شہریارخان شریف انسان مگر کمزور منتظم
لوگ کرکٹ کی محبت میں پی سی بی میں نہیں آتے،طاقت،میڈیاکی توجہ،غیرملکی دورےاوردیگرعوامل اس میں شامل ہوتے ہیں
KOSLANDA:
''جناب شریف تو میں بھی ہوں پھر تو مجھے بھی چیرمین بنا دیں''
جب میں نے ازراہ مذاق یہ جملہ کہا تو کمرے میں بیٹھے تمام لوگ مسکرانے لگے، پھر میں نے بات کو آگے بڑھایا کہ کرکٹ بورڈ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ہو وہاں تقرر کا معیار صرف شرافت نہیں بلکہ اہلیت کو بھی بنانا چاہیے، شہریارخان یقیناً بہت اچھے انسان ہیں مگر بطور منتظم اپنی دوسری اننگز میں وہ ناکام ثابت ہوئے، پی سی بی میں کسی ایسے شخص کو لانا چاہیے جو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا سکے۔
یہ چند ماہ قبل کی بات ہے جب میں سرکاری ٹی وی کے ایک پروگرام میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی اور سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن حسن خان کے ساتھ شریک تھا، بعد میں جب ہم چائے پینے کیلیے پروڈیوسر کے کمرے میں گئے تو وہاں یہ گفتگو ہوئی تھی، جب ہاشمی صاحب سے پی سی بی پر بات ہوئی تو وہ شہریارخان کی شرافت کے گن گانے لگے تھے، میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں، شہریار صاحب شریف، خاندانی اور ایماندار انسان ہیں، اب تک ان کے حوالے سے کبھی کرپشن کی کوئی اطلاعات بھی سامنے نہیں آئیں، مگر مکمل کوشش کے باوجود دوسری کوشش میں وہ پی سی بی کیلیے بڑے کام نہ کر سکے، نجم سیٹھی عدالتی معاملات سے بچنے کیلیے انہیں ڈمی چیرمین بنا کرلائے اور وہ تمام تر وقت انہی کے زیراثر رہے، درمیان میں شہریارخان نے بعض مواقع پر چند فیصلے بھی کیے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہی، اب ان کی ضرورت نہیں ہے تو پیغام پہنچا دیا گیا کہ ''گھر جا کر آرام کریں'' یوں سیٹھی صاحب ایک بار پھر چیرمین بن سکیں گے۔
البتہ اب یہ عہدہ سنبھالنا ان کیلیے آسان نہ ہو گا، پہلے ٹیم ہارے یا کوئی اور کرکٹنگ فیصلہ غلط ثابت ہو وہ شہریارخان پر ملبہ گرا کر کہہ دیتے تھے ''ان سے پوچھیں، میں تو ان معاملات میں دخل نہیں دیتا'' اب ایک مضبوط ڈھال سامنے سے ہٹ جائے گی، ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ چاہے نجم سیٹھی کچھ بھی کرلیں وہ عوام کی پسندیدہ شخصیات میں شمار نہیں ہوتے، عدالتی جنگ کے خطرے کے ساتھ دیگر محاذوں پر بھی انہیں لڑنا ہوگا، ان دنوں وہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہیں، شکایات و دیگر حربے بھی آزمائے جا رہے ہیں جو آج کے دور میں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکتے، دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ان کے کئی انٹرویوز سامنے آئے مگر کسی میں بھی چیرمین شپ پر بات ہی نہ ہوئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی بھی دن شہریارخان کا استعفیٰ قبول ہو جائے گا اور سیٹھی صاحب تیسری اننگز شروع کر دیں گے۔
