جدلیات تجربیت اور عقلیت کا رد و نمو
آزاد صاحب اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں کہ جرمن تفکری جدلیات میں اس کی رد و نمو ہوجاتی ہے
میری نظر سے ادریس آزاد کی ایک تحریر گزری جس میں انھوں نے صرف تجربیت اور عقلیت کے درمیان حدِ فاصل کھینچنے کی کوشش ہی نہیں کی، بلکہ ان دونوں کے درمیان اس فرق کو عیاں کرنے کی بھی سعی کی ہے جو ان کے نزدیک ناقابلِ عبور ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آزاد صاحب ماقبل کانٹین تجربیت کی اس فلسفیانہ روایت سے واقف نہیں ہیں، جس کا ظہور مذہب کے ردِ عمل کے طور ہوا تھا، اس کے علاوہ وہ ماقبل کانٹین عقلیت پسندی اور مابعد کانٹین اس فلسفیانہ روایت سے بھی ان کی شناسائی نہیں ہے، جس کی بنیاد کانٹین جدلیات نے رکھی اور بعد ازاں فختے اور ہیگل کے فلسفوں میں اس کی رد و نمو اور اس کی تکمیل کا عمل اختتام پذیر ہوا۔
میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں کہ قرآن کی وہ آیات جن میں مظاہر فطرت پر غور و فکر کرنے کا کہا گیا ہے اور جس میں'عقل' کے لیے نشانیوں کی بات کی گئی ہے،نہ کہ حسیات کے لیے، اس بات کو کل فلسفیانہ پروجیکٹ کے تسلسل میں دیکھنے کی بجائے کہ جس میں عقل کی حسیات تک تخفیف ممکن نہیں رہتی، آزاد صاحب نے اس سارے فلسفیانہ عمل کو توجہ سے سمجھے بغیر ہی چند مفروضاتی بیانات کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کردیا ہے۔ مابعد کانٹین فلسفہ یہ کہیں نہیں کہتا کہ کائنات، مظاہرِ فطرت، خارجی دنیا پر غورو فکر کرنا ختم کر دیا جائے۔ مابعد کانٹین فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ حسیات کس طریقے سے فہم، جوکہ وجودکا اثبات کرتا ہے، اس میں ''ٹرانسینڈ'' کرکے ''عقلی حسیت''تک چلی جاتی ہیں اور عقل مظاہر فطرت پر تفکرکے حوالے سے فعال ہوجاتی ہے۔
اب اس کو کسی ایسی دنیا سے حسیاتی ادراک کی ضرورت نہیں رہتی کہ جو اس سے ''الگ'' خارج میں ہے۔ بلکہ عقل بذات خود فعال ہوکر فطرت کے ساتھ اپنے تعلق کی وضاحت کرتی ہے۔ برطانوی تجربیت اور کانٹ کا حسی ادراک انھی معنوں میں فوق تجربیت ہے، کہ اس میں حسی ادراک کی دوئی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اس میں کائنات، مظاہر فطرت، خارجی دنیا کے حوالے سے انعکاس کا پہلو برقرار رہتا ہے، یہ انعکاس جامدحسیاتی انعکاس کے برعکس کثیر جہتی ہے۔ اس میں فہمی ادراک ان مقولات سے سروکار رکھتا ہے، جو علم کی تشکیل کرتے ہیں۔ تجربیت اورعقلیت کی یہی وہ'ثنویت' ہے جس میں بقول ادریس آزاد '' زمین اور آسمان کا فرق موجود ہے۔''
آزاد صاحب اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں کہ جرمن تفکری جدلیات میں اس کی رد و نمو ہوجاتی ہے۔ فختین اور ہیگلیائی جدلیات میں تجربیت اپنی رد و نمو کے ساتھ موجود ہے، جس میں خارجی انعکاس کی نوعیت حسی نہیں، بلکہ حس سے کہیں زیادہ پیچیدہ، باہمی مربوط،متحرک، کشمکش، تضاد اور افتراق جیسے مقولات کو اپنی سرشت میں سموئے ہوئے ہے، تجربی حسیت جن کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے ۔
