لوڈ شیڈنگ میں اضافہ
بجلی کے ٹرانسمیشن نظام میں فنی خرابیاں بھی معمول بن گئی ہیں
گرمی کی حدت بڑھنے کے ساتھ ہی ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ۔ عوام پریشان ہیں کہ کیا ہمارے ساتھ صرف وعدے اوروعدے ہی کیے جاتے ہیں، انھیں ایفا کرنے کا کسی حکومت کو خیال نہیں آتا ۔ وفاقی وزیر پانی بجلی و دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اچانک گرمی بڑھنے سے لوڈشیڈنگ کرنا پڑی، رواں ماہ کے آخر تک قابو پالیں گے، ان ایام اور مہینوں میں گرمی تو ہرسال ہی بڑھتی ہے، تو پھر کیوں نہیں بندوبست کیا جاتا،حکومت تو اسی وعدے پر عوام سے ووٹ لے کر آئی تھی کہ وہ بجلی کے بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے گی۔
ملک سے اندھیروں کا خاتمہ ہوگا اور ترقی کا جام پیہہ چل پڑے گا،لیکن ہو تو اس کے برعکس رہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے جو شارٹ فال کی کہانی پچھلے دورحکومت میں تھی وہ اب بھی ہے۔ سرکلر ڈیٹ کا رونا ماضی میں بھی تھا اور شنید ہے کہ وہ اب بھی ہے، جائیں تو جائیں کہاں ۔ ماضی میں بجلی کا بحران چھ ماہ میں ختم کرنے کے دعوے کیے گئے ، بھارت کو بجلی دینے کی باتیں سامنے آئیں ، اب کہا جارہا ہے کہ یہ جوش خطابت ہے ،بہرحال عوام کے نازک جذبات سے کھیلنا سیاست نہیں ہے ،انھیں سچ بتائیں،کیا صورتحال ہے کیا حقائق ہیں ، لیڈروں کو سہانے خواب دکھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے ، ان کی بلا سے عوام چاہے، کتنی اذیت میں مبتلاکیوں نہ ہوں، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ۔ مریض تڑپتے رہیں، طلباوطالبات امتحانات کی تیاری نہ کرسکیں، مکانوں اورکثیرالمنزلہ عمارتوں میں پانی کی شدید قلت ہو، صنعتیں بند ہوں، کاروبار زندگی رک جائے پھر بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
وزیر پانی وبجلی کا کہنا ہے کہ اپریل میں اتنی گرمی اوربجلی کی ساڑھے 17ہزارمیگاواٹ طلب کبھی نہیںہوئی اور یہ کہ اس سال کے آخر تک لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ صفر ہوجائے گا اور صرف ان مقامات پر لوڈ شیڈنگ ہو گی جہاں بجلی چوری ہورہی ہے یا ریکوریز کم ہیں۔ممکن ہے یہ استدلال درست ہو، ان ایام میں بہرحال گرمی میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا لیکن یہ بھی حققیت ہے کہ ابھی درجہ حرارت چالیس ڈگری سے نیچے ہے، لہذا حکومت کے پاس اتنی گرمی میں بجلی کی طلب ورسد میں توازن رکھنے کے لیے وسائل ہونے چاہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔ محکمانہ کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا فقدان بھرپور طریقے سے نظر آتا ہے ۔لوڈشیڈنگ تو ملک کے طول وعرض میں ہورہی ہے اور اس کا دورانیہ چھ سے سولہ گھنٹے تک پہنچ چکا ہے۔
کراچی اور لاہور جیسے شہروں کی خبر تو میڈیا پر آجاتی ہے، دیہاتوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں ۔ توانائی کا بحران دن بدن بڑھ رہا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے جو دعوے کیے گئے اور جن منصوبوں کی تکمیل کی نوید سنائی گئی 'ان کی تکمیل کم از کم حالیہ گرمیوں کے سیزن میں ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ حال تو یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں بجلی کے گرڈ اسٹیشن ٹرپ ہونے کے باعث طویل ترین بریک ڈاؤن معمول بنتے جارہے ہیں، ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی میں بھی گرمی بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی کا بحران سنگین صورتحال اختیار کرگیا۔
