۔ ان دو ممالک کے علاوہ پاکستان میں بے امنی اور بعض دوسرے مسائل کے دیگر بیرونی اور اندرونی اسباب بھی ہیں۔ سال رواں میں ہونے والے چند دہشت گرد حملے بھی حکومت اور سیکیورٹی کے اداروں کے لیے کھلا چیلنج ہی نہیں بلکہ پاکستانی معاشرے کے مختلف طبقات کے لیے واضح پیغام بھی ہیں۔
بھارتی اور افغان حکومتوں کے علاوہ ہمارے ارد گرد بعض دیگر قوتیں بھی پاکستانی معاشرے کے بنیادی خدوخال کو تبدیل اور سماجی تانے بانے کو ڈسٹرب کرنا چاہتی ہیں۔ ان قوتوں کے آلۂ کار بن جانے والوں کو بھی مختلف کیٹگریز میں رکھا جاسکتا ہے۔ آلۂ کار بننے والے کچھ لوگ جانتے ہیں کہ رقم، مراعات یا مفادات حاصل کرکے وہ کس کے مفاد میں اورکس کے خلاف کام کررہے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے نظریات ، اپنے ایجنڈے کے لیے کسی بیرونی طاقت سے سہارے یا مدد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ ان میں مذہبی، سیاسی، سماجی، روایت پرست یا جدت پرست ہر طرح کے فعال افراد Activist شامل ہیں۔
کچھ لوگ بعض مسلکی عقائد یا سیاسی و سماجی نظریات کو اپنالیتے ہیں اور اپنے ان مقاصد یا نظریات کی پروموشن سمجھتے ہوئے انجانے میں کسی کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے عقائد کو معاشرے میں پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ جب ایک کثیر تعداد ان کی ہم خیال بن جاتی ہے تو کسی بیرونی طاقت کو انھیں مالی مدد فراہم کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
پاکستان خطے کے چند ممالک کی پراکسی وارکا میدان بھی رہا ہے۔ مغربی ممالک خصوصاً امریکا کے ساتھ پاکستان کے مغرب میں واقع اسلامی ممالک کے تعلقات میں اُتار چڑھاؤ سے بھی پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک متاثر ہوتے ہیں۔ خطے کی بعض قوتیں پاکستان کی سلامتی کے لیے ہی خطرہ نہیں بلکہ کئی عناصر اہلِ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو بھی کمزور کر دینا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں از شمال تا جنوب اور از مشرق تا مغرب بسنے والے نوے فیصد سے زائد افراد کی سوچ دینِ اسلام کے آفاقی پیغام اور اس خطے میں دینِ اسلام کے سب سے نمایاں مبلغین اولیاء اللہ کی طرزِ فکر سے تشکیل پائی ہے۔ اس خطے کے مسلمانوں میں (اورکئی غیر مسلموں میں بھی) انسانیت سے محبت، رواداری، اخلاص اور بھائی چارے کے جذبات اولیاء اللہ کی تبلیغی، تعلیمی اور اصلاحی کاوشوں کا حاصل ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستانی عوام میں کئی اچھائیوں اور خیر کے جذبات پر مبنی مائنڈ سیٹ دراصل اولیاء اللہ سے محبت، عقیدت اور ان کی صوفیانہ تعلیمات کا نتیجہ ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے ذریعے پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کامیابیوں پر پوری قوم اپنی مسلح افواج کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی سے محفوظ اور فسادیوں سے پاک کرنے کے لیے مسلح افواج نے اب آپریشن رد الفساد شروع کیا ہے۔ پاکستان کی حفاظت کے لیے فوج، ایف سی، پولیس، رینجرز اور سیکیورٹی کے دیگر اداروں کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔
آپریشن ضرب عضب، اس سے قبل آپریشن راہ راست اور افواج کی جانب سے دیگر کئی آپریشنز کی کامیابیوں کے پیش نظر قوم کو یقین ہے کہ آپریشن رد الفساد کے مقاصد بھی جلد حاصل کرلیے جائیں گے۔ تاہم دہشت گردی، بے امنی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایک پرامن، محفوظ، مضبوط اور خوش حال ملک بنانے اور پاکستانی سماج کی حقیقی تصویر کی بحالی کے لیے ان فوجی آپریشنز کے علاوہ معاشی اور کئی سماجی شعبوں میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اور سماج کی صورت گری میں حصہ لینے والے اہم اداروں خصوصاً شعبہ تعلیم، میڈیا، ادب، اسپورٹس، فن و ثقافت سے وابستہ افراد کو پاکستانی سماج کی حقیقی تصویر کو سامنے لانے کے لیے اپنا اپنا مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ ڈپلومیسی کی نزاکتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی قوم کو واضح طور پر بتانا چاہیے کہ پاکستان کو درپیش اصل چیلنجز کیا ہیں؟ کوئی خود کش حملہ ہو یا بم دھماکا ہو، مذہبی شدت پسندوں اور لبرل انتہا پسندوں کی جانب سے پاکستانی عوام میں خوف اور شکوک پھیلانے کی کوششیں ہوں، یہ جاننا چاہیے کہ ان کے پس پردہ کون سی قوتیں ہیں؟
یہ حقیقت اب اکثر لوگوں کے علم میں ہے کہ صرف لبرل انتہا پسند اور مغرب کے کسی پاکستان مخالف ایجنڈے کی تکمیل میں معروف بعض این جی اوز ہی نہیں بلکہ کئی مذہبی تنظیمیں بھی پاکستان میں اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے غیر ملکی فنڈنگ اور غیر ملکی ہدایات لیتی رہی ہیں۔
پاکستانی قوم نا صرف اس خطے میں بلکہ ایشیاء اور افریقا کے سب اسلامی ممالک میں ایک منفرد اور ممتاز قوم ہے۔ پاکستان کے دشمن پاکستان کی راہیں روکنا چاہتے ہیں تو پاکستان کے کچھ دوست بھی پاکستان میں موجود پوٹینشل کو اپنے کاروباری مفادات کے لیے چیلنج سمجھتے ہیں۔ ہمیں اپنے دشمن ملک کی پالیسیوں اور چالوں سے باخبر رہنے کے ساتھ حال یا مستقبل میں اپنے کاروباری حریف چند دوستوں کی حکمت عملیوں کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