ہمیں تو اس بات کا پہلے ہی سے علم ہے کہ تجربیت اور عقلیت فختین اور ہیگلیائی جدلیات میں نمو پاچکے ہیں۔ اس کے باوجود میں اس نکتے کی وضاحت کرنا چاہوں گا، تاکہ ان دو متضاد باتوں میں مضمر اغلاط کو نمایا ںکیا جاسکے۔
حسی ادراک اور عقل کے تفاعل میں بنیادی فرق کیا ہے اور کیا عقل حسیاتی ادراک کے اندر سے اس معروض کو لے کر اس کے خصائص جاننے کی اہلیت رکھتی ہے، جو علم کی تشکیل کرتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں ایک مثال پر غور کرنا ہوگا۔ فرض کریں کہ میرے سامنے ایک سیب پڑا ہے۔ وہ سرخ رنگ کا ہے۔ ہاتھ لگانے پر سخت محسوس ہوتا ہے۔ دیکھنے میں گول ہے۔ کھانے میں میٹھا ہے۔ یہ ہے سارے کا سارا حسیاتی ادراک!کیا عقل کو اس حسیاتی ادراک میں کوئی دلچسپی ہے یا عقل اس کے اندر سے اس بنتر کو تلاش کرتی ہے، جو بذاتِ خود عقلی و منطقی تشکیل ہے؟ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ میرا فہم سیب کو اس کی کلیت میں دیکھتا ہے۔
ظاہر ہے عقل کا کام مقولات کے استخراج کے دوران، جو کہ ایک منطقی عمل ہے، اس معروض کو اپنا عقل جب اپنا یونیورسل تشکیل دیتی ہے تو حسیات کا پارٹیکولر اس کے باطن میں سرایت کیا ہوا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اگر سیب عقل کا معروض نہ ہو تو عقل اس کے اندر مضمر مقولات کو دریافت نہیں کرسکتی۔ادریس آزاد مزید لکھتے ہیں کہ ''مابعد الطبیعات ایمان کا حصہ نہیں ہے۔'' حوالے کے طور پر آگستے کامتے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مابعد الطبیعات ایمان کے اگلے مرحلے پر شروع ہوتی ہے۔''
ایمان ان کے نزدیک ''یقین'' میں بدل جاتا ہے اور یہ ''یقین'' کیا ہے؟ اس کا مابعد الطبیعات کے ساتھ کیا تعلق ہے اس کی کوئی وضاحت نہیں کرتے۔ انھوں نے ایمان اور یقین کو اس بنیاد سے ہی کاٹ دیا، جو ایمان اور یقین کے ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ایمان یا یقین، مابعد الطبیعات کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مابعد الطبیعات کیا ہے؟ عظیم جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ نے حواس کی مدد کے بغیر جن تین بنیادی تصورات کا منطقی استخراج بذریعہ عقل دکھایا ان میں ارادے کی آزادی، روح کی لافانیت اور تصور خدا شامل ہیں۔ہیگل نے انسائیکلوپیڈیا کی پہلی کتاب کے سیکشن اکیس میں لکھا کہ منطق کا معروض یونیورسل ہے لیکن یہ یونیورسل ماورائے حواس ہے۔ ماورائے حواس سے وہی غلط فہمی جنم لیتی ہے جس کا شکار محمد اقبال سمیت دیگر ''ماہرینِ اقبالیات'' آج تک ہیں۔
یہ یونیورسل تجریدی نہیں، کنکریٹ ہے، اس کا تعلق اسی دنیا کے ساتھ ہے جس سے حواس کا تعلق ہے لیکن یہ تعلق کیسے قائم ہوتا ہے اس کی مختصر وضاحت میں اوپر پیش کر چکا ہوں۔ ذہن نشین رہے کہ کانٹ کے نزدیک خدا، روح کی لافانیت اور ارادے کی آزادی جیسے تصورات کا حواس کے ذریعے سے اثبات نہیں کیا جاسکتا۔کانٹ ان تینوں تصورات کی تصدیق عقل سے کراتا ہے۔ لیکن ان میں سے سب سے بلندی پر ارادے کی آزادی کو رکھتا ہے۔ روح کی لافانیت انسان کے اخلاقی عمل سے مشروط ہے، مگر اخلاقی عمل کا تعین خدا نہیں انسان کی عملی عقل کرتی ہے۔