بجلی کے ٹرانسمیشن نظام میں فنی خرابیاں بھی معمول بن گئی ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق کراچی میں اتوار کو 12 سے زائد گرڈ اسٹیشن ٹرپ کرگئے، شہر کا بڑا حصہ مسلسل کئی گھنٹے تک بجلی کی فراہمی سے محروم رہا جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔کراچی تو خیر مسائل کی آماجگاہ بن گیا ہے'یہاں تو کوڑے کے ڈھیر تک نہیں اٹھائے جاتے'البتہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے پورے ملک کی صورتحال تقریباً کراچی جیسی ہیہے۔ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کی بہتری پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں'کئی نئے منصوبے شروع کرنے کے اعلانات بھی سامنے آئے اور یہ کہا گیا کہ یہ منصوبے جلد مکمل ہو جائیں گے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پا لیا جائے گا۔ لیکن ہر سال گرمیاں شروع ہوتے ہی بجلی کا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ آخر نظام کی درستی کے لیے موثر لائحہ عمل کیوں مرتب نہیں کیا جاتا۔بجلی پیدا کرنے کے لیے جو منصوبے شروع کیے گئے'ان میں سے جو مکمل ہوئے ان کی پیداوار کہاں گئی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو بیوروکریسی کاغذوں پر منصوبے بنا کر اور ٹھنڈے ہالز میں پریزنٹیشنز دے کر یہ یقین دہانی کرا دیتی ہے کہ اتنے عرصے میں فلاں فلاں منصوبے مکمل ہو جائیں گے اور ان سے اتنی بجلی حاصل ہو گی' یوں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا۔حکمران ان تفصیلات کو سامنے رکھ کر عوام سے وعدے کر لیتے ہیں 'لیکن کاغذوں پر منصوبے مکمل کرنا اور بات ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ایک الگ مسئلہ ہے۔بجلی کی پیداوار سے لے کر اسے کنزیومرتک پہنچانے کے مراحل بہت کٹھن ہیں۔بہرحال حکومت نے اپنے تئیں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے یقیناً سرتوڑ کوششیں کی ہوں گی اور وہ اب بھی کر رہی ہوگی لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ گرمی کے آغاز پر ہی لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے 'ابھی تک جون جولائی کے مہینے آنے ہیں 'ان ایام میں درجہ حرارت 45سے 50ڈگری کے درمیان رہتا ہے' حکومت کو لوڈشیڈنگ کی بہتر مینجمنٹ کے لیے ابھی سے منصوبے بندی کا آغاز کر لینا چاہیے۔
ملک سے اندھیروں کا خاتمہ ہوگا اور ترقی کا جام پیہہ چل پڑے گا،لیکن ہو تو اس کے برعکس رہا ہے ۔ سچ تو یہ ہے جو شارٹ فال کی کہانی پچھلے دورحکومت میں تھی وہ اب بھی ہے۔ سرکلر ڈیٹ کا رونا ماضی میں بھی تھا اور شنید ہے کہ وہ اب بھی ہے، جائیں تو جائیں کہاں ۔ ماضی میں بجلی کا بحران چھ ماہ میں ختم کرنے کے دعوے کیے گئے ، بھارت کو بجلی دینے کی باتیں سامنے آئیں ، اب کہا جارہا ہے کہ یہ جوش خطابت ہے ،بہرحال عوام کے نازک جذبات سے کھیلنا سیاست نہیں ہے ،انھیں سچ بتائیں،کیا صورتحال ہے کیا حقائق ہیں ، لیڈروں کو سہانے خواب دکھانے کی عادت پڑی ہوئی ہے ، ان کی بلا سے عوام چاہے، کتنی اذیت میں مبتلاکیوں نہ ہوں، لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ۔ مریض تڑپتے رہیں، طلباوطالبات امتحانات کی تیاری نہ کرسکیں، مکانوں اورکثیرالمنزلہ عمارتوں میں پانی کی شدید قلت ہو، صنعتیں بند ہوں، کاروبار زندگی رک جائے پھر بھی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