انداز سے ایسا لگتا ہے کہ چیرمین نے بادل نخواستہ اعلیٰ حلقوں کا فیصلہ قبول کیا ہے، گزشتہ سال بھی انہیں عہدے سے ہٹانے کیلیے بڑی کوششیں ہوئیں مگر لندن میں ایک ٹیسٹ کرکٹر کے ساتھ وزیراعظم سے ملاقات نے معاملہ ٹال دیا اب ایسا ہوتا نہیں لگتا، اگر شہریارخان کو عہدے کی معیاد مکمل کرنا ہوتی تو استعفیٰ دینے کی ضرورت نہ تھی، بدقسمتی سے اس بار انہیں بطور چیرمین کامیابیاں نہ ملیں، البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوشش بھی نہیں کی، بھارت سے سیریز کا انعقاد یقینی بنانے کیلیے شہریارخان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی کی وجہ سے کامیاب نہ رہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اظہر علی کو ون ڈے کپتان بنانے کے ساتھ کئی دیگر فیصلے غلط ثابت ہوئے، بڑھتی عمر کا بھی اس میں عمل و دخل رہا،پھر نجم سیٹھی کی موجودگی میں وہ کھل کر نہ کھیل سکے۔
حالیہ دور میں مشکوک ماضی والے سابق کرکٹرز کو بھی بورڈ میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا،پی ایس ایل کے معاملات سے شہریارخان دور رہے، دیگر آفیشلز کے ڈھیل دینے کی وجہ سے اسپاٹ فکسنگ کا معاملہ سامنے آیا، چیرمین کی پوسٹ پر کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو بغیر کسی دباؤ میں آئے بڑے فیصلے کر سکے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی وفاداری بڑے عہدوں پر تقرریاں کراتی ہے، جو شخص ایسے عہدہ حاصل کرے وہ کیسے اعلیٰ حلقوں کا پریشر جھیل سکتا ہے، ہم لوگ کہتے تو رہتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کو سیاسی عمل و دخل سے آزاد کرایا جائے مگر ایسا ممکن نہیں، آپ کسی بھی ''سیاسی حکومتی اینکر ''یاکسی اور وفادار شخص کو بطور انعام ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن،ہاکی، کبڈی یا کسی اور کھیل کی سربراہی پیش کریں وہ کبھی نہیں مانے گا، ہاں مگر اربوں روپے کے مالک کرکٹ بورڈز کی حکمرانی پانے کیلیے سب کی رال ٹپکتی ہے، فٹبال کی مثال دیکھیں جب فیفا نے گرانٹ کی بارش کردی تو کھیل پر کنٹرول کیلیے ایسی لڑائی ہوئی کہ معاملہ اب تک حل نہ ہو سکا اور قومی ٹیم مزید زوال کا شکار ہو گئی۔
لوگ کرکٹ کی محبت میں پی سی بی میں نہیں آتے،طاقت، میڈیا کی توجہ، غیرملکی دورے اور دیگر عوامل اس میں شامل ہوتے ہیں، مگر ایسے ''سیاسی ایکٹرز'' کھیل کا تیاپانچہ کر دیتے ہیں، بدقسمتی سے پی سی بی کاگورننگ بورڈ بھی مضبوط نہیں، سب کے اپنے مفادات ہیں اس لیے کسی غلط کام پر بھی کوئی آواز نہیں اٹھاتا،اب جیسے سب جانتے ہیں کہ نئے الیکشن میں نجم سیٹھی کے مقابل کوئی نہیں آئے گا اور وہ آسانی سے چیرمین بن جائیں گے، اگر گورننگ بورڈ مضبوط ہوتا تو کیا ایسا ہو سکتا تھا؟ بہرحال شہریارخان اب جانے والے ہیں، وہ جب خود بھی اپنے دوسرے دور کا جائزہ لیں گے تو انہیں اتنا اطمینان محسوس نہیں ہو گا، انہوں نے کام نہیں کیا یا کرنے نہیں دیا گیا یہ الگ بحث ہے لیکن وہ اتنی بڑی شخصیت ہیں اگر فرائض انجام دینے میں رکاوٹ محسوس کر رہے تھے تو پہلے ہی ازخود عہدہ چھوڑ دیتے، اس صورت میں ان کی عزت کئی گنا بڑھ جاتی،اب کرکٹ بورڈ میں جو بھی مسائل ہیں وہ ان میں برابر کے شریک ہیں، انہیں ہر غلط چیز کیخلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی،شہریارخان کو لوگ بطور شریف انسان تو یاد رکھیں گے مگر منتظم کی حیثیت سے اس بار انہوں نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جس پر داد دی جا سکے۔