ہیگل کے خیال میں روح کی لافانیت کا سارا قضیہ ہی ماورائے حواس ہے، جہاں تک خدا کا تعلق ہے تو وہ اس کے نزدیک ایسا ''سچ'' ہے جس کی ہیئت منطقی ہے، جس میں حواس کا گزر ہی نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ حس کا بطور 'دوئی' اور بحیثیت وحدالوجود فرق ہمہ وقت ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔ تفکری جدلیات یہ ثابت کرتی ہے کہ ان تینوں مابعد الطبیعاتی تصورات کو جانا جاسکتا ہے۔ان کی منطقی بنتر کی دریافت ہی ان کو جاننے کا عمل ہے۔ جب منطقی بنتر تخالف، افتراق، تضاد، مقدار، اور معیار وغیرہ جیسے مقولات کا استخراج اس ایک وجود کے اندر سے کرتی ہے تو یہ عمل اس وجود کو جاننے ہی کا عمل ہے۔
عام ذہن یہ سوچتا ہے کہ ''سب کچھ'' جان لیا جائے گا تو اس کے بعد ان کے سامنے ایک ہستی آن کھڑی ہوگی یا وہ ایک ہستی کے رو برو ہوں گے۔ جاننے کے عمل کے دوران جو مقولات منکشف ہوتے ہیں وہ اس وجود ہی کا انکشاف ہے جس کو جانا جارہا ہے۔دیکھنا تو یہ ہے کہ شعور اور وجود کیسے تشکیل پائے ہیں۔
وجود،کائنات، مظاہرِ فطرت عقل کی اپنی فعلیت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اقبال نے ہیگل کی تقلید میں خدا کے بارے میں خیال کا اظہار بھی کیا تھا ۔ اسپرٹ کبھی بھی حواس میں نہیں آتی ۔ اسپرٹ اپنی سرشت میں خود شعوری کی حامل تعقل ہے جو خود تک حسیات کی وساطت سے نہیں بلکہ اپنی ہی فعلیت کی ذریعے آتی ہے اور بعد ازاں اپنے ہی عمل کو حواس کے ذریعے معروضی وجود عطا کرتی ہے۔ ہیگل کی ''منطق کی سائنس'' کی ساری بحث تجربیت، عقلیت کی تحدید کے قضیے کو واضح کرتی ہوئی انھیں جدلیاتی منطق کے احاطے میں لے آتی ہے۔
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ حسیات کے خاتمے کے بعد جیسا کہ خود کانٹ، فختے اور بعد ازاں ہیگل نے کردیا تھا، خارجی دنیا، مظاہر فطرت، کائنات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اگر اسپرٹ خود شعور ی کی حامل ہے اور اس کی نوعیت منطقی تعقلی ہے، اور عقل فعال ہے تو خیال جب اپنے ہی ''وجود'' پر منعکس ہوتا ہے یعنی کائنات پر تو اس کو اپنا مافیہا حس کی وساطت کے بغیر ہی دستیاب ہوتا ہے۔
ادریس آزاد نے اقبال ہی کی تقلید میں یہ تصور کر رکھا ہے کہ صرف حسیات ہی علم کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں جب کہ انسان کے تاریخی، فکری ارتقا میں حسی ادراک حقیقت میں فہمی ادراک میں تبدیل ہوچکا ہے جسے مابعد کانٹین جرمن فلسفے میں'' انٹیلی جنٹ پرسیپشن ''کہا جاتا ہے۔ان اہم ترین نکات کی تفہیم کے بغیر محض تجربیت یا حسی ادراک پر کلی انحصار کرنا درست نہیں ہے۔ عقل خود سوال اٹھاتی ہے اور اپنے ہی سوالوں کا جواب مانگتی ہے لہٰذا جدلیاتی انکوائری میں کیوں اور کیسے جیسے الفاظ بہت اہمیت رکھتے ہیں، یہ الفاظ شعوری ہیں، حسی نہیں!
