کیا جاہلانہ رسومات جائز ہیں
جس قدرکسی قوم میں جہالت ہوگی۔ اسی قدر بدعقیدگی، توہمات، رسوم اور لامذہبی میں گرفتار ہوگی
PESHAWAR/
ISLAMABAD:
یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ جس قدرکسی قوم میں جہالت ہوگی۔ اسی قدر بدعقیدگی، توہمات، رسوم اور لامذہبی میں گرفتار ہوگی۔ مذہب ہی ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کو اس وقت جب کوئی طاقت کام نہیں کرسکتی برے کام کرنے سے روکتی ہے، ورنہ بیٹھے بٹھائے کسی کو ضرورت تھی کہ خواہ مخواہ مذہب کے چکر میں پڑتا۔ اپنی خواہشوں کے خلاف بعض عیش اپنے اوپر حرام کرلیتا۔
شام کے وقت ایک شخص کو اطلاع ملتی ہے کہ فلاں گھر میں سناٹا ہے اور روپیہ صندوق میں موجود ہے۔ زیور کی صندوقچی رکھی ہے اور صرف ایک بڑھیا حفاظت کررہی ہے یہ مصمم قصد کرلیتا ہے کہ آدھی رات کے وقت بڑھیا کو قتل کردوںگا اور تمام مال لے آئوںگا۔ وہ اس کے لیے تیار ہوتا ہے۔ گھر میں نقب لگاتا ہے اور اندر پہنچ کر دیکھتا ہے صندوق اور صندوقچے رکھے ہیں۔ بڑھیا کے پیٹ میں چھری بھوکنے کا قصد کرتا ہے۔
یہ آدھی رات کا وقت ہے، اس کے پاس کوئی مشیر یا صلاح کار نہیں ہے مگر یہاں ایک طاقت ہے جو اس کا ہاتھ روکتی ہے اور کہتی ہے کہ اپنی موت کے بعد ایک ''ڈے آف ججمنٹ'' یعنی یوم الحق بھی ہے! بڑھیا غریب ہے کمزور ہے اس کا قتل درست نہیں۔
اس طاقت کا نام ایمان، ضمیر کا یا مذہب، رسوم بھی اسی خراب فعل کی ایک شاخ ہے۔ یعنی رسوم میں کسی نہ کسی طرح خدا کے اختیارات کو معطل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھولوں یا نتیجے میں اس لیے ایک معقول رقم صرف کردی گئی ہے کہ خدا مجبور ہے کہ مردے کی مغفرت کردے۔ یہی کیفیت شادی کی رسوم کی ہے کہ اگر خدا کے اختیارات سلب نہیں کیے تو کم از کم اس سے تعلقات منقطع کردیے گئے ہیں۔ طرفہ یہ ہے کہ ادائیگی رسوم نام ہے لا مذہبی اور خدا سے دوری کا۔ شب برأت کے حلوے، پٹاخے، عقیقہ کی دھوم دھام، یہ تمام باتیں انسان کی لا مذہبی کا ثبوت ہیں کیونکہ مسلمان کو تو اﷲ یہ حکم دیتاہے کہ:
فضول خرچیوں سے بچو! کیونکہ مسرفوں کو ﷲ دوست نہیں رکھتا۔
پھر اگر کوئی مسلمان شادی، غمی یا اور کسی رسم میں روپیہ ضایع کرے تو وہ ﷲ کا دشمن ہوا۔
یہ مضمون کا ایک حصہ تھا جو علامہ راشد الخیری کے اصلاحی پرچے عصمت میں 1922میں چھپا تھا یہ پرچہ خواتین کی اصلاح کے حوالے سے تھا اور خاصا مقبول تھا۔ مضمون کا عنوان تھا ''رسوم''۔
یہ وہ دور تھا جب ہندوستان کی عوام مغربی رنگ و تمدن سے خاصی متاثر ہورہی تھی یہ مغربی سیلاب ایک عجب طریقے سے جاری تھا یا شاید یہ وہی دور تھا جب اسلامی اقدار و شعار کو ایک خاص مقصد کے تحت تختۂ مشق کچھ اس طرح بنا یا گیا کہ خود مسلمان اپنے مذہب کو عائرانہ انداز میں اس طرح دیکھیں کہ انھیں اس میں کہیں نہ کہیں نقص نظر آئے اور وہی سے اس معمولی سوراخ سے پوری ساخت کو تبدیل کرلیا جائے۔ یہ انداز، یہ سوچ جو اس وقت مغربی دماغوں میں اپنا اثر جماچکی تھی اور جس کے لیے انھوں نے عملی طور پر بہت کچھ کر بھی ڈالا یہاں تک کہ تقسیم ہند سے پہلے ہی بہت سے تکلیف دہ فرقے پنپ چکے تھے اور اسی دور کے شاخسانے آج بھی مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