''جناب شریف تو میں بھی ہوں پھر تو مجھے بھی چیرمین بنا دیں''
جب میں نے ازراہ مذاق یہ جملہ کہا تو کمرے میں بیٹھے تمام لوگ مسکرانے لگے، پھر میں نے بات کو آگے بڑھایا کہ کرکٹ بورڈ یا کوئی بھی دوسرا ادارہ ہو وہاں تقرر کا معیار صرف شرافت نہیں بلکہ اہلیت کو بھی بنانا چاہیے، شہریارخان یقیناً بہت اچھے انسان ہیں مگر بطور منتظم اپنی دوسری اننگز میں وہ ناکام ثابت ہوئے، پی سی بی میں کسی ایسے شخص کو لانا چاہیے جو اپنی ذمہ داریاں بخوبی نبھا سکے۔
یہ چند ماہ قبل کی بات ہے جب میں سرکاری ٹی وی کے ایک پروگرام میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر نہال ہاشمی اور سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن حسن خان کے ساتھ شریک تھا، بعد میں جب ہم چائے پینے کیلیے پروڈیوسر کے کمرے میں گئے تو وہاں یہ گفتگو ہوئی تھی، جب ہاشمی صاحب سے پی سی بی پر بات ہوئی تو وہ شہریارخان کی شرافت کے گن گانے لگے تھے، میں اس بات سے سو فیصد متفق ہوں، شہریار صاحب شریف، خاندانی اور ایماندار انسان ہیں، اب تک ان کے حوالے سے کبھی کرپشن کی کوئی اطلاعات بھی سامنے نہیں آئیں، مگر مکمل کوشش کے باوجود دوسری کوشش میں وہ پی سی بی کیلیے بڑے کام نہ کر سکے، نجم سیٹھی عدالتی معاملات سے بچنے کیلیے انہیں ڈمی چیرمین بنا کرلائے اور وہ تمام تر وقت انہی کے زیراثر رہے، درمیان میں شہریارخان نے بعض مواقع پر چند فیصلے بھی کیے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہی، اب ان کی ضرورت نہیں ہے تو پیغام پہنچا دیا گیا کہ ''گھر جا کر آرام کریں'' یوں سیٹھی صاحب ایک بار پھر چیرمین بن سکیں گے۔
البتہ اب یہ عہدہ سنبھالنا ان کیلیے آسان نہ ہو گا، پہلے ٹیم ہارے یا کوئی اور کرکٹنگ فیصلہ غلط ثابت ہو وہ شہریارخان پر ملبہ گرا کر کہہ دیتے تھے ''ان سے پوچھیں، میں تو ان معاملات میں دخل نہیں دیتا'' اب ایک مضبوط ڈھال سامنے سے ہٹ جائے گی، ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ چاہے نجم سیٹھی کچھ بھی کرلیں وہ عوام کی پسندیدہ شخصیات میں شمار نہیں ہوتے، عدالتی جنگ کے خطرے کے ساتھ دیگر محاذوں پر بھی انہیں لڑنا ہوگا، ان دنوں وہ میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہیں، شکایات و دیگر حربے بھی آزمائے جا رہے ہیں جو آج کے دور میں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہو سکتے، دلچسپ بات یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ان کے کئی انٹرویوز سامنے آئے مگر کسی میں بھی چیرمین شپ پر بات ہی نہ ہوئی اس سے صاف ظاہر ہے کہ کسی بھی دن شہریارخان کا استعفیٰ قبول ہو جائے گا اور سیٹھی صاحب تیسری اننگز شروع کر دیں گے۔