میں یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں کہ قرآن کی وہ آیات جن میں مظاہر فطرت پر غور و فکر کرنے کا کہا گیا ہے اور جس میں'عقل' کے لیے نشانیوں کی بات کی گئی ہے،نہ کہ حسیات کے لیے، اس بات کو کل فلسفیانہ پروجیکٹ کے تسلسل میں دیکھنے کی بجائے کہ جس میں عقل کی حسیات تک تخفیف ممکن نہیں رہتی، آزاد صاحب نے اس سارے فلسفیانہ عمل کو توجہ سے سمجھے بغیر ہی چند مفروضاتی بیانات کو ایک حقیقت کے طور پر پیش کردیا ہے۔ مابعد کانٹین فلسفہ یہ کہیں نہیں کہتا کہ کائنات، مظاہرِ فطرت، خارجی دنیا پر غورو فکر کرنا ختم کر دیا جائے۔ مابعد کانٹین فلسفہ یہ بتاتا ہے کہ حسیات کس طریقے سے فہم، جوکہ وجودکا اثبات کرتا ہے، اس میں ''ٹرانسینڈ'' کرکے ''عقلی حسیت''تک چلی جاتی ہیں اور عقل مظاہر فطرت پر تفکرکے حوالے سے فعال ہوجاتی ہے۔
اب اس کو کسی ایسی دنیا سے حسیاتی ادراک کی ضرورت نہیں رہتی کہ جو اس سے ''الگ'' خارج میں ہے۔ بلکہ عقل بذات خود فعال ہوکر فطرت کے ساتھ اپنے تعلق کی وضاحت کرتی ہے۔ برطانوی تجربیت اور کانٹ کا حسی ادراک انھی معنوں میں فوق تجربیت ہے، کہ اس میں حسی ادراک کی دوئی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن اس میں کائنات، مظاہر فطرت، خارجی دنیا کے حوالے سے انعکاس کا پہلو برقرار رہتا ہے، یہ انعکاس جامدحسیاتی انعکاس کے برعکس کثیر جہتی ہے۔ اس میں فہمی ادراک ان مقولات سے سروکار رکھتا ہے، جو علم کی تشکیل کرتے ہیں۔ تجربیت اورعقلیت کی یہی وہ'ثنویت' ہے جس میں بقول ادریس آزاد '' زمین اور آسمان کا فرق موجود ہے۔''
آزاد صاحب اس حقیقت سے آشنا نہیں ہیں کہ جرمن تفکری جدلیات میں اس کی رد و نمو ہوجاتی ہے۔ فختین اور ہیگلیائی جدلیات میں تجربیت اپنی رد و نمو کے ساتھ موجود ہے، جس میں خارجی انعکاس کی نوعیت حسی نہیں، بلکہ حس سے کہیں زیادہ پیچیدہ، باہمی مربوط،متحرک، کشمکش، تضاد اور افتراق جیسے مقولات کو اپنی سرشت میں سموئے ہوئے ہے، تجربی حسیت جن کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے ۔
ہمیں تو اس بات کا پہلے ہی سے علم ہے کہ تجربیت اور عقلیت فختین اور ہیگلیائی جدلیات میں نمو پاچکے ہیں۔ اس کے باوجود میں اس نکتے کی وضاحت کرنا چاہوں گا، تاکہ ان دو متضاد باتوں میں مضمر اغلاط کو نمایا ںکیا جاسکے۔