وزیر پانی وبجلی کا کہنا ہے کہ اپریل میں اتنی گرمی اوربجلی کی ساڑھے 17ہزارمیگاواٹ طلب کبھی نہیںہوئی اور یہ کہ اس سال کے آخر تک لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ صفر ہوجائے گا اور صرف ان مقامات پر لوڈ شیڈنگ ہو گی جہاں بجلی چوری ہورہی ہے یا ریکوریز کم ہیں۔ممکن ہے یہ استدلال درست ہو، ان ایام میں بہرحال گرمی میں اتنا اضافہ نہیں ہوتا لیکن یہ بھی حققیت ہے کہ ابھی درجہ حرارت چالیس ڈگری سے نیچے ہے، لہذا حکومت کے پاس اتنی گرمی میں بجلی کی طلب ورسد میں توازن رکھنے کے لیے وسائل ہونے چاہیں۔ایسا لگتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔ محکمانہ کارکردگی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کا فقدان بھرپور طریقے سے نظر آتا ہے ۔لوڈشیڈنگ تو ملک کے طول وعرض میں ہورہی ہے اور اس کا دورانیہ چھ سے سولہ گھنٹے تک پہنچ چکا ہے۔
کراچی اور لاہور جیسے شہروں کی خبر تو میڈیا پر آجاتی ہے، دیہاتوں کا تو کوئی پرسان حال نہیں ۔ توانائی کا بحران دن بدن بڑھ رہا ہے ، اس کے خاتمے کے لیے جو دعوے کیے گئے اور جن منصوبوں کی تکمیل کی نوید سنائی گئی 'ان کی تکمیل کم از کم حالیہ گرمیوں کے سیزن میں ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ حال تو یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہرکراچی میں بجلی کے گرڈ اسٹیشن ٹرپ ہونے کے باعث طویل ترین بریک ڈاؤن معمول بنتے جارہے ہیں، ملک کے دیگر علاقوں کی طرح کراچی میں بھی گرمی بڑھنے کے ساتھ ہی بجلی کا بحران سنگین صورتحال اختیار کرگیا۔
بجلی کے ٹرانسمیشن نظام میں فنی خرابیاں بھی معمول بن گئی ہیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق کراچی میں اتوار کو 12 سے زائد گرڈ اسٹیشن ٹرپ کرگئے، شہر کا بڑا حصہ مسلسل کئی گھنٹے تک بجلی کی فراہمی سے محروم رہا جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔کراچی تو خیر مسائل کی آماجگاہ بن گیا ہے'یہاں تو کوڑے کے ڈھیر تک نہیں اٹھائے جاتے'البتہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے حوالے سے پورے ملک کی صورتحال تقریباً کراچی جیسی ہیہے۔ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کی بہتری پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں'کئی نئے منصوبے شروع کرنے کے اعلانات بھی سامنے آئے اور یہ کہا گیا کہ یہ منصوبے جلد مکمل ہو جائیں گے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پا لیا جائے گا۔ لیکن ہر سال گرمیاں شروع ہوتے ہی بجلی کا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ آخر نظام کی درستی کے لیے موثر لائحہ عمل کیوں مرتب نہیں کیا جاتا۔بجلی پیدا کرنے کے لیے جو منصوبے شروع کیے گئے'ان میں سے جو مکمل ہوئے ان کی پیداوار کہاں گئی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کو بیوروکریسی کاغذوں پر منصوبے بنا کر اور ٹھنڈے ہالز میں پریزنٹیشنز دے کر یہ یقین دہانی کرا دیتی ہے کہ اتنے عرصے میں فلاں فلاں منصوبے مکمل ہو جائیں گے اور ان سے اتنی بجلی حاصل ہو گی' یوں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا۔حکمران ان تفصیلات کو سامنے رکھ کر عوام سے وعدے کر لیتے ہیں 'لیکن کاغذوں پر منصوبے مکمل کرنا اور بات ہے اور اسے عملی جامہ پہنانا ایک الگ مسئلہ ہے۔بجلی کی پیداوار سے لے کر اسے کنزیومرتک پہنچانے کے مراحل بہت کٹھن ہیں۔بہرحال حکومت نے اپنے تئیں بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے یقیناً سرتوڑ کوششیں کی ہوں گی اور وہ اب بھی کر رہی ہوگی لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ گرمی کے آغاز پر ہی لوڈشیڈنگ بڑھ گئی ہے 'ابھی تک جون جولائی کے مہینے آنے ہیں 'ان ایام میں درجہ حرارت 45سے 50ڈگری کے درمیان رہتا ہے' حکومت کو لوڈشیڈنگ کی بہتر مینجمنٹ کے لیے ابھی سے منصوبے بندی کا آغاز کر لینا چاہیے۔