انداز سے ایسا لگتا ہے کہ چیرمین نے بادل نخواستہ اعلیٰ حلقوں کا فیصلہ قبول کیا ہے، گزشتہ سال بھی انہیں عہدے سے ہٹانے کیلیے بڑی کوششیں ہوئیں مگر لندن میں ایک ٹیسٹ کرکٹر کے ساتھ وزیراعظم سے ملاقات نے معاملہ ٹال دیا اب ایسا ہوتا نہیں لگتا، اگر شہریارخان کو عہدے کی معیاد مکمل کرنا ہوتی تو استعفیٰ دینے کی ضرورت نہ تھی، بدقسمتی سے اس بار انہیں بطور چیرمین کامیابیاں نہ ملیں، البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوشش بھی نہیں کی، بھارت سے سیریز کا انعقاد یقینی بنانے کیلیے شہریارخان نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر دونوں ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی کی وجہ سے کامیاب نہ رہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ اظہر علی کو ون ڈے کپتان بنانے کے ساتھ کئی دیگر فیصلے غلط ثابت ہوئے، بڑھتی عمر کا بھی اس میں عمل و دخل رہا،پھر نجم سیٹھی کی موجودگی میں وہ کھل کر نہ کھیل سکے۔
حالیہ دور میں مشکوک ماضی والے سابق کرکٹرز کو بھی بورڈ میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا،پی ایس ایل کے معاملات سے شہریارخان دور رہے، دیگر آفیشلز کے ڈھیل دینے کی وجہ سے اسپاٹ فکسنگ کا معاملہ سامنے آیا، چیرمین کی پوسٹ پر کسی ایسے شخص کی ضرورت تھی جو بغیر کسی دباؤ میں آئے بڑے فیصلے کر سکے، مگر بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی وفاداری بڑے عہدوں پر تقرریاں کراتی ہے، جو شخص ایسے عہدہ حاصل کرے وہ کیسے اعلیٰ حلقوں کا پریشر جھیل سکتا ہے، ہم لوگ کہتے تو رہتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کو سیاسی عمل و دخل سے آزاد کرایا جائے مگر ایسا ممکن نہیں، آپ کسی بھی ''سیاسی حکومتی اینکر ''یاکسی اور وفادار شخص کو بطور انعام ٹیبل ٹینس، بیڈمنٹن،ہاکی، کبڈی یا کسی اور کھیل کی سربراہی پیش کریں وہ کبھی نہیں مانے گا، ہاں مگر اربوں روپے کے مالک کرکٹ بورڈز کی حکمرانی پانے کیلیے سب کی رال ٹپکتی ہے، فٹبال کی مثال دیکھیں جب فیفا نے گرانٹ کی بارش کردی تو کھیل پر کنٹرول کیلیے ایسی لڑائی ہوئی کہ معاملہ اب تک حل نہ ہو سکا اور قومی ٹیم مزید زوال کا شکار ہو گئی۔
لوگ کرکٹ کی محبت میں پی سی بی میں نہیں آتے،طاقت، میڈیا کی توجہ، غیرملکی دورے اور دیگر عوامل اس میں شامل ہوتے ہیں، مگر ایسے ''سیاسی ایکٹرز'' کھیل کا تیاپانچہ کر دیتے ہیں، بدقسمتی سے پی سی بی کاگورننگ بورڈ بھی مضبوط نہیں، سب کے اپنے مفادات ہیں اس لیے کسی غلط کام پر بھی کوئی آواز نہیں اٹھاتا،اب جیسے سب جانتے ہیں کہ نئے الیکشن میں نجم سیٹھی کے مقابل کوئی نہیں آئے گا اور وہ آسانی سے چیرمین بن جائیں گے، اگر گورننگ بورڈ مضبوط ہوتا تو کیا ایسا ہو سکتا تھا؟ بہرحال شہریارخان اب جانے والے ہیں، وہ جب خود بھی اپنے دوسرے دور کا جائزہ لیں گے تو انہیں اتنا اطمینان محسوس نہیں ہو گا، انہوں نے کام نہیں کیا یا کرنے نہیں دیا گیا یہ الگ بحث ہے لیکن وہ اتنی بڑی شخصیت ہیں اگر فرائض انجام دینے میں رکاوٹ محسوس کر رہے تھے تو پہلے ہی ازخود عہدہ چھوڑ دیتے، اس صورت میں ان کی عزت کئی گنا بڑھ جاتی،اب کرکٹ بورڈ میں جو بھی مسائل ہیں وہ ان میں برابر کے شریک ہیں، انہیں ہر غلط چیز کیخلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی،شہریارخان کو لوگ بطور شریف انسان تو یاد رکھیں گے مگر منتظم کی حیثیت سے اس بار انہوں نے کوئی ایسا کارنامہ انجام نہیں دیا جس پر داد دی جا سکے۔