حسی ادراک اور عقل کے تفاعل میں بنیادی فرق کیا ہے اور کیا عقل حسیاتی ادراک کے اندر سے اس معروض کو لے کر اس کے خصائص جاننے کی اہلیت رکھتی ہے، جو علم کی تشکیل کرتے ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں ایک مثال پر غور کرنا ہوگا۔ فرض کریں کہ میرے سامنے ایک سیب پڑا ہے۔ وہ سرخ رنگ کا ہے۔ ہاتھ لگانے پر سخت محسوس ہوتا ہے۔ دیکھنے میں گول ہے۔ کھانے میں میٹھا ہے۔ یہ ہے سارے کا سارا حسیاتی ادراک!کیا عقل کو اس حسیاتی ادراک میں کوئی دلچسپی ہے یا عقل اس کے اندر سے اس بنتر کو تلاش کرتی ہے، جو بذاتِ خود عقلی و منطقی تشکیل ہے؟ یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ میرا فہم سیب کو اس کی کلیت میں دیکھتا ہے۔
ظاہر ہے عقل کا کام مقولات کے استخراج کے دوران، جو کہ ایک منطقی عمل ہے، اس معروض کو اپنا عقل جب اپنا یونیورسل تشکیل دیتی ہے تو حسیات کا پارٹیکولر اس کے باطن میں سرایت کیا ہوا ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اگر سیب عقل کا معروض نہ ہو تو عقل اس کے اندر مضمر مقولات کو دریافت نہیں کرسکتی۔ادریس آزاد مزید لکھتے ہیں کہ ''مابعد الطبیعات ایمان کا حصہ نہیں ہے۔'' حوالے کے طور پر آگستے کامتے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ مابعد الطبیعات ایمان کے اگلے مرحلے پر شروع ہوتی ہے۔''
ایمان ان کے نزدیک ''یقین'' میں بدل جاتا ہے اور یہ ''یقین'' کیا ہے؟ اس کا مابعد الطبیعات کے ساتھ کیا تعلق ہے اس کی کوئی وضاحت نہیں کرتے۔ انھوں نے ایمان اور یقین کو اس بنیاد سے ہی کاٹ دیا، جو ایمان اور یقین کے ہونے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی ایمان یا یقین، مابعد الطبیعات کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ مابعد الطبیعات کیا ہے؟ عظیم جرمن فلسفی عمانوئیل کانٹ نے حواس کی مدد کے بغیر جن تین بنیادی تصورات کا منطقی استخراج بذریعہ عقل دکھایا ان میں ارادے کی آزادی، روح کی لافانیت اور تصور خدا شامل ہیں۔ہیگل نے انسائیکلوپیڈیا کی پہلی کتاب کے سیکشن اکیس میں لکھا کہ منطق کا معروض یونیورسل ہے لیکن یہ یونیورسل ماورائے حواس ہے۔ ماورائے حواس سے وہی غلط فہمی جنم لیتی ہے جس کا شکار محمد اقبال سمیت دیگر ''ماہرینِ اقبالیات'' آج تک ہیں۔
یہ یونیورسل تجریدی نہیں، کنکریٹ ہے، اس کا تعلق اسی دنیا کے ساتھ ہے جس سے حواس کا تعلق ہے لیکن یہ تعلق کیسے قائم ہوتا ہے اس کی مختصر وضاحت میں اوپر پیش کر چکا ہوں۔ ذہن نشین رہے کہ کانٹ کے نزدیک خدا، روح کی لافانیت اور ارادے کی آزادی جیسے تصورات کا حواس کے ذریعے سے اثبات نہیں کیا جاسکتا۔کانٹ ان تینوں تصورات کی تصدیق عقل سے کراتا ہے۔ لیکن ان میں سے سب سے بلندی پر ارادے کی آزادی کو رکھتا ہے۔ روح کی لافانیت انسان کے اخلاقی عمل سے مشروط ہے، مگر اخلاقی عمل کا تعین خدا نہیں انسان کی عملی عقل کرتی ہے۔
ہیگل کے خیال میں روح کی لافانیت کا سارا قضیہ ہی ماورائے حواس ہے، جہاں تک خدا کا تعلق ہے تو وہ اس کے نزدیک ایسا ''سچ'' ہے جس کی ہیئت منطقی ہے، جس میں حواس کا گزر ہی نہیں ہوتا۔واضح رہے کہ حس کا بطور 'دوئی' اور بحیثیت وحدالوجود فرق ہمہ وقت ملحوظِ خاطر رہنا چاہیے۔ تفکری جدلیات یہ ثابت کرتی ہے کہ ان تینوں مابعد الطبیعاتی تصورات کو جانا جاسکتا ہے۔ان کی منطقی بنتر کی دریافت ہی ان کو جاننے کا عمل ہے۔ جب منطقی بنتر تخالف، افتراق، تضاد، مقدار، اور معیار وغیرہ جیسے مقولات کا استخراج اس ایک وجود کے اندر سے کرتی ہے تو یہ عمل اس وجود کو جاننے ہی کا عمل ہے۔
عام ذہن یہ سوچتا ہے کہ ''سب کچھ'' جان لیا جائے گا تو اس کے بعد ان کے سامنے ایک ہستی آن کھڑی ہوگی یا وہ ایک ہستی کے رو برو ہوں گے۔ جاننے کے عمل کے دوران جو مقولات منکشف ہوتے ہیں وہ اس وجود ہی کا انکشاف ہے جس کو جانا جارہا ہے۔دیکھنا تو یہ ہے کہ شعور اور وجود کیسے تشکیل پائے ہیں۔
وجود،کائنات، مظاہرِ فطرت عقل کی اپنی فعلیت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اقبال نے ہیگل کی تقلید میں خدا کے بارے میں خیال کا اظہار بھی کیا تھا ۔ اسپرٹ کبھی بھی حواس میں نہیں آتی ۔ اسپرٹ اپنی سرشت میں خود شعوری کی حامل تعقل ہے جو خود تک حسیات کی وساطت سے نہیں بلکہ اپنی ہی فعلیت کی ذریعے آتی ہے اور بعد ازاں اپنے ہی عمل کو حواس کے ذریعے معروضی وجود عطا کرتی ہے۔ ہیگل کی ''منطق کی سائنس'' کی ساری بحث تجربیت، عقلیت کی تحدید کے قضیے کو واضح کرتی ہوئی انھیں جدلیاتی منطق کے احاطے میں لے آتی ہے۔
یہاں پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ حسیات کے خاتمے کے بعد جیسا کہ خود کانٹ، فختے اور بعد ازاں ہیگل نے کردیا تھا، خارجی دنیا، مظاہر فطرت، کائنات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ اگر اسپرٹ خود شعور ی کی حامل ہے اور اس کی نوعیت منطقی تعقلی ہے، اور عقل فعال ہے تو خیال جب اپنے ہی ''وجود'' پر منعکس ہوتا ہے یعنی کائنات پر تو اس کو اپنا مافیہا حس کی وساطت کے بغیر ہی دستیاب ہوتا ہے۔
ادریس آزاد نے اقبال ہی کی تقلید میں یہ تصور کر رکھا ہے کہ صرف حسیات ہی علم کے حصول کا واحد ذریعہ ہیں جب کہ انسان کے تاریخی، فکری ارتقا میں حسی ادراک حقیقت میں فہمی ادراک میں تبدیل ہوچکا ہے جسے مابعد کانٹین جرمن فلسفے میں'' انٹیلی جنٹ پرسیپشن ''کہا جاتا ہے۔ان اہم ترین نکات کی تفہیم کے بغیر محض تجربیت یا حسی ادراک پر کلی انحصار کرنا درست نہیں ہے۔ عقل خود سوال اٹھاتی ہے اور اپنے ہی سوالوں کا جواب مانگتی ہے لہٰذا جدلیاتی انکوائری میں کیوں اور کیسے جیسے الفاظ بہت اہمیت رکھتے ہیں، یہ الفاظ شعوری ہیں، حسی نہیں!