’’نورا جنگ‘‘ شروع

آپ کیسے حکمران ہیں آپکو عوام کی اس تکلیف کا پتہ تک نہیں ہے


[email protected]

اپریل کا مہینہ آگیا، مئی آنے والا ہے ، پھر الیکشن 2018ء کو ایک سال رہ جائے گا جس کی ریہرسل شروع کر دی گئی ہے۔ ''ساس بہو''کے جھگڑے عروج پر ہیں،روایتی سیاستدانوں نے توپوں کے رُخ ایک دوسرے کی طرف موڑ دیے ہیں ،جن کی گھن گرج نے میڈیا میں طوفان برپا کردیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان توپوں میں شادی والے بم ہیں ، جن کی آواز تو بہت ہوتی ہے مگر اثر زیادہ نہیں ہوتا۔ لوگ اسے ''نورا کشتی'' کہہ رہے ہیں۔ عمران خان اسے ''ڈیل'' کہہ رہے ہیں۔ ایک ''میچ فکسنگ'' سے تشبیہ دے رہا ہے۔ ایک ن لیگی لیڈر نے تبصرہ کیا کہ کوئی ڈیل نہیں ہوئی، میچ بھی فکس نہیں ہے، پھرہوا کیا ہے؟ جتنے پکڑے گئے تھے، ایک ایک کر کے سب رہا ہوگئے، سب پر اربوں کی کرپشن کے الزامات تھے، نیب نے مقدمات بنائے، ایف آئی اے اور رینجرز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے ای سی ایل میں نام ڈالے گئے مگر

اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا

ایان علی5 لاکھ ڈالر بیرون ملک لے جاتے پکڑی گئی،عدالت کے کتنے چکر لگے یا لگوائے گئے، یہی پتا نہ چل سکا کہ کس کے ڈالر ہیں ، گرفتار کرنے والا کسٹم آفیسر مارا گیا جب کہ ایان علی رہا ہوکر بیرون ملک چلی گئی، پھر سابق وزیر برائے مذہبی امور حامد سعید کاظمی کو حج کرپشن کیس میں گرفتار کیا گیا، وہ بھی باعزت رہا ہوگئے، ابھی یہ مٹھائیاں تقسیم ہو ہی رہیں تھی کہ شرجیل میمن پاکستان آگئے، انھیں ائیر پورٹ پر گرفتار کیا گیا مگر رہا کر دیا گیا، پھر19ماہ بعد پیپلز پارٹی کے ہی ڈاکٹر عاصم حسین ضمانت پر رہا ہوئے، ان چار سو ارب روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں اور پھر ڈھٹائی کے ساتھ زرداری صاحب نے یہ نعرہ بھی لگا دیا کہ اب اگلی باری ہماری ہے، بقول شاعر

ہم طالب شہرت ہیں ہمیں ننگ سے کیا کام

بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

یعنی پاکستان میں عوامی مسائل ایک طرف مگر زوروں سے ''کچرا'' سیاست کا آغاز ہوگیا ہے، لابنگ کمپنیوں کے خدمات لی جارہی ہیں، میڈیا کو استعمال کیا جارہا ہے ۔ واہ کیا بات ہے کیا انداز حکمرانی ہے، پورا ملک پانی کے صاف پانی سے محروم ہے جب کہ آپ کا لاہور جہاں پر اربوں روپوں کے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں میں بھی لوگ اس نعمت خداوندی کو بھاری رقم کے عوض خریدنے پر مجبور ہیں۔

آپ کیسے حکمران ہیں آپکو عوام کی اس تکلیف کا پتہ تک نہیں ہے، انتہائی افسوس کی بات ہے عوام صرف پانی سے محروم نہیں بلکہ بجلی، گیس، عدالتوں میں انصاف، میرٹ، روزگار، رشوت کے بغیر کام، ملاوٹ کے بغیر اشیائے خوردو نوش ، تعلیم، صحت کے مسائل بھی عوام کی دسترس سے آئے دن دور سے دور ہوتے جارہے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے 2018ء تک ختم کرنے کا دعوی حکمرانو ںنے کر رکھا ہے پایہ تکمیل تک پہنچتا نظر نہیں آتا۔ویسے اللہ ہماری عوام پر رحم فرمائے جن پر ایسے کرپٹ سیاستدانوں کو مسلط کر رکھا ہے جو صرف اعلانات کرتے ہیں عمل درآمدنہیں۔ ہمارے وزیر اعظم نے ملک میں 5ائیرپورٹس کھولنے کا وعدہ کیا لیکن انھیں کھولنا تو درکنار، الٹا بڑے شہروں کے ائیرپورٹس کو گروی رکھ دیا گیا۔