بہر حال جو اس وقت شیطانی ذہنوں نے سوچا اور خطیر رقم اپنے تئیں اس نیک کام پر صرف کی اس کا نتیجہ آج اس صورت میں ہے کہ مغربی مفکرین کے مطابق آیندہ آنے والے برسوں میں اسلام ایک بہت بڑے فروغ پانے والے مذہب کی حیثیت سے نمایاں ہوگا۔ کیا ہوگا اور کیا نہیں البتہ 1922 میں جس فکر، جس سوچ کو ہم آج کے دور میں پڑھتے ہیں تو بہت سی باتیں ذہن میں ابھرتی ہیں۔ ذہنی بے راہ روی جو اس دور میں ابھر رہی تھی یا موجود تھی آج بھی ہے لیکن اتنے بہت سے برسوں میں اس میں کمی یا روک تھام کے لیے کیا ہوسکا ہے کیا ان فرسودہ رسومات جو ہمارے مذہب میں حرام ہیں ان سے لوگ با خبر ہیں یا انھیں خاندانی روایات کی طرح آگے بڑھارہے ہیں تو بہت حیران کن انکشافات سامنے آتے ہیں۔
''ہمارے گائوں میں ایک جھولا لگا ہے اس جھولے میں ایک قرآن رکھا ہے جس کو کچھ منت مراد مانگنی ہوتی ہے وہ آتا ہے اور دعا مانگ کر زور سے جھولے کو جھلاتا ہے تو اس سے لوگوں کی مراد پوری ہوجاتی ہے''
رحیم یار خان کے کسی گائوں کی رہائشی اسی چھوٹی سی بچی نے نہایت عقیدت سے بتایا تو اسے خاصی تشویش ہوئی لیکن اس طرح جھولے کو ہلانے سے تو بے ادبی نہیں ہوتی غلط بات ہے ناں۔ اس میں قرآن پاک رکھا ہوتا ہے۔
نہیں کچھ بھی تو نہیں ہوتا یہ تو بہت عرصے سے رکھا ہے سب لوگ آتے ہیں جھلاتے ہیں پیسے ڈالتے ہیں چلے جاتے ہیں۔
اس بات کو تقریباً پچپن برس سے تو زیادہ ہی ہوچکے ہیں لیکن مجھے حیرت اس وقت بھی تھی کہ کسی طرح لوگ فرسودہ رسومات اورعقائد کے پیچھے مذہب کے تقدس کو بھی بھینٹ چڑھادیتے ہیں وہ نہایت افسردہ لہجے میں مخاطب تھیں۔آپ فیس بک پر جائیں یا خود ہی سرچ کرکے دیکھ لیں جاہلانہ رسومات اور اس کی پیروی کرنے والوں کی بد اعتقادی دیکھ کر آپ کا رونے کو دل چاہے گا۔ علامہ راشد الخیری کے پورے مضمون ''رسوم'' میں کچھ اختلاف ضرور ہوسکتا ہے لیکن ان کی سوچ اس وقت کے ماحول کے لحاظ سے جتنی تشویش ناک تھی آج بھی اتنے برس گزر جانے کے بعد عقائد کے حوالے سے صورت حال ایسی ہی عجیب و غریب ہے۔
کہیں لوگ آگ کے سامنے سجدہ کررہے ہیں تو کہیں چھوٹے بوڑھے پیر صاحب دھمال کے وبال میں نوجوان خواتین کے گلے میں ہاتھ ڈال کر ناچ رہے ہیں۔ خدارا یہ کون سے مذہب کی تصویر ہے جو بد عقیدہ لوگ اپنی ذہنی تسکین کے لیے لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ خاص کر اندرون پنجاب اور اس کے بعد سندھ میں جاہلانہ مذہبی سوچ کی پیروی کرنے والوں کی کمی نہیں کچھ اس طرح کی سوچ رکھنے والے حضرات داعش اور دوسری شدت پسند اسلامی تنظیموں میں شمولیت اختیار کرکے اپنے تئیں مذہب کے جس جھنڈے کو اٹھا رکھا ہے اس میں سوائے بد عقیدگی اور جاہلانہ رسوم اور کچھ نہیں۔
اسلام ایک مکمل مذہب ہے کہ اس کا تقابل دوسرے مذاہب سے کرنا بھی نا مناسب ہے لیکن اس کو اختیار کرنے میں جس قدر انسان کی روح کا عمل دخل ہے کسی بھی مذہب میں نہیں۔ ہمارے اعمال ہماری نیت ہماری سوچ اور جذبہ۔ یہ سب جانچنا کسی مذہبی مبلغ کے من میں نہیں سوائے ان کے کہ جنھوں نے یہ دنیا تخلیق کی ہے۔ تب ہی میرے آقا حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ ''اعمالوں کا دار و مدار نیتوں پر ہے'' سو ان جاہلانہ رسومات کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے مذہب میں شامل کرنا سوائے شرک کے اورکچھ نہیں۔