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس میں آج تک کسی سیاستدان نے کرپشن ، اختیارات سے تجاوز ، لوٹ کھسوٹ اور اخلاقی بد دیانتی کے جرم میں سزا نہیں پائی ، اگر کوئی قسمت کا مارا سیاستدان گرفتار بھی ہوا وہ باعزت بری ہو گیا بلکہ دوبارہ اقتدار میں بھی آیا چنانچہ جس ملک میں کرپشن ، لوٹ کھسوٹ اور دیدہ دلیری اور سینہ زوری کی یہ حالت ہووہاں زرداری، نواب، شریف، گوارئیے،کھوسے سب عوام کو لوٹ کر اور اُلو بنا کر چلے جائیں گے۔

پاکستان کی سیاست کا المیہ ہے کہ یہاں کوئی قومی لیڈر نہیں ہے، میاں نواز شریف عوامی سیاستدان ضرور ہیں مگر عوامی قائد نہیں، آصف زرداری کوئی کراؤڈ پلر سیاستدان نہیں، ان کی ذات میں بے نظیر بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو کی طرح کرشمہ بھی نہیں۔ عمران خان مقبول عوامی لیڈر ہیں مگر عوامی سیاستدان نہیں۔لیکن عمران خان کی خاص بات یہ ہے کہ انھیں ابھی تک آزمایہ نہیں گیا۔ میں اس حوالے سے ایک بھرپور کالم لکھوں گا جس میں احاطہ کروں گا کہ عمران خان کیوں؟

خیر موجودہ حالات میں وفاقی سطح پر تینو ںبڑی جماعتیں بھی پی ایم ایل این ، پی ٹی آئی اور پی پی پی ایک دوسرے کے خلاف بظاہر صف آراء ہو چکی ہیں۔ایک عام خیال ہے کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی نورا کشتی یا بقول عمران خان ''مک مکا'' کا مقصد پی ٹی آئی کو تنہا کرنا ہے، پانامہ لیکس کے فیصلے کے بعد اس کا بھی فیصلہ ہوجائے گا لیکن کیا دونوں بڑی پارٹیاں واقعی ''اسٹیٹس کو'' کی سیاست کر رہی ہیں ۔کیا میوزیکل چیئر گیم جاری ہے، آیندہ سال کس کی باری ہوگی، یہی حالات رہے تو کیا ن لیگ کی جھولی میں کامیابیوں کے پھول گر سکیں گے، کچھ بھی ہو، ایماندار اور دیانتدار سیاستدانوں کا مطمح نظر کیا ہونا چاہیے، سیاست کا معمولی طالب علم بھی ہاتھ کھڑا کر کے کہے گا کہ ملک کو کرپٹ سیاستدانوں سے پاک ہونا چاہیے۔

عوامی مسائل سے بے خبر ہمارے سیاستدان ''نورا جنگ'' کی بھرپور تیاریوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ہم بھی ان سیاستدانوں کے سر پر 70سالوں سے سونے کے تاج پہنارہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاستدان عوامی مسائل کو سمجھیں، انھیں حل کریں اور پھر عوام کے سامنے اپنا کام رکھیں اور ووٹ مانگیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ الیکشن سے پہلے دعوے کیے جائیں اور پھر الیکشن ہو جائیں ، اقتدار مل جائے تو اپنے وعدوں سے مکر جائیں... اور عوام کا مذاق اُڑائیں اور اپنے کیے ہوئے وعدوں کو قہقہوں میں اُڑا کر یہ کہتے پائے جائیں کہ اُن کی ''نورا جنگ '' کامیاب ہوگئی...

آیئے ''نورا جنگ'' پر ہم بھی ایک قہقہہ لگائیں اور اس سارے معاملے کو ہوا میں اڑا کر اور 2018میں ان روایتی سیاستدانوں کو جتوا کر اطمینان سے اپنے معمولات زندگی میں مصروف ہو جائیں، رات گئی بات گئی۔ تو آئیے ''نورا جنگ'' کی کامیابی کا جشن منائیں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں